اے مادر علمی ۔۔۔۔۔۔تیری یادیں مجھے ستاتی ہے

۲۰۰۵؁ء سے ۲۰۱۴؁ء تک طالب علمی کا زمانہ جامعہ عثمانیہ پشاور میں بیت گیا،عجب کیفیت یہ ہے کہ ابھی تک کسی نے بھی اپنے دورانِ طالب علمی حالات کو قلمِ قرطاس میں بند نہیں کیا، مگر صرف مولانا منظور احمد نعمانیؒ اورنوجوان کالم نویس مولانا ابراہیم حسین عابدی نے اپنی دورانِ طالب علمی کو محفوظ کر رکھا ہے، تو باربار قارئین کی اصرار کی بنا پر پشاوری نے بھی قلم کو ہاتھ میں اٹھا لیا تا کہ اپنی دورانِ طالب علمی کو قلمِ قرطاس میں لیں آئے۔۲۰۰۵؁ کا زمانہ تھا کہ بندہ حفظ القرآن الکریم سے فارغ ہوا، تو علم کی طرف توجہ سب سے پہلے میرے محسن،میرے مربی،میرے مرشد اور میرے اس علمی سفر کے راہنما حضرت مولانا محمد یوسف سکندر نے دلایا۔تو اس وقت میں پشاور کے معروف دینی درس گاہ جامعہ عثمانیہ پشاور پہنچاتو ۱۹، اکتوبر ۲۰۰۵؁ کو میرا انٹری ٹیسٹ ہوا جس میں پشاوری الحمداﷲ اچھے نمبرات سے پاس ہوگیا اور بعد ازاں پشاوری جامعہ عثمانیہ پشاور کا مستقل طالب علم بن گیا۔چونکہ جامعہ میں کامیاب طلباء کی انٹرویوہوا کرتی تھی تواس میں پشاوری کی انٹرویو بھی تھی انٹرویو میں بطور سرپرست میرے ساتھ میرے ماموں حاجی صلاح الدین جامعہ تشریف لائے تھے۔انٹرویو میں کامیابی کے بعد جامعہ عثمانیہ کے ناظم تعلیمات اور حالاًناظم وفاق المدارس صوبہ خیبر پختونخوا حضرت مولانا حسین احمدصاحب نے ایک پرچی دیدی جس پر لکھا تھا کہ رضوان اﷲ بن محمد نثار کو جامعہ عثمانیہ میں داخلہ منظور کیا جاتاہے۔بعد ازاں میرا علمی سفر شروع ہوااور وہ تو سفر نہیں ہوتا جو مشکل اور کھٹن راستوں سے نہ گزرے اسی طرح اس علمی سفر میں بھی پشاوری پر بہت کچھ گزرا مگراﷲ تعالیٰ نے صبر کی بھی توفیق عطاء فرمائی۔اگر اﷲ تعالیٰ کی توفیق شامل حال نہیں ہوتی تو نہ معلوم اس دن اور اس وقت پشاوری کا بھی کیا حال ہوتا ؟اﷲ تعالیٰ نے عظیم احسان کیا جس کے بدلے آج پشاوری جامعہ عثمانیہ پشاور کے دارالحدیث میں صحاح ستہ پڑھنے کو بیٹھا ہے اور آج بھی میرے اس علمی سفر کا خاتمہ اس طرح ہو رہا ہے کہ پتہ بھی نہیں چلتا کہ پشاور ی نے اس جامعہ عثمانیہ پشاور کے درو دیوار میں ۹ سال گزار دیے ،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کل اس جامعہ میں داخلہ کے لیے آیا تھا اورآج ویسے کسی کام پر نکل رہا ہوں تو اتنے میں ۹ سال گزر گئے اور پھر ۱۵مئی کو پشاور ی کی دستار فضیلت جامعہ عثمانیہ میں ہو گی۔

