آج سے چودہ سال قبل کی دنیاپرہم جب
ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ دنیا اور دنیامیں بس نے والے
انسان قعرمذلت میں پڑے ہوئے تھے ، کوئی کسی کا پرسان حال نہ تھا ، پوری
دنیا تباہی و بربادی اور ذلت ورسوائی کے دہانے پر کھڑی کپکپارہی تھی ،
انسانیت نام کی کوئی چیز نہ تھی ،زندگی کے سمندر میں چھوٹی مچھلی بڑی مچھلی
کو کھائے جارہی تھی ،صنف نازک اور حسین وجمیل دو شیزاؤں پر ظلم وستم کے
پہاڑ توڑے جارہے تھے ،موسم سرما میں ان پر خنک ہوائیں چلائی جارہی تھیں،
پیدا ہوتے ہی ان کو زندہ درگور کردیا جاتاتھا، ان کی پیدائش کانام سنتے ہی
چہرے پر سیاہ بادل چھاجاتے تھے ، زناکاری ، شراب نوشی ، قمار بازی ، دھوکہ
دہی ، عیاری ومکاری اور سود خوری عام ہوچکی تھی،شرک وبت پرستی سے مشرق
ومغرب بھر چکا تھا ، پوری انسانیت پر ظلم وستم کے گھٹاٹوپ بادل چھائے ہوئے
تھے ، حق کا نام ونشان ایک حرف غلط کیطرح مٹ چکا تھا ۔
رحمت خداوندی جوش آئی اور سرزمین عرب میں نبی امی ، یتیموں کے والی ، بے
کسوں کے مولا ، آقائے نامدار مدنی تاجدار جناب محمد رسول اﷲ ﷺ کو ختم نبوت
کا تاج پہناکر اور قرآن کریم جیسی لافانی قانون ، زندہ جاوید دستورِ حیات
عطاکرکے مبعوث فرمایا ، اور اﷲ تبارک وتعالی نے اس نبی امی خاتم الانبیا کے
ذریعہ ۲۳سال کی قلیل مدت میں مردہ دلوں میں روح پھونک دی ، عرب کے بدؤں کو
جہانبانی ،گمراہ انسانوں کو نجوم ہدایت بنادیا ، صحرا نوردوں کو قیصرو کسریٰ
کے محلات میں پہونچادیا ، تند خو ، گنوار بدؤوں کو حلم واخلاق کا پیکر بنا
دیا ۔
آخر وہ کون سی طاقت تھی جس نے ظروف ِقاسیہ ، سخت وپتھر دل انسانوں کو
بردباری کا جیتا جاگتانمونہ بنا دیا ، وہ صرف اور صرف نبی کریم ﷺ کا لایا
ہوا لافانی کتاب تھی ، وہ کتاب کیا تھی بلکہ دنیا والوں کے لئے راہ ہدایت
تھی ، اورایک کھلم کھلا معجزہ تھا ، جس نے عرب کے فصیح وبلیغ شعراء، طلاقت
لسانی کے ماہرین ، عربی زبان وادب میں ید طولی رکھنے والے فصحاء و بلغاکو
اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا اور ببا نگ دہل یہ اعلان کردیا کہ
اے زبان دانی کے دعویدارو!اپنے سامنے ساری دنیا کو عجمی اور گونگے سمجھنے
والو! آو میدان عمل میں ، اگرتمہیں اپنی زبان دانی پر فخر ہے تو قرآن کی
نظیر پیش کر کے دکھاؤ، اگر اتنا نہیں کرسکتے تو قرآن جیسی کوئی ایک سورت ہی
پیش کرکے دکھاؤ، اتنا بھی نہیں کرسکتے تو کم از کم قرآن کی ایک آیت ہی لے
آو، اورکان کھول کر سن لوقیامت تک تم اس کی نظیر نہیں لاسکتے خواہ تم اس کے
لئے ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ بن جاؤ۔
چنانچہ بہت سے ناعاقیت اندیشوں نے قرآن کے چیلینج کو قبول کیا ،لیکن جب
قرآن کی اسلوب بیانی اورفصاحت وبلاغت کو دیکھا تو اس کے سامنے جھکنے پر
مجبورہوگئے ۔ اسی طرح چند مسخروں نے قرآن کے مقابلے میں کچھ مضحکہ خیز جملے
بنائے تھے جو تاریخ کے صفحات میں آج تک محفوظ ہیں اور اہل عرب ہمیشہ ان کی
ہنسی اڑاتے آئے ہیں ۔
