سیرت کا مطالعہ کیوں ضروری ہے؟

شاہد شہر کے سب سے مشہور کالج میں پڑھتا تھا۔ اسے کئی زبانیں سیکھنے کا شوق تھا۔ اسے بتایا گیا تھا کہ کوئی بھی زبان سیکھنے کے لیے اس کے اصل مآخذ کا مطالعہ ضروری ہوتا ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے اس نے انگریزی زبان سیکھنے کا ارادہ کیا۔ اسے معلوم تھا کہ اکثر علوم جدیدہ اسی زبان میں ہیں۔ چنانچہ کچھ ہی عرصہ میں اس نے شیکسپئر ، جون آسٹن،جارج آرول، ورڈزورتھ، وغیرہ اکثر انگلش رائٹرز چاٹ لیے تھے۔ اس پر حیرت کا ایک نیا جہان کھل رہا تھا۔ بات آگے بڑھی تو اس کے ہاتھ مذہبی لٹریچر لگ گیا۔ ایک مسلمان ہونے کے ناتے اسے وہ کتابیں زیادہ اچھی لگتیں جن میں اسلام کا تذکرہ ہوتا ، جلد ہی وہ آر اے نکلسن، ایڈورڈ ولیم لین، تھامس آرنلڈاور ولیم جونز جیسے مستشرقین سے واقف ہو گیا۔ ان کا طریقہ استدلال اسے بہت بھایا۔ اسے لگتا کہ وہ’’ ٹو دی پوائنٹ‘‘ بات کرتے ہیں۔ ویسے بھی اسے دلیل سے کی گئی باتیں زیادہ اچھی لگتیں۔ آج اس کے ہاتھ سولہویں صدی کے ایک مصنف فرانسس بیکن (1560-1626ئ) کا ایک مقالہ لگا۔ جس کا عنوان تھا’’ہمت و استقلال (Of Boldness) ‘‘۔ اسے حیرت کا شدید دھچکا لگا جب اس نے اس میں یہ عبارت پڑھی۔
’’محمدﷺ نے لوگوں کو یقین دلایا کہ وہ پہاڑی کو اپنے پاس بلائیں گے تو وہ ان کے پاس چلی آئے گی۔ لوگ جمع ہوئے، محمد نے پہاڑی کو اپنے پاس آنے کو کہا ، وہ بار بار اسے پکارتے رہے اور جب پہاڑی اپنی جگہ کھڑی رہی تو وہ ذرا بھی نہ شرمائے ، انہوں نے کہا ’’اگر پہاڑی محمد کے پاس نہیں آسکتی تو محمد پہاڑی کے پاس جا سکتے ہیں۔‘‘

اسے تو بتایا گیا تھا کہ محمد پرفیکٹ انسان تھے، انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا تھا، لیکن کیا اتنا بڑا مصنف جھوٹ بول سکتا ہے؟ وہ تشویش میں مبتلا ہو گیا۔ اس نے سیرت پر مشتمل کئی انگلش کتابیں دیکھ ڈالیں۔ اسے محسوس ہوا کہ وہ آج تک غلطی پر تھا۔ اسے جو کچھ بتایا گیا تھا، وہ سب غلط تھا۔ آج ہی اس نے ہلدی رابرٹ (1133ئ)کا مضمون پڑھا جس میں اس نے لکھا کہ ’’محمد نے اپنی رسالت کو ایک بیل کے ذریعے ثابت کیا تھا۔ جسے محمد نے پوشیدہ طور پر سدھایا ہوا تھا۔ یہ بیل ان کے حکم کا تابع تھا، جب وہ کہتے ، اٹھتا تھا۔ اور جب بیٹھنے کا حکم دیتے تب بیٹھ جاتا تھا۔ ‘‘

آندرے ڈینڈولو وینی نے لکھا کہ ’’محمد نے ایک سفید کبوتر کو اس طرح سدھا یا تھا کہ وہ ان کے شانے پر آکر بیٹھ جاتا اور ان کے کان میں سے دانے چن چن کر کھاتا تھا۔ خدیجہ عرب کی ایک شہزادی تھی، جس کی دولت کی بنا پرمحمد کو دنیاوی وجاہت حاصل ہو گئی تھی۔ ان کا دست راست ایک راہب ’’بحیرا‘‘ تھا جو محمد کی مدد سے کلیسا کو نقصان پہنچانا چاہتا تھا۔‘‘

