گزشتہ روز انسانی بنیادی حقوق کیلئے کام
کرنے والے ادارے کے اراکین تیمور کمال اور قمر نسیم صاحب کے ساتھ گلبہار
پولیس سٹیشن پشاور جانے کا اتفاق ہوا وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ قمر صاحب
ایک خواجہ سراء کے لئے تھانے آیا ہے۔قمر صاحب سے پوچھا کہ معاملہ کیا ہے؟وہ
رنگین مزاج آدمی ہے اپنے مخصوص انداز سے کہنے لگے کہ کیا بتاؤں یار، ایک
پولیس والے نے چاکلیٹ نامی خواجہ سراء کو اپنے گھر سے اُٹھانے کی کوشش کی
ہے اور وہ خواجہ سراء اُس پولیس والے پر یہ الزام عائد بھی کررہا ہے کہ وہ
مجھ سے زبردستی خواہشات پورے کرنے کا مطالبہ کررہاتھا۔ اتنے میں وہ خواجہ
سراء بھی تھانے کے ویٹنگ روم میں پہنچ گیا۔میں نے تو شرم کے مارے اُس سے
ہاتھ بھی نہیں ملایا لیکن اُس پر نظر پڑتے ہی گہرے سوچ میں پڑگیا۔کیونکہ وہ
خواجہ سراء بمشکل 18سال کا لگ رہا تھا۔پھر میرے ذہن میں اُس واقعے کے حوالے
سے ایک عجیب وغریب فلم بھی چلی کہ اس بیچارے پر اُس وقت کیا گزرا ہوگا۔میں
اسی سوچ میں مگن تھا کہ وہ صاحب بھی آگئے جس نے اُس بے زبان کو زبردستی
اُٹھانے کی کوشش کی تھی۔تھانے میں اُس پولیس اہلکار کی انٹری ،اُس کا انداز
اور سٹائل الگ ہی کہانی ہے لیکن جب قمر صاحب نے اُس سے پوچھا کہ بھائی کیوں
آپ نے اس بے چارے کو اُٹھانے کی کوشش کی تھی ؟ صاحب نے معافی مانگنے کی
بجائے قمرنسیم سمیت چاکلیٹ کو دھمکیاں دینی شروع کئیں۔خیر قمر صاحب نے اُس
پولیس اہلکار کو کیسے توبہ تائب کیا اُس معاملے کے گواہ پولیس سٹیشن کے
ویٹنگ روم کے وہ دیوار ہیں جنہوں نے یہ سب کچھ بغیر آنکھوں کے دیکھا اور
اپنے حافظے میں محفوظ کرلیا۔
معاملہ ختم ہوگیا،چاکلیٹ اپنے راستے پر چلا گیا اور وہ دبنگ پولیس اہلکار
اپنے۔لیکن اس معاملے کے بعد مسلسل یہی سوچتا رہا کہ ہم آخر کب تک ایسا کرتے
رہیں گے؟کب تک معاشرے کے کمزور طبقات کو اپنے پاؤں تلے روندتے چلے
جائینگے؟کب تک لوگوں کے کمزریوں سے فائدے اُٹھاتے رہیں گے؟کب تک اپنے
اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے رہینگے؟ہم اپنے حکمرانوں سے شکوے شکایت
کرتے رہتے ہیں کہ وہ کرپٹ ہیں ،جھوٹے ہیں، یہ ہے وہ ہے ،لیکن کیا ہم نے خود
اپنے آپ پر کوئی احتساب ایکٹ لاگو کیا ہے؟ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ من حیث
القوم ہم جتنے کرپٹ ہیں اُس کے مقابلے میں ہمارے حکمران اور ایلیٹ کلاس کچھ
بھی نہیں۔چاکلیٹ کو اُٹھانے کیلئے کوئی 20گریڈ کا افسر ،وزیریا مشیر نہیں
آیا تھا بلکہ متوسط طبقے کا ایک نوجوان آیا تھا جو بمشکل پولیس ڈیپارٹمنٹ
