ایجوکیشن ریفارمز
(Shahzad Saleem Abbasi, )
مفتی منیب الرحمان صدر رویت ہلال کمیٹی
اورمولانا حنیف جالندھری نے اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کی مشترکہ پریس
کانفرنس کے دوران کہا کہ سندھ حکومت جمعہ کے کاغذی خطبے والا بل واپس لے
اور اس طرح کا کوئی بل اسمبلی سے پاس نہ کرائے۔انہوں نے کہا موجودہ 80 فیصد
سے زیادہ سکول ، کالج اور یونیورسٹیاں کرائے پر ہیں تو مدارس کو کیوں چھیڑا
جا رہا ہے۔انہوں نے خبردار کیا کہ حکومت اور دیگر طبقات ایسا رویہ اختیار
نہ کریں کہ جس سے یہ ظاہر ہو کہ تعصب اور جانبدارانہ رویہ اختیار کر کے
مدرسہ سسٹم کے خلاف محاذ کھڑا کیا جارہا ہے اور انکی یہ رائے تھی کہ ہمیں
مدرسہ سکول سے ہٹ کے ایجوکشن ریفارمز کی بات کرنی چاہیے۔ ساتویں بین
الصوبائی وزراء کانفرنس کے دوران وزیر مملکت برائے کیڈ ڈاکٹر طارق فضل
چوہدری نے اپنی گڈی خوب چڑھائی اور کہا "کہ وفاق تعلیم کے حصول، معیارِ
تعلیم کو بلند کرنے کے لیے صوبائی سطح پر ہر قسم کا تعاون کرنے کے لیے تیار
ہے، اسلام آباد کا پرائم منسٹر ز ایجوکیشن ٹرانسفارمیشن پلان پورے ملک کے
لیے رو ل ماڈل ہو گا اور یہ ہسٹر ی میں پہلی بار ہو گا کہ سرکاری سکولوں
میں مونٹیسوری اور پری سکول کلاسیں ہوں گی۔انٹرنیشنل پارٹنرز نت نئے
آئیڈیاز پہ کام کریں گے، 422 سکولوں کی مکمل دیکھ بھال کی جارہی ہے۔" لیکن
کیا ڈاکٹر صاحب اس ایجوکشن سیکٹر میں مدارس کا کوئی استحقاق نہیں ہے؟ کیا
مدارس کے بچوں کے یے تعلیمی نظام میں بہتری کے لیے اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد
نہیں کیے جا سکتے ؟ کیا مدارس کے طلباء آپ کی بریفنگ کے عین مطابق جدید
ترقی کے علوم سے آراستہ نہیں ہو سکتے ؟ اور کیا ان مدارس کی تزئین و آرائش
کا کام حکومت کی ذمہ داری نہیں یا یہ مولانا حضرات ہمارے بچوں کو ناظرہ
قرآن پاک پڑھانے ، مناسب دینی تعلیم دینے، حفظ کرانے اور جنازے وغیرہ
پڑھانے تک ہی ہیں؟بقول شاعر یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی۔۔
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی۔۔ ۔ چوہدری صاحب خدا کرے آپ وفاقی
وزیر بھی لگ جائیں ، آپ ینگ ہیں، انرجیٹک ہیں، آپ اصلاحات پہ کام کر سکتے
ہیں ،کم از کم اسلام آباد کے مدارس کا نظام تو خود جا کے دیکھیں تو اندازہ
ہو گا کہ ہم کس صدی میں جی رہے ہیں!!
