تاریخ ساز اپالو 11 مشن کے ذریعے انسان پہلی بار چاند کی
سطح پر اترا تھا اور امریکی خلانورد نیل آرمسٹرانگ وہ پہلے انسان تھے جن کے
قدم چاند پر پڑے تھے۔ گو چاند کی کچھ حقیقتوں سے پردہ اٹھ چکا ہے لیکن چاند
کے اسرار آج بھی دبیز تہوں میں لپٹے ہوئے ہیں، خاص طور پر چاند کا عقبی حصہ
جو زمین سے ہمیشہ چھپا رہتا ہے اور انسان کے لیے مکمل طور پر ایک راز ہے۔
تاہم وائس آف امریکہ کے مطابق حال ہی میں امریکی خلائی ادارے ناسا کی طرف
سے چار عشروں سے زیادہ پرانی ایک کھوئی ہوئی ریکارڈنگ منظر عام پر لائی گئی
ہے جس میں چاند کی طرف بھیجے گئے اپالو 10مہم کے اس خلائی سفر کا انکشاف
کیا گیا ہے جس میں خلا نوردوں نے چاند کے دور دراز حصوں کے اوپر پرواز کرتے
ہوئے وہاں کچھ عجیب و غریب آوازیں سننے کا تجربہ کیا تھا۔
|
|
سائنس چینل کی نئی سیریز 'ناسا ان ایکسپلینڈ فائلز' یا ’ناسا کی غیر وضاحت
شدہ فائلوں‘ کے مطابق اس ٹیپ ریکارڈنگ میں کسی دوسری دنیا کی موسیقی شامل
ہے جو اپالو ماڈیول کے ریڈیو سے آرہی تھی۔
یہ خلانورد نیل آرمسٹرانگ کے مشہور 1969 کے اپالو 11 مشن کے چاند پر اترنے
کے تاریخی لمحے سے دو ماہ قبل کا واقعہ ہے جب اپالو 10 کے عملہ کمانڈر
تھامس پی اسٹیفورڈ کمانڈ ماڈیول پائلٹ جان ڈبلیو اور ینگ ماڈیول پائلٹ
یوجین اے، اپالو 11 مشن کے چاند پر اترنے کے لیے ایک ڈریس ریہرسل کے طور پر
چاند کے مدار میں داخل ہوئے تھے۔
اس مشن نے چاند کے دور افتادہ حصے کو عبور کیا تھا جس میں ان کے زمین کے
ساتھ تمام رابطے منقطع ہوگئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق خلائی گاڑی جب چاند کے اس پار تھی اور ایک گھنٹے تک زمین کے
ساتھ ریڈیو کے رابطے سے مکمل طور پر باہر تھی اس وقت انھیں زمین پر نا تو
کوئی دیکھ سکتا تھا اور ناہی سن سکتا تھا لیکن اس کے باوجود انھیں وہاں
پراسرار اور عجیب و غریب موسیقی سنائی دے رہی تھی۔
یہ آوازیں ان کے ہیڈ سیٹ کے ذریعے ان تک پہنچ رہی تھیں جسے سن کر وہ بری
طرح چونک گئے تھے۔ انھیں اس بات کا یقین نہیں ہو رہا تھا اور وہ تذبذب میں
تھے کہ اس بات کی اطلاع ناسا کو دی جائے یا نہیں۔
ریکارڈنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ خلانورد جب اپنے ہیڈ سیٹ پر موسیقی جیسی
آوازیں سنتے ہیں تو چونک جاتے ہیں اور الجھن کا ردعمل ظاہر کرتے ہیں کیونکہ
اس وقت خلائی گاڑی مکمل طور پر زمین کے ساتھ ریڈیو نشریات کی رینج سے باہر
تھی۔
علاوہ ازیں تین خلانوردوں کی آپس کی گفتگو سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ انھوں نے
ایسی آوازیں سنی جو اس سے پہلے انھوں نے کبھی نہیں سنی تھیں۔
ناسا کے مطابق اپالو 10 کا عملہ جب مشن کنٹرول کے ساتھ رابطے سے باہر تھا
تو انھوں نے پراسرار آوازیں سنی تھیں جسے انہوں نے آپس کی گفتگو میں 'سیٹیوں'
جیسی آوازیں کہا تھا۔
اس گفتگو کی ریکارڈنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ تین خلانورد آپس میں ان آوازوں کے
بارے میں بات چیت کررہے ہیں ۔
خلائی گاڑی پر سوار عملے کا ایک رکن کہتا ہے کہ تم نے سیٹیوں جیسی آوازیں
سنی؟
|
|
دوسرا جواب دیتا ہے کہ یہ آوازیں بیرونی خلا کی موسیقی کی طرح لگتی ہیں۔
بعد میں ایک کہتا ہے کہ میں تم سے کہتا ہوں کہ یہ موسیقی بہت عجیب ہے!
