تعلیمی امتحانات اور دلچسپیوں کا ٹکراؤ

فون کی گھنٹی بج گئی۔ جو ہی ریسیور اُٹھایا۔ہچکیوں سے بھری ایک بوڑھے شخص کی آواز فریاد بن کر میرے کانوں سے ٹھکراگئی۔بابا سے پوچھاکہ ’’بابا! آپ کون بول رہے ہو‘‘؟ بولے ۔ بیٹا!’’ آپ مجھے بابا ہی کا نام دیں ۔میں بیٹا اپنی قسمت پر رو رہا ہوں۔ چھ بیٹیوں کے بعد مجھے اﷲ تعالیٰ نے ایک بیٹا عطا کر دیا۔ تو میاں بیوی دونوں بہت شادماں و خرما تھے۔لیکن قدرت کا ایسا کرنا ہے کہ اب دونوں میاں بیوی عجیب ذہنی کوفت میں مبتلا ہیں۔اﷲ کسی کو ایسی آزمائش میں نہ ڈالیں۔ہماری آنکھوں کا تارا ’علی‘ دن کو کرکٹ کھیلنے نکلتا ہے اور عصر کو گھر واپس لوٹتا ہے۔رات کو ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر آدھی رات تک تالیاں بجاتا ہے۔اب دو دنوں بعد سالانہ امتحانات شروع ہونے کو ہے۔ اب اس کا کیا ہوگا؟ سوال کو دہراتے ہوئے پھر بولے۔ اب اس کا کیا ہوگا؟بابا نے جواب سُنے بغیر فون بند کر دی۔

کرکٹ کا شیڈول اور ٹائمنگ کچھ اس طرح سے ترتیب دیا گیا ہے کہ PSL کے نام سے سجایا گیا کرکٹ میلہ متحدہ عرب امارات میں ۴ فروری سے شروع ہو گیا۔جو کہ ۲۳ فروری تک شیڈول تھا۔سارے مقابلے پی ٹی وی سپورٹس پر براہِ راست دکھائے جا رہے تھے۔مقابلوں کے اوقات شام چار بجے اور رات نو بجے مقرر تھے۔اس مقابلے کے اختتام پر ۲۴ فروری کو ایشیاء کپ کے میچز بنگلہ دیش کی سرزمین پر شروع ہونے کو ہیں۔یہ مقابلے بھی شام کے بعد شروع ہوں گے۔ایشیاء کپ کا یہ نشہ کرکٹ شائقین خصوصاََ طالب علموں کو ۶ مارچ تک اپنی سحر میں جھکڑ ے رکھے گا۔جوں ہی ۶ مارچ کو ایشیاء کپ کا فائنل کھیلا جائے۔اس کے فوراََ بعد یعنی ۸ مارچ کو ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے عالمی مقابلے انڈیا کی سرزمین پر شروع ہوں گے۔یہ مقابلے ۳ اپریل تک جاری رہینگے ۔
ان سارے مقابلوں کے اوقات کچھ اس طرح شیڈول کیے گئے ہیں۔کہ ایک تو بیشتر ایشیائی ممالک کے سکولوں میں فروری کے پہلے ہی ہفتے سے سالانہ امتحانات شروع ہوتے ہیں۔ بنگلہ دیش ،انڈیا اور پاکستان کے آب وہوا میں اتنا تضاد نہیں ہوتا۔ ہاں البتہ جہاں سطح سمندر سے اونچائی پر واقع بالائی علاقہ جات ہیں۔اُن کے آب و ہوا میں باقی میدانی علاقوں کی نسبت موسمی تغیّر موجود ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں سردیوں کی دو ماہ کی چھٹیوں سے قبل سالانہ امتحانات لیے جاتے ہیں۔ دونوں کے درمیان نئے کورسسز کے شروعات میں ایک ماہ کا فرق ہوتا ہے۔