پنجاب کے مدارس میں تین لاکھ سے زائد طلباء رہائش پذیر ہیں،پورے پاکستان کا
اندازہ لگا لیں کہ کس قدر بڑی کھیپ تیار ہوتی ہے اور کہاں جاتی ہے ! جیسے
آج اٹھنی، چوننی کی کوئی اوقات نہیں ہے اسی طرح 60 کی دہائی سے چلنے والے
ہمارے سکولوں کے نصاب سے پرانی کہانیاں اور اڑھائی سو سال پرانا لیٹریچر
اور افسانے زیرِ بحث لانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں بیچلر
آف آرٹس میں پڑھائی جانے والی انگریزی کی چار کتابیں تو خدانخواستہ سیدھے
سادھے مسلمان کو شکسپئر بنانے کی ناکام سازش ہے جس سے طالبعلم صرف" طوطا
شاہی" سے ہی بمشکل پاسنگ مارکس لیتا ہے۔اسی طرح سکولوں میں اور بیسیوں بکس
ہیں جو کہ ریویو، ری ڈیزائن یا ری سلیبس کی متقاضی ہیں مدارس کے ایجوکیشن
سسٹم میں بھی بے پناہ کمیاں اور کوتاہیاں ہیں جیساکے درسِ نظامی کے علوم
میں فارسی کی ایک کتاب " ایساغوجی" پڑھائی جاتی ہے جسکی قیمت پندرہ سے بیس
روپے ہو گی اور طہ درطہ لپٹی ہوئی کتاب کی لمبائی 1.5 میٹر سے زیادہ ہو گی
اور کتاب بھی فارسی میں ہے اب یہ کتاب نہ عربی میں ہے کہ سرکاردو عالم ﷺ
اور جنت کی زبان ہے اور نہ انگریزی ہے کہ وقت کی ضرورت ۔۔ تو ایسی بے شمار
کتابیں ہیں دینی نصاب میں شامل ہیں جو پڑھانا نہ صرف وقت کا ضیاع ہے بلکہ
طلباء پر بوجھ بھی ہے۔ باثوق ذرائع سے شنید ہے کہ " عسکریت پسندی و انتہاء
پسندی کے خاتمہ کے لیے مسلم لیگ (ن) نے پرویز مشرف کی ماڈل مدارس کے قیام
کی پالیسی درست تسلیم کر لی، پنجاب حکومت کی طرف سے سات درباروں سے متصل
جگہوں میں سات مدارس کے قیام کے لیے پاکستان ایجوکیشن بورڈ کو ماڈل مدارس
بنانے کی پیشکش کر دی ہے اور محکمہ اوقاف مذہبی امور کے ڈائریکٹر جنرل
ڈاکٹر طاہر رضا بخاری نے پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈکے چیئرمین کو خط لکھا
ہے کہ فرقہ وایت ، انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے دینی و عصری علوم کاا متزاج
وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ ابتداء میں سات ماڈل مدارس جنوبی پنجاب میں مندجہ
ذیل درباروں سے متصل قائم کئے جائیں گے جن میں دارلعلوم جامع مسجد
دربارحضرت خواجہ نور محمد سہاروی بہاولنگر سے متصل، دربار خواجہ غلام فرید
کوٹ مٹھن راجن پور،دربار جلال الدین بخاری اوچ شریف بہاولپور، دربار شیخ
محمد فاضل بورے والاوہاڑی، دربار بابا فرید الدین گنج شکر پاکپتن،
درباربہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور دربار سید چراغ علی شاہ والٹن
روڈ لاہور شامل ہیں۔ اسکے ماڈل مدارس بعد دیرے دیرے اسلام آباد ، راولپنڈی
اور دیگر مقامات پر بھی قائم ہونگے۔جنرل مشرف کے دور میں سوسایٹیز ایکٹ میں
دفعہ 21 کا اضافہ مدارس کی رجسٹریشن کے لیے کیا گیا جس کے تحت مدارس کی
رجسٹریشن کا عمل جاری رہا اور بعد میں تنگ ذہنیت کے لوگ خودہی اس پراگندہ
اور متعصب سوچ کی عکاسی کرنے لگے جسکی وجہ سے رجسٹریشن کا عمل پہلے سست روی
کا شکار اور پھر تقریباََ ختم ہو گیا۔ پالیسی پر عمل کرانا تو حکومت کا کام
ہے ورنہ تو ایجوکیشن ریفارمز تو سراسر دھوکا ہے۔
