قراقرم یونیورسٹی اور جی بی کالجز
(Amir jan haqqani, Gilgit)
قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت بلتستان
کی اکلوتی یونیورسٹی ہے۔اس یونیورسٹی کو قائم ہوتے ہوئے ابھی بارہ سال ہی
گزرے ہیں مگر یہاں کے ناعاقبت اندیشوں نے اس یونیورسٹی کو مسلکی و علاقائی
اڈہ بنا رکھا ہے جس کی وجہ سے یونیورسٹی میں تحقیقاتی وتجزیاتی اور تعلیم و
تدریس کی بجائےلایعنی مشغلے اور ثقافتی گل غپاڑے زیادہ ہونے لگے ہیں۔یہ اس
قوم کی بڑی بدقسمتی ہے۔یونیورسٹی کے ابتدائی خاکے میں یہ بات طے تھی کہ
مختلف اضلاع میں یونیورسٹی کے کیمپس بنائے جائیں گے ۔ اسی خاکے میں رنگ
بھرتے ہوئی بلتستان یونیورسٹی کاکیمپس اوپن کیا گیا اور ہنزہ میں بھی
باقاعدہ منظوری ہوگئی۔گزشتہ دنوں محکمہ ایجوکیشن (ڈائریکٹریٹ آف ایجوکیشن
کالجز)کی طرف سے ڈگری کالج چلاس، انٹر کالج غذر اور انٹر گرلزکالج ہنزہ کو
ایک خط بھیجا گیا۔ اس خط میں یہ وضاحت تھی کہ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی
اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے ان تینوں علاقوں میں کے ائی یو کیمپس کے اجراء
کا پلان کیا ہے۔لہذا ہائی اتھارٹیز کی طرف سے یہ ڈائریکشن ملی ہیں کہ ان
کالجوں میں موجودہ سہولیات یعنی کور ایریا، کلاس رومز، لیبارٹریاں، ایڈمن
آفس،ہاسٹل، پلے گراونڈ ، لائبریریاں اور ان میں موجودہ کتابیں،
ٹائلٹس،فرنیچرز، کمپوٹرز، رجسٹرڈ طلبہ وطالبات کی تعداد اور پڑھائے جانے
والے مضامین کی تمام تفصیلات سے ڈائریکٹریٹ آف ایجوکیشن کو آگاہ کیا
جائے۔تاکہ یونیورسٹی کے کیمپس کے قیام کو یقینی بنایا جاسکے۔
یہاں یہ وضاحت کرتا جاؤں کہ ضلع ہنزہ اور ضلع غذر میں کئی گورنمنٹ کالجز کے
ساتھ ساتھ پرائیویٹ اور کمیونٹی کالجز کی بھرمار ہے۔ طلبہ وطالبات کی
تعلیمی ضروریات کسی حد تک پوری ہورہی ہیں اور یونیورسٹی کے مین کیمپس تک ان
کی اپروچ بھی بہت آسان ہے۔ اس سے میرا مدعا یہ ہر گز یہ نہیں کہ وہاں کیمپس
کا اجرا نہ کیا جائے بلکہ معلومات کی فراہمی ہے۔آج کے ارٹیکل میں صرف اس
بات پر بحث کرنی ہے کہ قراقرم یونیورسٹی کے کیمپس ان علاقوں میں فوری طور
پر اسٹیبلش ہونے چاہیے مگر جس طریقہ کار کے مطابق کیمپس کا چلانا کا عزم
ظاہر کیا ہے اس سے اتفاق نہیں۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ گلگت بلتستان کے تمام کالجز ایک طویل عرصے سے فراہمی
علم و حصول علم کے لیے خدمات انجام دے رہی ہیں۔ یہاں دو درجن سے زائد کالجز
ہیں جہاں غریب طلبہ و طالبات کو انتہائی آسانی سے تعلیم کے زیور سے آراستہ
کیا جارہا ہے۔فیسیں مناسب ہیں بلکہ کافی کم ہیں۔ گورنمنٹ کالجز پیور سرکاری
ادارے ہیں۔ جہاں کے اکیڈمک اور دیگر اسٹاف کی تنخواہیں اے جی پی آر سے طے
