نفاذ اسلام اور ہماری ِ زندگی

اسلام کی طویل فکری اور عملی تاریخ میں مسلم اہل علم و دانش کو گوناگوں چیلنجوں اور مبارزتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دور تابعین میں وضع حدیث اور قضاء قدر کے بارہ میں شبہات سے لے کر دور جدید کے مغربی علوم و فنون اور تہذیب و تمدن کے استیلاء تک کا یہ سارا زمانہ ایک مسلسل فکری جہاد اور علمی دفاع سے عبارت ہے۔ اس پورے دور میں اہل علم نے نہ صرف حالات زمانہ کو پیش نظر رکھا، بلکہ ہر نئی فکری مبارزت کے جواب میں اکثر و بیشتر انہی ہتھیاروں اور وسائل سے کام لیا جن سے کام لے کر اسلام پر اعتراضات کئے گئے۔ اس کی کامیاب ترین مثال یونانی علوم و فنون سے مسلمانوں کا معاملہ ہے۔ ابتدائی سو ، سوا سو سال کے عبوری دور کے بعد بھی مسلمان مفکرین نے یونانی منطق اور فلسفہ سے اسلامی عقائد کی تفسیر و توضیع کی اور اسلامی تعلیمات کی تبیین و تفہیم کا وہ کا م لینا شروع کر دیا تھا جس کے عجیب و غریب نمونے امام غزالی ، امام رازی ، امام شاطبی اور شاہ ولی اﷲ دہلوی وغیرہ کی تحریروں میں ملتے ہیں۔

دور ِ جدید میں اس کام کی اہمیت اور پیچیدگی پہلے سے بہت زیادہ ہو گئی ہے ، پہلے مبارزت صرف ایک میدان میں تھی ، یعنی فلسفہ، منطق اور عقلیان کا میدان، اب یہ مبارزت زندگی کے ہر میدان میں ہے، فلسفہ اور انسانی علوم سے لے کر روزمرہ زندگی کے مظاہر تک ، آج ہر قدم پر دنیائے اسلام کو بیرونی اور خارجی قوتوں سے قدم قدم پر نبرد آزما ہونا پڑ رہا ہے۔ ان مین سے بعض مقامات میں یہ نبرد آزمائی نسبتاََ زیادہ اہم اور فوری نوعیت کی ہے اور حالات کا تقاضا ہے کہ ملت مسلمہ ان معاملات کے بارہ میں فوری طور پر اپنے کو صف آراء کرے اور اپنے وسائل و اسباب کو کماحقہ استعمال کرے۔ ان اہم اور فوری امور میں ایک انتہائی اہم مسئلہ قانونی ، دستوری اور عدالتی معاملا ت کا ہے، اس میدان میں مغربی تصورات و افکار کے تسلط اور غلبہ نے ایک بڑے طبقہ کے ذہن کو متاثر بلکہ ماؤف کر دیا ہے کہ یہ طبقہ اسلام کے تصورات و نظریات کو سمجھنے میں اس طرح مشکل محسوس کرتا ہے جس طرح کوئی بھی مغربی دانشور۔۔۔ تاہم یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ دنیائے اسلام میں اس صورت حال کے خلاف ایک شدید رد عمل اُٹھتا نظر آرہا ہے جو اگر مثبت اور تعمیری خطوط پر آگے بڑھا تو ایک بڑی خوشگوار تبدیلی کا ذریعہ بنے گا۔

اسی رد عمل کا مظہر وہ دلی آرزو ہے جو اسلام کے تصور عدل و احسان پر مبنی معاشرہ کے قیام اور اسلامی تصورات کے عملی نفاذ عالم اسلام کے گوشہ گوشہ اور چپہ چپہ میں اُٹھتی نظر آتی ہے، اسی آرزو کی تکمیل کے انتظار میں آج لاکھوں گردنیں کٹ رہی ہیں، لاکھوں گھر اُجڑ رہے ہیں، کتنے ہیں جو گھر سے بے گھر ہو رہے ہیں اور کروڑوں دل ہیں جو اس دیرینہ خواب کی تعبیر کی تمنا میں دھڑک رہے ہیں، لیکن اس خواب کی تعمیر اس قدر آسان نہیں ہے جتنا ہم میں سے بعض حضرات سمجھتے ہیں۔ اس خواب کی تعبیر ایک طویل سفر کی متقاضی ہے، ایسا طویل سفر جس کی پہلی منزل ، ایک فکری تبدیلی، ایک تعلیمی تحریک اور ایک ذہنی انقلاب سے عبار ت ہے، جب تک اسلام کے تصورات و تعلیمات پر گہرا ایمان رکھنے والی، دور جدید میں ان کو روبہ عمل لانے کے جذبہ سے سرشار اور اس راہ کی مشکلات سے کلی طور پر آگاہی اور ادراک رکھنے والی نسل وجود میں نہیں آئے گی اس وقت تک اس خواب کو حقیقت کا جامہ نہیں پہنایا جا سکتا۔ اس پہلی منزل کا پہلا قدم اسلامی فقہ اور قانون کی کماحقہ تعلیم و تدریس اور اس سلسلہ میں ضروری مردان کا ر کی تیاری کا کام ہے، ایسے مردان کار جو اسلامی فقہ کو اس کے بنیادی مآخذ و مصادر سے براہ راست سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہوں، جن کو رائج الوقت قانونی، دستوری اور عدالتی تصورات سے گہر ی لیکن ناقدانہ واقفیت حاصل ہو، جو شریعت کی حقانیت اور صلاحیت پر غیر متزلزل ایمان رکھتے ہوں اور دورِ جدید میں اس کی تعلیمات کو روبہ عمل لانے کا مومنانہ جذبہ رکھتے ہوں،ایسے افراد کی تیاری وقت کی وہ اہم ضرورت ہے جس کو ہماری ملی ترجیحات میں ابھی تک وہ جگہ حاصل نہیں ہو ئی جو اس کو ہونی چاہیے تھی۔

بلاشبہ ہمارے بہت سے دینی اداروں اور اسلامی تعلیم کے مراکز میں فقہ کی تدریس و تحقیق کا کام ہو رہا ہے اور فقہی مو ضوعات پر کتابیں بھی شائع ہوتی رہتی ہیں لیکن یہ سب کچھ قطعاََ ناکافی ہے ۔ اس تعلیم و تحقیق کا ہمارے قانونی نظام اور دستوری اداروں پر اثر نہ ہونے کے برابر ہے۔ وطن ِ عزیز میں نفاذ اسلام کے کام میں پیش رفت نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔
Muhammad Jawad Khan
About the Author: Muhammad Jawad Khan Read More Articles by Muhammad Jawad Khan: 113 Articles with 182587 views Poet, Writer, Composer, Sportsman. .. View More