صوبائی وزیر تعلیم جناب میاں مجتبیٰ شجاع الرحمان اور وفاقی وزیر تعلیم
جناب انجینئر محمد بلیغ الرحمان صاحب جان نہ چھڑائی جائے بلکہ کوئی قابلِ
عمل قدم اور مستقل حل ڈھونڈا جائے ۔چند آراء ہیں جن سے شاید مستقبل قریب یا
بعید میں استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔(1 ) مدرسہ رجسٹریشن ایکٹ "کے تحت چھوٹے
بڑے تمام مدارس کی رجسٹریشن بلکل پرائیویٹ سکولز کی طرز پر کی جائے ۔( 2)
تمام مدارس کا ڈیٹا بیس بنایا جائے اور ڈیٹا بیس سافٹ وئیر ڈیویلپ کیا جائے
، (3 ) مدرسے کی داخلی کمیٹی بنائی جائے جو اسکی نگرانی کرے ، مدرسے کی
نگران کمیٹی کا ہیڈ ضلعی کمیٹی کا بھی ممبر ہو ، ضلعی کمیٹی میں علاقے کا
ایم این اے/ ایم پی اے، پولیس اسٹیشن کا ایس ایچ او، بڑے کالج یونیورسٹی کا
پروفیسر، اکادمی ادبیات کا نمائندہ، نصاب بنانے مرتب کرنے والے اداروں کے
نمائندے وغیرہ بھی شامل ہوں او ر ان کمیٹیوں کے ہیڈز کا ماہانہ اجلاس بلایا
جائے جسمیں رپورٹس پیش ہوں اور منٹس ایجوکیشن منسٹری، داخلہ منسٹری،اکادمی
ادبیات، ایس ایس پی آفس، مدرسہ بورڈ پاکستان اور ایک ایک کاپی مدرسہ کمیٹی
ممبران کے ذریعے ادارے میں آویزاں کر ا دی جائیں۔ (4) نصاب میں اصلاحات کی
جائیں، بے مقصد ، مشکل غیر اہم نصاب کو ختم کر کے عام فہم ، با مقصد اور
جدید خطوط پر استوار نصاب تعلیم مدارس اور سکولوں میں رائج کیا جائے۔ ) 5 )
دوہرا نظام ِ ختم یا کم از کم بہتر معیار تعلیم غریب آدمی کی پہنچ میں کیا
جائے۔(6) ہر مسلک کے مدارس کے نہیں تو کم از کم ایک مسلک کے مدارس میں تو
یکساں نظام تعلیم کے لیے مدارس بورڈ ز سے بات کی جائے۔
(7) عارضی شہرت سے ہٹ کر میٹر و دانش سکول سسٹم اور عارضی طور پر ماڈل
مدارس ایجوکشن سسٹم لانے کے بجائے ہر مدرسہ یا کم آمدنی والے یا کم وسائل
رکھنے والے سکولوں اور مدراس کو مفت کمپیوٹر لیب ، اساتذہ کی ٹریننگ کے لیے
عملہ، بچو ں کی ذہنی و جسمانی نشوونما کے لیے کھیلوں کا انتظام، پلے
گراؤنڈز، ٹینس، سکاش، والی بال ، جھولوں وغیرہ کا بندوبست کر کے دیا جائے
اور جن مدارس و سکولوں کے پاس جگہ ہے تو کھیلوں کے حوالے سے بہتر ین ڈیزائن
کر کے دیا جائے (8 ) تمام دینی مدارس کو بھی عصری اداروں کی طرح سائنس،
کمپیوٹرااور جدید علوم کی تعلیم کے لیے آمادہ کیا جائے اور اسباب بہم بھی
فراہم کیے جائیں۔ (9) انٹر سکول مدارس و سکول مقابلہ جات منعقد کر کے بھی
انتہا بسندی کے رجحانات کو کم کیا جائے۔(10) یورپ کے ایجوکیشن سسٹم یعنی
حقیقی معنوں میں " سمسٹر سسٹم " کا انتخاب کیا جائے اور بچے طلباء کی رٹہ
جیسی لعنت سے جان چھڑائی جائے ۔(11) مارپیٹ کے کلچر کو ختم کر کے استاد
شاگرد کے درمیان پیارے رشتے کواخلاص و محنت سے ہم آہنگ کیا جائے۔(12 )
ڈاکٹر طارق فضل چوہدری صاحب تمام مدراس کے طلباء و طالبات بھی سکول ، کالج
کے بچوں کیطرح آپ کے بچے ہیں ۔ ایجوکیشن ریفارمز کا عام اطلاق ہر تعلیمی
نظام میں ضروری ہے مدرسہ ہو سکول ، اسی میں ان تمام قوم کے بچوں کا تابناک
مستقبل پنہاں ہے اور ہاں ایجوکیشن ریفارمز میں مولانا فضل الرحمان صاحب کو
ضرور شامل کریں اور انکا شکوہ بھی دور کریں ۔ |
|