تعلیم سب کے لیے

عالمی بینک کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ عام طور پر سکول کی صرف چار سال کی تعلیم بھی چھوٹے موٹے کاروبار اور کام دھندوں کی پیداواریت بڑھانے کا ذریعہ بن جاتی ہے ۔ اس سے بچوں کی تعداد مناسب حد میں رکھنے ، خوراک کے صحیح استعمال اور صحت کی دیکھ بھال میں بھی مدد ملتی ہے ۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ چار سال سکول میں تعلیم حاصل کرنے والی عورتوں کے ہاں تیسرا بچہ کبھی کبھار ہوتا ہے جبکہ اَن پڑھ خواتین کے بچوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے ۔ کم بچوں کی صورت میں یہ امر یقینی ہے کہ انکی صحت اور زندگی بہتر ہو گی اور انہیں حصول تعلیم کے مواقع دستیاب ہوں گے ۔ مختصر یہ کہ پڑھے لکھے لوگ اپنا اور معاشرے کا بہتر انداز میں تحفظ کر سکتے ہیں ۔ مثلاً بیماریوں پر قابو پانے کے لیے درست اقدامات کر سکتے ہیں زیادہ کما سکتے ہیں اور مشکلات پر آ سانی سے قابو پا سکتے ہیں ۔ کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں روزگار کے مواقع میں کمی کی وجہ سے محض اچھی تعلیمی سند ، روزگار کی ضمانت نہیں ہو سکتی ۔ اس بات کا اطلاق ترقی پذیر اور ترقی یافتہ دونوں ممالک پر یکساں ہوتا ہے اور لاکھوں بے روزگار وں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔

گزشتہ چند عشروں میں بہت سے ترقی پذیر ممالک ابتدائی تعلیم کے سکولوں کی تعداد اور خواندگی کی شرح میں خاصا اضافہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں ۔ لیکن تعلیمی سہولتوں میں مقدار کے لحاظ سے اضافہ معیار کی قیمت پر کیا گیا ہے ۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق 1970 سے 1990 کے دوران پرائمری سکولوں میں طلبہ کی تعداد 300ملین سے بڑھ کر 500ملین اور اساتذہ کی تعداد نو سے بڑھ کر 16ملین ہو گئی ۔لیکن اس کے باوجود سو ملین سے زیادہ بچوں کو سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع میسر نہیں ہیں ۔ دنیا کی 5.5ملین آبادی میں بالغ افراد کی تعداد تقریباً 900 ملین ہے جن میں دو تہائی خواتین ناخواندہ ہیں ۔

سکولوں اور اساتذہ کی زیادہ تعداد مناسب بنیادی تعلیم کی ضمانت نہیں ہیں 1980 کے عشرے میں اس کا معیار گر گیا ۔ خاصی تعداد میں بچے سکول میں بمشکل ایک سال گزارتے ہیں ۔ اور بہت سے بچے تعلیم ادھوری چھوڑ جاتے ہیں ۔ یونیسکو کی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ فی کس نصاب مکمل کرتے ہیں ۔ تقریباً تمام ترقی پذیر ملکوں میں سکول جانے والی لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے زیادہ ہے ۔ معیار تعلیم جانچنے کا ایک پیمانہ یہ ہے کہ سکول میں سال بھر میں کتنے گھنٹے پڑھائی ہوتی ہے ۔ ترقی پذیر ممالک میں اوسطاً سالانہ 500 گھنٹے جو صنعتی ممالک کے مقابلے میں نصف کے برابر ہے ۔

بیشتر پرائمری سکولوں میں درس و تدریس کی صورت حال ناقص ہے ۔ کلاسوں میں طلبہ کی تعداد گنجائش سے بہت زیادہ ہے ۔ اساتذہ کی تنخواہ انتہائی ناکافی ہونے کے علاوہ اس میں بے قاعدگی بھی پائی جاتی ہے ۔ جس کی وجہ سے اساتذہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے آمدنی کے دیگر ذرائع ڈھونڈتے ہیں ۔ سکولوں میں درس و تدریس کا سامان بھی انتہائی ناکافی ہے ۔ ایجوکیشن افسران کے دفاتر سکولوں کی انتظامیہ اور نصاب میں بھی بہت خامیاں ہیں ۔ 1980 کے عشرے سے بنیادی تعلیم کے بجٹ میں بہت کم اضافہ کیا گیا ہے اس کے برعکس بہت سے ممالک خصوصاً افریقہ میں صحارا کے جنوبی ملکوں میں تعلیم کے بجٹ میں 25 فیصد تک کمی ہوئی ہے ۔