مدارس کے خلاف تو آج کل بہت لوگ لکھتے رہتے ہیں تو کوئی مدارس کے نظام تعلیم کے پیچھے لگا رہتاہے مگر میں نے تو جا معہ میں ۹ سال گزاردیے اور ایسا معلوم ہوتاہے کہ روئے زمین پر اگر امن و گہوارے کا درس دینے کی جگہ ہے تو وہ صرف مدارس ہی ہیں کیونکہ مدارس کے خلاف تو وہ لوگ لکھتے ہیں جن کی مدارس سے ِسرے سے وابستگی ہی نہیں ہے وہ تو صرف گفت وشنید پر قلم اٹھا کر لکھنے لگ جاتے ہیں اسی جمعہ کو اخبار پڑھ رہا تھا تو اس میں ایک کالم نویس نے ’’مدارس میں اصلاحات ‘‘پر کالم لکھا تھا لیکن اس میں وہ خرافات لکھے تھے کہ جس سے ہمارے ارباب مدارس منزہ و مبرہ ہیں اور اس عنوان پر تو علمائے کرام کو لکھنا چاہئے تھا تو کیاعوام اور کیا مدارس پر لکھائی یہ تو چہ پدی اور چہ پدی کا شوربہ کے مترادف ہے۔مدارس روئے زمین پرصرف ایک ایسی واحد درس گاہ ہے کہ جونئی نسل کوملک میں امن وآشتی کے گہوارے کا سبق دیتاہے۔اور وہ جو مدارس کے نصاب تعلیم کے پیچھے لگے ہیں تو میں اگر قسم بھی کھالوں توحانث نہیں ہوں گا کہ مدارس کا نصاب تعلیم ایساجامع اور مانع ہے کہ اس سے کسی کاانکار نہیں کیونکہ یہ نصاب علمائے کرام نے اپنی کوششوں اور تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر مرتب کیاہے اور الحمداﷲ آج تک وہی نصاب تعلیم ہے جو ان علمائے کرام نے مرتب کیا تھا۔مدارس کے خلاف یہ سب کچھ بے ساختہ اور بے بنیاد ہے۔میں نے الحمداﷲ مدارس سے وابستگی اختیار کی ہے اور بخلاف عوام کے میں مدارس سے خوب واقف ہوں یہ سب کچھ جو آج کل مدارس کے خلاف نشر ہو رہے ہیں بے بنیاداوربے ساختہ ہیں مدارس میں ہمیں جو درس دیاگیا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے،تو یہی وجہ ہے کہ تمام معاشرہ مدارس کے علاوہ اپنی زندگی بسرنہیں کر سکتی۔اگر نکاح پڑھانا ہے تو عالم کا محتاج،بچہ پیدا ہو جائے تو عالم کامحتاج،بیوی کو طلاق واقع ہوجائے توعالم کا محتاج،کوئی فوت ہوجائے توعالم کامحتاج،جنازہ پڑھانے میں عالم کامحتاج الغرض معاشرہ ہر چیز اور ہر کام میں علمائے کرام کا محتاج ہے حتیٰ کہ قیامت میں بھی لوگ علمائے کرام کے محتاج ہونگے اس طور پر کہ جنت میں جب ہر طرح کی نعمتوں سے لوگوں کو نوازا جائیگا تواﷲ رب العزت فرماینگے کہ کیا کسی اور چیز کی ضرورت ہے؟تو سب لوگ ایک آواز سے کہینگے کہ نہیں ،تو اس وقت علمائے کرام کہینگے کہ اے اﷲ دنیا میں تو ہم اپنی کتابوں میں یہ پڑھتے تھے کہ جنت میں اﷲ تعالیٰ اپنا دیدار کرائینگے بس یہی نعمت باقی ہے تو پھر اﷲ تعالیٰ اپنا دیدار بھی کرادینگے پھر سب لوگ علمائے کرام کی طرف متوجہ ہوجائینگے کہ آپ کی برکت سے آج ہمیں ایک نعمت عظمیٰ سے نوازاگیا۔

باالفاظ دیگر یہ ارباب مدارس اور علمائے کرام تو ہمارے اور وطن عزیز کے محسن ہیں تو پھر کیوں ہم ہر وقت اپنے ان محسنین کے پیچھے پڑے ہیں،خدا را ان علمائے کرام کے ہاتھ میں ہاتھ دیدیں اور انکی بھر پور خدمت کیا کریں ،اﷲ تعالیٰ ان علمائے کرام کو طویل زندگی عطاء فرمائیں تا کہ امت مسلمہ ان سے مستفید ہوتی رہے۔(آمین)
Rizwan Ullah Peshawari
About the Author: Rizwan Ullah Peshawari Read More Articles by Rizwan Ullah Peshawari: 3 Articles with 3033 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.