ایک ساتھی جواب دیتا ہے کہ کوئی ہمارا یقین نہیں کرے گا۔
ایک ساتھی کہتا ہے کہ کیا ہمیں انھیں بتانا چاہیئے؟
دوسرا جواب دیتا ہے کہ میں نہیں جانتا، ہمیں اس کے بارے میں سوچنا ہوگا۔
وہ اس لیے اس تذبذب کا شکار تھے کہ اگر انہوں نے ان آوازوں کے بارے میں
بتایا تو کہیں انہیں خلائی مشن کے لیے ناموزوں نہ قرار دے دیا جائے۔
جب تک خلائی گاڑی چاند کے عقب میں تھی تو یہ آواز تقریباً ایک گھنٹے تک
سنائی دیتی رہیں۔ اپالو 10 میں ہونے والی گفتگو کا ریکارڈ 2008 تک ناسا کے
آرکائیو میں خفیہ اور محفوظ تھی مگر اب اسے غیر مخفی کر دیا گیا ہے ۔
چاند پر موسیقی سننے کی ممکنہ وضاحت کے طور پر سائنس چینل کے شو میں چاند
کے مقناطیسی میدان یا پھر چاند کے ماحول کے ساتھ ریڈیو نشریات کی مداخلت پر
بحث کی جاتی ہے تاہم شو پر موجود ماہرین اس خیال کو مسترد کرتے ہیں جن کا
کہنا ہے کہ چاند پر مقناطیسی میدان نہیں ہے اور نا ہی ایسا ماحول ہےجو
ریڈیو نشریات میں مداخلت کا باعث بن سکتا ہے۔
شو میں اپالو 15 مشن کے ایک خلا نورد ال وارڈن نے کہا کہ خلائی جہاز پر
سوار عملہ اس طرح کے شور کی سماعت کو اچھی طرح سمجھتا ہے اور منطق کے
اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر وہاں کچھ ریکارڈ ہوا تھا تو اس کا مطلب ہے
کہ وہاں کچھ موجود تھا۔
انھوں نے مزید کہا کہ خلا میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جب خلا
نورد جو خلا میں پرواز کرتے ہوئے عجیب وغریب چیزیں دیکھتے یا سنتے ہیں اور
اس کا یقین نہیں کر پاتے ہیں۔
اگرچہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شور کا ماخذ پراسرار ہی رہے گا لیکن 23 فروری
کو 'ناسا کی غیر وضاحت شدہ فائلیں' نامی ایک ٹی وی سیریز میں پراسرار
موسیقی کو بے نقاب کیا جا رہا ہے۔ اس پروگرام کی ایک جھلک 21 فروری کو ٹیلی
کاسٹ کی گئی۔
ناسا کا کہنا ہے کہ خلائی ادارے کی طرف سے خلا میں آوازوں کو ریکارڈ کیا
جاتا ہے لیکن یہ سنائی دینے والی آوازیں نہیں ہوتی ہیں، بلکہ یہ برقناطیسی
لہریں ہیں جو خلا میں سے گزر سکتی ہیں۔
ناسا کی کافی تحقیقات میں ان برقناطیسی لہروں کو ریکارڈ کیا ہے اور ان کا
انسانی سماعت کے مطابق ترجمہ کیا گیا ہے جس سے یہ کسی اور ہی دنیا کی پر
اسرار آوازیں معلوم ہوتی ہیں۔
|