یہی وہ خامیاں ہیں جن کی وجہ سے جرمنی ، لاطینی ،امریکہ ، ایشیاء اور دیگر خطوں میں تعلیم کا مغربی ماڈل اپنانے کی شرط عائد کئے بغیر ترقیاتی فنڈز مہیا کرتا ہے 1980 کے عشرے کے اواخر تک زیادہ ترقی پذیر ممالک اور امداد دینے والے ملک بنیادی تعلیم کو متعلقہ ملکوں کا قومی مسئلہ گردانتے تھے اور سمجھتے تھے کہ متعلقہ ممالک کو یہ مسئلہ صرف اپنے قومی وسائل اور کوششوں سے حل کرنا چاہیئے عملی منصوبے میں ترقی پذیر ملکوں سے کیا گیا ہے کہ وہ یہ مسئلہ ازخود حل کریں ۔ لیکن اب تبدیلی آئی ہے ۔1990 میں تھائی لینڈ میں " تعلیم سب کے لیے " کے موضوع پر ہونے والی اقوام متحدہ کی عالمی کانفرنس میں تمام فریقوں نے امداد بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ عملی منصوبے میں ترقی پذیر ملکوں سے کیا گیا ہے کہ وہ بنیادی تعلیم کے لیے قومی منصوبے مرتب کریں جن پر عملدرآمد بین الاقوامی تعاون سے کیا جائے گا .

1990 کے عشرے کے آغاز تک بنیادی تعلیم کے فروغ کے اقدامات کے لیے امداد میں کافی اضافہ کیا ہے ۔ جرمنی نے فروغ تعلیم کے لیے کثیر القومی اداروں مثلاً عالمی بینک ، یونیسکو، یونیسف ، یو این او اور یو این ڈی پی اور یورپین یونین کے توسط سے امداد مہیا کرنے کے علاوہ بنیادی تعلیم کے لیے دو طرفہ بنیاد پر بھی کوششوں میں اضافہ کیا ہے ۔ اس مد میں 1992 میں 62ملین مارک اور 1994 میں 323ملین مارک مہیا کئے ۔ بنیادی تعلیم کا مقصد آبادی کے غریب طبقوں کو براہ ِ راست فائدہ پہنچانا ہے ۔ صوبہ پنجاب کی حد تک ہونے والی عملی کوششیں بہت حد تک بہتر ہیں ، وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے بنیادی تعلیم کے فروغ کے لیے جامعہ اور ٹھوس حکمت عملی اپنائی ہے جہاں تک کہ غریب مفلوک الحال خاندان کے بچوں کے لیے دانش سکولوں کا اجراء لائقِ تحسین ہے اور اب بھٹہ مزدوروں کے نونہالوں کو تعلیمی سہولتیں فراہم کرنے کا پروگرام بھی قابل ستائش ہے ۔ صوبہ سندھ میں صوبائی سیکرٹری نے بھی تعلیمی نظام کو بہت سے بدعتوں اور بلاؤں سے پاک کرنے کا اقدام اٹھایا ہے مگر سیاسی مگرمچھ ان سے خوش نظر نہیں آ رہے ۔ صوبائی سیکرٹری نے گزشتہ برس ایسے 463 ٹیچروں کو نوکری سے فارغ کیا تھا جو نوکری کے ساتھ صحافتی عہدوں پر بھی فائز تھے ۔ ایسے احکامات صوبائی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو بھی کرنے ہوں گے ۔کیونکہ سینکڑوں ماسٹر ایسے دھندوں میں مصروف ہیں جن کو ان کے افسران کی پشت پناہی حاصل ہے وہ انکی حاضری کو یقینی بنائے رکھتے ہیں ۔ شکایت کنندہ کو یہ کہہ کر خاموش کر دیا جاتا ہے کہ اس کا ہیڈ ماسٹر اس سے خوش ہے اور اس کی کوئی غیر حاضری نہیں ہے ۔ لہٰذا اس کے خلاف کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔
Maqsood Anjum Kamboh
About the Author: Maqsood Anjum Kamboh Read More Articles by Maqsood Anjum Kamboh: 38 Articles with 32755 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.