سے 20ہزار روپے تنخوا لے رہا ہوگا۔ہم تو بدقسمتی سے وہ قوم ہے جو اپنے ماں
باپ تک کو قتل کررہے ہیں،بھائی بھائی کو قتل کرہا ہے ،دوست دوست کے قتل میں
ملوث ہے۔چند روپوں کے عوض کسی قیمتی جان کا ضیاع تو ایسا ہے جیسے آنکھ بند
کرنا اور کھولنا۔
ہم دنیا کے ریس میں سب سے پیچھے ہیں،ساتھ میں دین بھی صرف دوسروں کو سکھاتے
ہیں۔ہم اپنے غلط کاموں کیلئے جس طرح کے دلائل تلاش کر لیتے ہیں یہی ہماری
سب سے بڑی بربادی ہے،ہمیں اپنی غلطی نظر نہیں آتی،پوری دنیا میں ایک ہم ہیں
جو پرفیکٹ ہیں باقی پوری دنیا غلط ٹریک پر چل رہی ہے۔اس تحریر میں چاکلیٹ
اور اُس نوجوان پولیس اہلکار کے ذکر کا مقصد صرف یہی ہے کہ یہ ہمارے معاشرے
میں شاید ایک معمولی سمجھنے والا واقعہ ہو، لیکن مہذب دنیا میں یہ ایسی
غلطی تصور کی جاتی ہے جس کیوجہ سے پورے معاشرے کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
ہم جب تک بحیثیت قوم انسان کو انسان کا درجہ نہیں دینگے، جب تک اپنے
خواہشات کو قابو نہیں کرینگے، جب تک اپنے عہدوں کا غلط استعمال کرنا نہیں
چھوڑینگے ،جب تک لوگوں کے کمزوریوں سے فائدے اُٹھانے کا سلسلہ بند نہیں
کرینگے،جب تک دوسرے انسان پر حکمرانی کی خواہش ترک نہیں کرینگے،جب تک دوسرے
کے حقوق کا احترام کرنا نہیں سیکھیں گے،تب تک ہمارے معاشرے میں ایسے ذلیل و
خوار حرکتیں ہوتی رہینگی۔ہم اُس وقت تک صرف گالیاں دینے تک محدود رہینگے جب
تک ہم اپنے اخلاقیات کے پیپر میں پاس نہیں ہوتے۔
یہ بات بھی ذہین نشین کرنی چاہیے کہ کوئی سیاسی یا سماجی تیظیم یا گروہ
انقلاب یا تبدیلی نہیں لا سکتی جب تک ہم اپنے رویوں میں تبدیلی نہیں لاتے۔
ہمارے حکمران غلط ہونگے ،کرپٹ ہونگے،ہمارے حکمرا ن ہمارے حقوق پر قابض
ہونگے لیکن ہم اُن سے کئی درجے بڑے کرپٹ،غلط اور غاصب ہیں۔ہمیں کسی سیاسی
تحریک کی ضرورت نہیں ہے جو ہمیں انقلاب کے ثمرات سے نوازے۔ ہمارا اہم مسئلہ
خود ہماری ذات ہے۔ہمیں انقلابی لیڈر کی ضرورت نہیں، ہمیں اُس لیڈر کی ضرورت
ہے جو اخلاقیات کا درس دے،تبھی ہم مہذب دنیا کے صف میں شامل ہونے کے قابل
ہو جاینگے۔ اگر معاملات اسی طرح چلتے رہیں اور ہم اسی طرح جانوروں کی
حرکتیں کرتے رہے تو خدارا وہ دن دور نہیں جب ہم خود اپنے آپ کو جانور
سمجھنے لگیں گے۔ہم سے جانور کئی گنازیادہ ترقی یافتہ ہونگے کیونکہ جانوروں
میں چاکلیٹ جیسے کمزور جنس سے زیادتی نہیں ہوتی۔وہ بھی (انسانیت) کو سمجھتے
ہیں کہ مقابلہ اپنے سے کمزور جنس کے ساتھ نہیں ہوناچاہیے بلکہ مقابلہ اگر
کرنا ہے تو مقابل میں اپنی برابری کا جنس ہونا چاہئیے۔ |