کھیل واقعی انسان کی جسمانی نشونما اور ذہنی بالیدگی کا ذریعہ ہے۔لیکن نئی نسل اس کا کچھ اور ترجمہ کر رہی ہے۔اس وقت اگر یہ کھیل بامقصد ہے۔تو پی ٹی وی سپورٹس اوردیگر نشریاتی اداروں کیلئے ہیں۔جو اشتہارات کی مد میں چینل کیلئے کروڑوں کی آمدنی کا حساب کر رہے ہیں۔اور اگر یہ کھیل بامقصد ہے۔تو ان کھلاڑیوں کیلئے ہیں۔جن کا فی رن دوہزار ڈالر تک میں بِکتا ہے۔یا پھر اُن لوگوں کیلئے بامقصد ہے۔جن کی نوکریاں اِن جیسے ایونٹس کے کامیاب انعقاد سے وابستہ ہیں۔مجھے نہیں معلوم کہ ہمارے جیسے غریب لوگوں کو ماسوائے پوسٹر جلانے کے اور اپنی ہی گھر کے ٹی وی سیٹس توڑنے کے کچھ اور ہاتھ آیا ہو۔نہ تو دوبئی کا ٹکٹ ہر کوئی خرید سکتا ہے۔اور نہ PEPSI کے Catch a crore" " کے خوش قسمت لوگ بن سکتے ہیں۔

طالب علموں کیلئے جو مطالعاتی اوقات دستیاب ہوتے ہیں۔وہ بیچارے اگر بذاتِ خود میچ نہ بھی دیکھے۔لیکن ٹی وی کمینٹیٹرز اور ٹی وی کے سامنے بیٹھنے والے شوقین کمینٹیٹرز کی داد اور فریادسُن کر میچ دیکھنے کیلئے ٹی وی کی طرف جھانکتے ہیں۔

طالب علموں کیلئے ایک بات واضح کرتا چلوں۔کہ کرکٹ کے اِن مقابلوں کو دیکھنے سے آج تک کسی نے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا۔ہاں تین صورتوں میں وقت کا ضیاع کیا۔

ٹیسٹ میچ کا نتیجہ دیکھنے کیلئے پانچ دن تک ٹی وی کے سامنے بیٹھنا پڑا پھر بھی میچ ڈرا ہو گیا۔

ون ڈے میچ کا نتیجہ دیکھنے کیلئے ۸ گھنٹے ضائع کیے پھر بھی میچ ہار گئے۔

اپنی ٹیم کو سپورٹ کرنے کیلئے امتحان کی تیاری چھوڑ دی۔پھر بھی کھلاڑیوں کے پُتلے جلا دئیے۔بجلی نہ ہونے کی صورت میں جنریٹر کا متبادل انتظام کیا۔پٹرول اور گیس کا بھی نقصان ہوا۔وقت بھی ضائع کر دیا۔ہارنے کے بعد ٹماٹروں ، انڈوں سے استقبال کی ڈر سے پسندیدہ کھلاڑی برقعہ پوش ، چپکے چپکے ائیرپورٹ سے گھر چلے گئے۔کھلاڑیوں کولاکھوں کی تنخواہیں اور مساجر مہیا کرنے کے باوجود بھی ملک کا نام بیچ دیا۔

کھیل کو تفریح کی حد تک رکھنا۔ اپنے قیمتی کیریئرز اور وقت کو کھیل کی نذر نہ کرنا۔اور نہ کھیل کو اپنی مقصد پر ترجیح دینا۔اگر آج کسی نے بھی اپنی اصل مقصد سے منہ موڑا۔اور کھیل و تفریح کو کیرئیر پر مقدم سمجھ بیٹھا۔تو اس نے ماں باپ کے خوابوں کو ٹھیس پہنچائی۔اور مزید یہ کہ مسقبل میں آپکے کیرئیر کو بچانے کیلئے کوئی شاہد آفریدی یا شعیب اختر آپ کے سر پر دستِ شفقت نہیں رکھے گا۔

وقت کے بے رحم موجوں کی زد میں آنے سے پہلے تیرنا سیکھو۔طغیانی لہروں میں پھنسنے کے بعد بابا کی ہچکیاں آنکھوں کے سامنے تصویر لیے پھیرے گی۔اس وقت ایک ہاتھ سے اپنے سر کے بالوں کو کجا کجا کر اور دوسرے ہاتھ سے آنسوکو پوچھنا پڑیگا ۔اپنی بابا کے اُف پر رحم کھاؤ گے۔ توبفضل اﷲ ،زندگی میں کبھی اُف کی نوبت تک نہیں آئے گی۔
Hafiz Abdur Rahim
About the Author: Hafiz Abdur Rahim Read More Articles by Hafiz Abdur Rahim: 33 Articles with 23212 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.