اس نے یہ بھی لکھا کہ’’ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نعش تین دن کھلی فضا میں پڑی (نعوذ باللہ) گلتی سڑتی رہی‘‘۔ شاہد کا دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا۔ اس نے آج تک ایسی تحقیق نہ پڑھی تھی۔ اسے تو اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سطحی معلومات حاصل تھیں۔ جو اس نے اپنے سکول دور میں اپنے ساتھی طلبا سے سنی تھیں۔ لیکن اب وہ اپنی پہلی معلومات سے دستبردار ہونے کو تیار ہوگیا تھا۔ اس کے خیال میں کوئی اتنی دیدہ دلیری کے ساتھ کیسے جھوٹ بول سکتا ہے؟ اتنے بڑے مصنفین آخر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں خوب معلومات رکھتے ہوں گے۔ رابرٹ کی کتاب (Chronica Mendosa et ridiculsa saracenorum) کا انگریزی ترجمہ اس کے ایمان پر آخری ضرب ثابت ہوا اور اس کا دل اسلام سے اچاٹ ہو گیا۔ اُسے لگا اس کے والدین نے اسے جہالت کی راہ پرلگا رکھا تھا۔ اس نے اپنا نام شاہد سے تبدیل کر کے Shad رکھ لیا اور اسلام سے دستبردار ہو گیا۔

اسی حالت میں اُس نے اپنی زندگی کے بیس سال گزار دیے۔ اسے اسلام سمیت ہر مذہب سے نفرت ہو گئی تھی، اسے لفظ مذہب زہر لگتا، وہ سمجھتا تھا کہ جب اسلام ایسا مذہب خرافات کا مجموعہ ہو سکتا ہے تو باقی مذاہب کیوں نہیں؟ اُس نے اس موضوع پر سوچنا بھی چھوڑ دیا تھا۔

بالآخر اس کی ہدایت کا فیصلہ’’ کریم صاحب‘‘ کی صورت میں ہوا۔پہلی نظر میں ہی وہ شاہد کو اچھے لگ گئے۔ منحنی سی شخصیت ، ہرپل مسکراتا چہرہ اسے بہت بھلا لگتا۔ بات کو توڑنا تو وہ جانتے ہی نہ تھے۔ اپنا مدعا صاف الفاظ میں کہہ دیتے۔ خدمت ان کی نس نس میں رچی ہوئی تھی۔ بہترین اخلاق ان کی عادت ہو گئی تھی۔منافقت کا لفظ ان کی لغت سے غائب تھا۔ مشکل مسائل چٹکیوں میں حل کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ رفتہ رفتہ شاہد ان کے قریب ہوتا گیا۔ آج رات انہوں نے اسے ایک اسلامی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی تو وہ انکار نہ کر سکا۔

جب وہ کانفرنس ہال میں پہنچے تو مجلس اختتام کی طرف بڑھ رہی تھی۔ آخری مقرر کو خطاب کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ شاہد بے دلی سے ایک جانب بیٹھ کر اپنے موبائل سے کھیلنے لگا۔

اچانک اس کے کانوں میں یہ الفاظ پڑے۔ ’’ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے ریگزاروں میں ہوا کا خوشگوار جھونکا ثابت ہوئے۔ ان کی زندگی کا ورق ورق کھلی کتاب ہے۔ وہ ایسی شخصیت تھے جنہیں اپنوں کے علاوہ پرایوں نے بھی محبت دی۔ ان پر عقیدت کے پھول نچھاور کیے۔ آپ نے عرب کے بدوؤں کو تہذیب سکھا دی۔ وہ بدو جن پر کوئی حکومت کرنے کو تیار نہ تھا۔ جو زندہ جانوروں کا گوشت کھانا اور شراب پینا اپنا حق سمجھتے تھے۔ معمولی باتوں پر صدیوں لڑنا اور پھر اپنے مقتولوں پر فخر کرنا ان کا شیوہ تھا۔ لیکن محمدی جلووں سے ایسے منور ہوئے کہ ساری دنیا کو حقوق بخشنے والے بن گئے۔ انسان تو انسان ، جانوروں کے بھی حقوق متعین کر دیے گئے۔ بدامنی کے سیل رواں کے آگے ایسا بند بندھا کہ یمن سے مکہ تک اکیلی عورتوں کو سفر کرنے میں کوئی باق نہ ہوتا‘‘۔

’’جی ہاں تئیس برس میں یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسی سلطنت قائم کر گئے جن کی خوشبو سے آج بھی جسم وجاں معطر ہو جاتے ہیں۔ آپ کی تعلیمات نے ایک بے علم کو صدیق، بتوں کے پجاری کو فاروق، تاجر کو حیا کا پیکر، اور غربت کی گود میں پلنے والے بچے کو حیدر بنا دیا۔ جن کی سیرت سے آج بھی بادشاہ سیاست سیکھ رہے ہیں۔ سپہ سالار جنگی اصول، تاجر لوگ تجارت، معلم لوگ علم، ادیب اَدَب، فقراء سخاوت، حکماء حکمت، زاہد عبادت، حکمران سیادت، اور قائد قیادت کے گُر سیکھ رہے ہیں۔ جن کے تذکرے اُن کی آمد سے ہزاروں برس قبل شروع ہو گئے۔ جن کے لیے تورات نے طاب طاب، زبور نے الجبار، انجیل نے احمد و فارقلیط ، غزل الغزلات نے محمدیم کا نام پہلے ہی تجویز کر دیا تھا‘‘۔