oمثلاکسی نے سورۃ الفیل اور سورۃ القارعہ کے انداز پر یہ جملے کہے تھے،
’’الفیل والفیل وماادراک ماالفیل ، لہ مشفر طویل وذنب اثیل ، وماذاک من خلق
ربنا لقلیل‘‘ یا کسی نے قرآن کے مقابلے میں یہ جملے بنائے تھے ’’الم ترالی
ربک کیف فعل با لحبلی ، اخرج منھا نسمۃ تسعی بین شر اسیف وحشی‘‘ یا مسیلمہ
کذاب نے ان جملوں کو قرآن کے مقابلے میں اپنی وحی قرار دیا تھا کہ ’’یا
ضفدع نقی کم تنقین ،لاالماء تکدرین ولاالوارد تنفرین‘‘ ( بیان اعجاز القرآن
للخطابی )
اسی طرح قرآن کے کافی عرصے کے بعد عربی کے مشہور ادیب اور انشاء پرداز عبدا
ﷲ ابن مقفع مترجم کلیلہ دمنہ (متوفی۱۴۲ھ) قرآن کریم کا جواب لکھنے کا ارادہ
کیا لیکن اسی دوران اس نے کسی بچے کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا ’’ یا ارض
ابلعی مائک ویا سماء اقلعی ‘‘ تو پکا ر اٹھا کہ گواہی دیتاہوں کہ اس کلا م
کا معارضہ نا ممکن ہے اور یہ ہرگز انسانی کلا م نہیں ہے(اعجاز القرآن
للباقلانی)۔
قرآن کریم آسمانی کتابوں میں واحد کتاب ہے جس کی حفاظت کی ذمے داری خود
خدائے وحدہ لاشریک نے لی ہے ، اور اس کیلئے مؤنین کے سینوں کو کشادہ کردیا
ہے جس کی وجہ سے قرآن آج بھی بغیر کسی رد وبدل کے سینہ بسینہ ہم تک پہونچ
رہا ہے ۔ قرآن کو مٹانے کے لئے نہ جانے باطل طاقتوں نے کتنی جد و جہد کی
کرڈالی خود ہندوستان کے اندر انگریزوں نے قرآن کریم کو ناپید کرنے لئے نہ
جانے کتنے کتب خانوں کو نذر آتش کرڈالا لیکن کبھی بھی وہ اپنے مقصد میں
کامیاب نہ ہوسکے کیوں کہ جسکی حفاظت دنیا کاپالنہار کرے اسے کون مٹاسکتا
ہے؟
علامہ زمخشری معتزلی نے کیا خوب بات کہی ہے ’’ کتاب بس یہی ایک کتاب کامل
ہے اس کے سامنے جتنی کتابیں لائی جائیں گی سب ناقص ہی ہونگی‘‘ یہ تو انہوں
نے خادم قرآن کی حیثیت سے کہا ہے اور ان کو کہنے کایہ حق بھی تھا ۔ لیکن
قرآن کا منکر اور مادیت وعقل کا پرستار اور وہ بھی بیسویں صدی کاملحد کہ
رہا ہے انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے گیارہویں ایڈیشن میں ’’The most widely
read book in th wold ‘‘ یعنی قرآن وہ کتاب ہے جو دنیا مین سب سے زیادہ
پڑھی جاتی ہے۔ (جلد نمبر ۱۵ صفحہ نمبر۸۹۸)اسی طرح پرنسٹن یونیورسیٹی کے
پروفیسر ہٹی کا بیان ہے ’’ قرآن عہد آخریں کی کتابوں میں سب سے کم سن کتاب
ہے لیکن دنیا میں جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں سب سے زیادہ پڑھی جانے
والی یہی کتاب ہے ۔(تاریخ اہل عرب صفحہ نمبر ۱۲۶)
آج بھی قرآن کریم میں وہی اعجاز برقرار ہے قوموں میں آج بھی انقلاب آسکتاہے
، پھر عروج وارتقاکے منازل طے کئے جاسکتے ہیں ، ظالم وجابر بادشاہ آج بھی
مومنین کے غلام ہوسکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ ہم قرآن کے مطابق زندگی
گذاریں ، قرآن کو پڑھیں اس کے احکامات پر غور کریں اور اس کے پیغامات کو
سپر پاور ممالک کے حکمرانوں کے سامنے پیش کریں جیسا کہ آج سے چودہ سال قبل
آپﷺ نے اس وقت کے سپرپاور بادشاہوں کے سامنے پیش کرکے کہا تھا ’’اسلم
تسلم‘‘ |