شدہ ہیں۔ان کے فنڈ میں مسائل پیدا نہیں ہوتے۔ کالجوں کی بلڈنگیں اور دیگر
اثاثہ جات گورنمنٹ گلگت بلتستان کی ملکیت ہے ۔ تمام کالجز کو ایک طے شدہ
پروسیجر کے تحت قیام عمل میں لایا گیا ہے۔مگر یونیورسٹیاں ایک بااختیار
ادارے کی حیثیت سے اپنا وجود رکھتی ہیں۔ اور پھر قراقرم یونیورسٹی اپنے
تمام معاملات میں آزاد ہے۔ صوبائی حکومت کا اس پر کسی قسم کا کنٹرول بھی
نہیں۔خود مختار اداروں کے لیے بجٹ طے شدہ ہوتا ہے جو وفاق سے ملتا ہے۔اب اس
تمام ترآزادی کے ساتھ اگر قراقرم یونیورسٹی اپنے کیمپس کا اجراء مختلف
اضلاع میں کرنا چاہتی ہے تو انہیں خوش دلی سے ویلکم کیا جانا چاہیے اور ان
کے لیے حکومتی تعاون کو یقینی بنایا جانا چاہیے مگر یہ بات انتہائی نقصان
اور زمینی حقائق کے منافی ہوگی کی ان اضلاع میں پہلے سے کام کرنے والے
تعلیمی اداروں پر قبضہ کرکے وہاں یونیورسٹی کیمپس کھولا جائے۔ حکومت
پاکستان اتنی غریب نہیں کہ ایک چھوٹا سا کیمپس کے لیے زمین نہیں خرید سکے
یا پھر حکومت گلگت بلتستان اتنی بے بس بھی نہیں کہ یونیورسٹی کیمپس کے لیے
ان علاقوں میں خالصہ سرکار کا ایک مناسب حصہ یونیورسٹی کو الاٹ کرے۔اور نہ
ہی قراقرم یونیورسٹی اتنی دیوالیہ ہے کہ اپنا کیمپس تعمیر نہ کرسکے۔ اگر
یونیورسٹی کے پاس اپنا باقاعدہ کیمپس کھولنے کی گنجائش نہیں تو پھر ایک
کمزور اور غیر مفید کیمپس کھول کر کیا کرنا چاہتی ہے؟ کہیں غریب علاقوں کے
طلبہ وطالبات سے فیس بٹورنے کا پلان تو نہیں؟ بہر صورت قراقرم یونیورسٹی
گلگت بلتستان کے چہرے کا جھومر ہے۔اس کو کسی اور ادارے کو قبضہ کرکے اپنا
کیمپس شروع کرنے کے بجائے لوکل گورنمنٹ سے زمین الاٹ کرواکر اپنا کیمپس
تعمیر کرنا چاہیے تاکہ مستقل بنیادوں پر تعلیمی خدمات انجام دی جاسکیں۔
گلگت بلتستان پروفیسراینڈ لیکچرر برادری میں اس حوالے سے پہلے سے غم و غصہ
پایا جاتا ہے۔ اس کو مزید مشتعل کرنی کی کوشش سے گریز کرنا چاہیے۔ گزشتہ
دنوں سیکرٹری ایجوکیشن گلگت بلتستان کی ایک تفصیلی نیوز رپورٹ اخبارات میں
پڑھنے کو ملی۔ سیکرٹری ایجوکیشن نے واضح طور پر کہا ہے کہ قراقرم یونیورسٹی
کو اپنے کیمپس کھولنے ہیں تو اپنا ذاتی کیمپس تعمیر کریں، سرکاری کالجز میں
قبضہ کرکے کیمپس کھولنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔ بلاشبہ سیکرٹری صاحب
نے پوری علاقے کی بہترین ترجمانی کی ہے۔ایک غریب قوم کا ایک پرانا ادارہ
ڈسٹرب کرکے ایک مہنگا ادارے کو نوازنے کی پالیسی عوام دشمن تو ہوسکتی ہے
عوام دوست نہیں۔
ضلع دیامر میں ترجیحی بنیادوں پریونیورسٹی کا کیمپس کھلنا تھا مگر جس ذہن
نے بھی اب تک کیمپس بننے نہیں دیا یہ اس کی ٹھوس غلطی ہے۔ضلع دیامر کو جب
تک تعلیمی شعوراور یونیورسٹی کلچر کا فروغ نہیں دیاجائے گاتب تک وہاں غیر