خطیب کی زبان سے نکلنے والا ہر ہر لفظ شاہد کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہا تھا۔ اس کا دل گواہی دے رہا تھا کہ دنیا کی سات بلین میں سے23فیصد آبادی اتنے بڑے جھوٹ پر کیسے متفق ہو سکتی ہے؟ واقعی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک عظیم ہستی تھے۔ آپ کی زندگی کا لمحہ لمحہ ایک چمکتا سورج اور دمکتا چاند ہے۔ شاہد نے مزید سنا ، خطیب کہہ رہا تھا۔

’’ارے تہذیب مغرب کے پیچھے بھاگنے والو! ہماری نہ سنو ، اپنے معتدل لوگوں کو ہی سن لو۔ ڈاکٹر ہنری سٹب (1631-1676) کیا کہہ رہا ہے؟ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت داؤد علیہ السلام کے ہم پلہ نبی گردانتا ہے۔ جنہیں نبوت و سلطنت اکٹھی عطا فرمائی گئیں۔ وہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی قانون دانی کو تسلیم کرتا ہے۔ اسلام کو تلوار کے زور پر پھیلائے جانے کی مخالفت کرتا ہے۔ اس نے اپنی کتاب (The rise and Progress of Mahometanism with the life of Mahomet) کے آٹھویں باب میں عیسائی مفکرین کی پھیلائی گئی تمام غلط روایات کا سختی سے رد کیا ہے۔ ہماری باتوں کا یقین نہیں آتا تو (Dean Hamphray Prideaux ) کی (Life of Mahomet ) ہی پڑھ لیتے۔ تمہارے ذہن کے دریچے وا ہو جاتے۔ تعصبات کی بدلیوں نے دھوپ برساتے سورج کو ڈھانپنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن عقلمند تو ایک اشارہ سے سمجھ جاتے ہیں۔ کاش ہمارے بھائیوں نے ویل، کوسن ڈی پرسیوال، پرنس کائتانی، نولڈیکی، کراہل، اسپرنگر، ولیم میور، اور وان کریمر کو ہی پڑھ لیا ہوتا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ جو انہوں نے لکھا ہے درست لکھا ہے۔ تعصب کی عینک ان کے ماتھے پر بھی رہی ہے۔ لیکن سچ بہر حال ان کے منہ سے نکلا ہے۔ دور نہ جائیے دور حاضر میں مائیکل ہارٹ کی کتاب ’’سو عظیم انسان‘‘ ہی پڑھ لیتے۔ جس نے اپنی کتاب کا تذکرہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نامی اسم گرامی سے شروع کیا ہے۔ کہ اس کے نزدیک وہ اسی کے مستحق ہیں۔‘‘

شاہد نے شرم سے اپنی آنکھیں موند لیں۔ اسے لگا کہ وہ اب تک جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا تھا۔ اس نے کیوںنہ اپنے لوگوں کو پڑھا؟ کاش! وہ علمِ دین کا کچھ حصہ ہی حاصل کر لیتا تو اتنے بڑے مغالطے میں نہ پڑتا۔ اس نے اپنی زندگی کے بیس سال غلط فہمی میں گزار دیے۔ اُسے آج احساس ہو رہا تھا کہ ’’کسی بھی چیز کو سیکھنے کے لیے پہلے اس کے اصل مآخذ سے رجوع‘‘ کرنے والا اصول اس نے دین کے بارے میں کیوں نہ اپنایا؟ وہ کریم صاحب کا احسان مند تھا جنہوں نے اسے سیرت کی اس محفل میں لا کر دوبارہ مسلمان کر دیا تھا۔ ورنہ تو وہ بھی مغربی عیسائیوں کی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نفرت کے الاؤ میں بھڑکتا رہتا۔حقیقت سے بے خبر رہتا۔ اور اپنی عاقبت برباد کرتا رہتا۔

اسے یا د آیا کہ اس کے باپ نے اس کا نام ’’شاہد‘‘اس لیے رکھا تھا کہ یہ اس کے نبی کا نام تھا۔ شاہد کا معنی گواہی دینے والا، اور قرآن نے بھی نبی علیہ وسلم کو انا ارسلنک شاہدا ومبشرا ونذیرا کہا تھا۔وہ دل میں بار بار اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے معافیاں مانگ رہا تھا۔ اس کے زبان پر بچپن سے سیکھا ہوا درود شریف مچل رہا تھا۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ، اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ، اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ
٭٭٭
حوالہ جات:
بائبل: شائع شدہ، انار کلی بازار لاہور، اردو نثر میںسیرت رسول ﷺ از ڈاکٹر انور محمود خالد، ہذا محمد رسول اللہ ﷺ، ہل تعرفہ از اسامہ نعیم مصطفی الناعسۃ، محاضرات سیرت، از ڈاکٹر محمود احمد غازی، مجلہ الداعی اکتوبر ۲۰۱۲ء (انڈیا) استشراق اور مستشرقین، عبدالحی عابدؔ مطالعہ سیرت از علامہ وحید الدین خان
Abdul Saboor Shakir
About the Author: Abdul Saboor Shakir Read More Articles by Abdul Saboor Shakir: 53 Articles with 90393 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.