انسانی اور بدتہذیبی روایتیں راج کرتیں رہیں گی۔ حکومت کو اس حوالے سے
سنجیدگی سے غور و خوض کرنا چاہیے۔ڈگری کالج چلاس گلگت بلتستان کے سب سے بڑے
ضلع میں اکلوتا ڈگری کالج ہے۔ پورے ضلع میں ایک بھی گرلز کالج نہیں جس کی
وجہ سے طالبات انتہائی پریشانی کا شکار ہیں۔وہ ہزار دفعہ چاہنے کہ باوجود
بھی اپنی تعلیم ریگولر جاری نہیں رکھ سکتی۔ وہاں کے چند اسلامی ٹھیکداروں
نے بھی گرلز کالج کا اجرا کرنے میں رکاوٹیں ڈالی ہوئی ہیں مگر بنیادی طور
پر سرکار کی نااہلی بلکہ بددیانتی ہے جو اب تک کالج اوپن نہیں کرسکی۔اور اب
تک کوئی انٹر بوائز کالج بھی نہیں پورے ضلع میں۔ اب یونیورسٹی کے نام پر
ڈگری کالج کو بھی قبضہ کرنا کسی طرح مستحسن نہیں۔ ڈگری کالج میں غریب طلبہ
انتہائی مختصر فیس پر انٹر اور گریجویشن کی ڈگریاں حاصل کرتے ہیں۔ خدارا،
اس بنیادی حق سے محروم کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ یاد رہے ڈگری کالج چلاس
اور پبلک سکول چلاس کے ساتھ گورنمنٹ کے پاس ہزاروں کنال خالی زمین پڑی ہوئی
ہے۔ اگر لوکل حکومت اور یونیورسٹی انتظامیہ دیامر کے لیے اتنی مخلص ہے تو
اس بہترین خالی اراضی پر یونیورسٹی کا کیمپس تعمیر کریں۔لوکل حکومت زمین کی
الائٹمنٹی کے ساتھ ایک بجٹ بھی یونیورسٹی کو دے اور یونیورسٹی بھی ایک
مخصوص بجٹ دیامر کیمپس کی تعمیر کے لیے مختص کرے۔ بہت بہترین ایریا میں
اچھا کیمپس تعمیر ہوجائے گا۔اگر اس خالصہ سرکاری زمین میں رکاوٹیں ہیں تو
میں یونیورسٹی انتظامیہ بالخصو ص وی سی سے گزارش کرونگا کہ وہ قراقرم ہائے
وے میں کیڈیٹ کالج کے ساتھ یونیورسٹی کا کیمپس تعمیر کریں۔میں ذاتی طور پر
عمائدین گوہرآباد سے یونیورسٹی کیمپس کے لیے مفت زمین کی فراہمی کے لیے
کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوں۔ ہم نے ایک ہزار کنال کیڈیٹ کالج کی تعمیر
کے لیے فری میں دیا ہے تو پانچ سو کنال یونیورسٹی کے لیے بھی دے سکتے ہیں۔
اس کے لیے اگر مجھے گوہرآباد کی عوام کے سامنے فریاد بھی کرنا ہوا، تو
کرلونگا۔ لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ ڈگری کالج چلاس پر قبضہ کرکے کیمپس
کھولنے کی کوشش علاقے کی عوام کے ساتھ سراسر زیادتی ہوگی۔ یہ کہاں کا انصاف
ہوگا کہ ایک منکوحہ عورت کو مطلقہ بناکر اس سے نکاح کیاجائے اور نئی شادی
رچائی جائے۔ہائی اتھارٹیز اور یونیورسٹی کو ضلع دیامر میں خوش آمدید مگر جس
انداز میں آنا چاہتے ہیں اس میں نہیں۔ آپ دیامر کے لیے کوئی محبت بھرا پیکج
لے کر آؤ، مگر جو پہلے سے ہےاس کو چھین کر جعلی لیپا پوتی کرنا یقینا
باشعور لوگوں کا کام نہیں ہوتا۔ میرا حکومت سے سوال ہے کہ وہ آرمی کو تھک
داس الاٹ کرسکتی ہے تو یونیورسٹی جیسے عظیم تعلیمی ادارے کے لیے زمین الاٹ
کیوں نہیں کرسکتی؟ اللہ ہم سب کا حامی ہوناصر ہو۔ |
|