لغات واصطلاحات ٥
(Dr shaikh wali khan almuzaffar, Karachi)
انبیاءؑ وصحابہؓ کے نام زیادہ بہتر ہوتے
ہیں
سوال:مفتی صاحب ہمارے بچوں کے نام اس طرح ہیں:طارق،طلحہ،اریبہ،علیشہ،برائے
کرم،اس کے معانی بیان فرمادیں؟ (محبوب میمن، کراچی)۔
جواب:(طارق)بہت عمدہ اور بہترین نام ہے،عرب لوگ قدیم زمانوں میں ماحول،صفات
اور لغت ومعنی کے مطابق اپنے نومولود بچوں کے نام رکھتے تھے،ان ہی ناموں
میں سے ایک ‘‘طارق’’ ہے،جس میں لغوی دلالت ومعنویت کے حسن تفاؤل کا لحاظ
ہے،کیونکہ اُن کے یہاں رات کےاندھیرے میں گھر پر آنے والا مہمان یا
ملاقاتی کو طارق کہاجاتاہے،اس میں علو،ارتفاع، بلندی اور اثر ونفوذ کے
معانی پائے جاتے ہیں،وہ اس طرح کہ آسمان کے تارے کو عربی میں طارق
کہاجاتاہے،اس میں بلندی تو ہوتی ہی ہے،پھر وہ بادلوں اور تاریکیوں کو چیرکر
زمین تک اپنی روشنی پہنچاتاہے،تو اثر ونفوذ کا معنی بھی آگیا،ویسے لفظ
طارق بابِ نصر سے صیغۂ اسم فاعل ہے:کھٹکھٹانے والا،قرآنِ کریم نے سینکڑوں
سال قبل تاروں کی کھٹکھٹاہٹ کی خبر دی تھی آج کے جدید سائنس نے تاروں کی
اس آواز کو محسوس کیا ہے اور اس کا اعتراف بھی کیاہے،بہرحال ‘‘طارق’’ بطور
اسم جنس ہر تارے کو کہتے ہیں،جو قرآن میں یوں مذکور ہے:(وَالسَّمَاءِ
وَالطَّارِقِ * وَمَا أَدْرَاكَ مَا الطَّارِقُ * النَّجْمُ الثَّاقِبُ
۔سورۃ الطارق)ترجمہ: ( 1 ) آسمان اور رات کے وقت آنے والے کی قسم،( 2 ) اور
تم کو کیا معلوم ، رات کے وقت آنے والا کیا ہے،( 3 ) وہ تارا ہے چمکنے
والا۔۔عام طور پر د ن کو گھر پر آنے والا دروازہ نہیں کھٹکھٹاتا بلکہ
آواز دیتاہے اور رات کے وقت آنے والا دروازہ بجاتاہے،اسی لئے طارق رات کے
اوقات میں آنے والے کو کہتے ہیں۔عرب لوگ تفاخر کے وقت اپنے آپ کو نجم
طارق کے بیٹے کہا کرتے تھے،یہی وجہ ہے کہ قریش کی خواتین غزوۂ بدر میں
جواشعار گاتی ہیں ،ان میں کہتی ہیں:نَحنُ بَنَاتُ طَارِق۔۔نَمشِی عَلیٰ
النَمَارِق،یعنی آسمان کے تاروں کی بیٹیاں ہیں ،گاؤ تکیوں (غالیچوں) چلنے
والیاں ہیں،طارق بہت سے صحابۂ کرام نام نامی ہے،اسپین کو فتح کرنے مشہور
ومعروف سپہ سالار طارق بن زیاد کا نام تو اسلامی تاریخ ایک زرین باب
ہے،خلاصہ یہ کہ طارق ہرلحاظ سے مبارک اور اچھا نام ہے۔(طلحہ) یہ بھی
خوبصورت اور بابرکت نام ہے، حضرت طلحہ بن عبید اللہ اسلام قبول کرنے والے
پہلے آٹھ افراد میں سے ایک عظیم صحابی تھے۔ آپ عشرہ مبشرہ میں بھی شامل
ہیں، جنہیں زندگی میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی تھی۔ غزوہ احد اور جنگ جمل
میں انکا خاص کردار رہا۔ پورا سلسلہ نسب یہ ہے،طلحہ بن عبیداللہ بن عثمان
بن عمروبن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی ابن غالب القرشی
التیمی،چونکہ مرہ بن کعب آنحضرت ﷺ کے اجداد میں سے ہیں اس لیے حضرت طلحہ ؓ
کا نسب چھٹی ساتویں پشت میں حضرت سرورکائنات ﷺ سے مل جاتا ہے۔حضرت جابر بن
عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ غزوہ اُحد کے دن جب حضور پہاڑی کے اوپر چڑھ رہے
تھے تو حضور کیساتھ صرف طلحہ بن عبیداللہ اور گیارہ انصاری صحابہ تھے۔
مشرکین کی ایک جماعت نے آپ پر پیچھے سے ہلہ بول دیا ، نبیﷺ کایہ شیدائی
ہالہ بن کرخورشید نبوت کے آگے پیچھے دائیں بائیں ہرطرف گردش کناں رہا ،
تیروں کی بوچھاڑ کوہتھیلی پر روکتا ،تلوار اورنیزہ کے سامنے اپنے سینے کو
سپر بناتا ،پھر اس حال میں کفار کا نرغہ زیادہ ہوجاتا ،تو شیر کی طرح تڑپ
کر حملہ کرتا اور دشمن کو پیچھے ہٹا دیتا ، ایک دفعہ کسی نابکار نے ذات
اقدس پر تلوار کا وار کیا ،خادم جانثار یعنی طلحہ جاں باز نے اپنے ہاتھ پر
روک لیا اورانگلیاں شہید ہوگئیں آہ کی بجائے زبان سے نکلا ”حَسَنٌ“یعنی خوب
ہوا ۔سرور کائنات نے فرمایا :اگر تم اس لفظ کی بجائے بسم اللہ کہتے تو
ملائکہ آسمانی تمہیں ابھی اٹھا لے جاتے ۔غرض حضرت طلحہ دیر تک حیرت انگیز
جاں بازی اوربہادری کے ساتھ مدافعت کرتے رہے ،یہاں تک کے دوسرے صحابہ بھی
مدد کے لیے آپہنچے ،مشرکین کا ہلہ کسی قدر کم ہوا توسرور کائنات کو اپنی
پشت پر سوار کرکے پہاڑی پر لے آئے اورمزید حملوں سے محفوظ کردیا ،(سیر
الصحابہ)۔ حضرت ابوبکر صدیق جب یوم اُحد کا ذکر کرتے تو فرماتے” یہ دن سارے
کا سارا طلحہ کے حصے میں آیا،حضرت طلحہ کا سارا جسم زخموں سے چھلنی تھا ،ہم
نے انکے زخموں کو شمار کیا تووہ ستر سے بھی زیادہ تھے پھر ہم نے انکے زخمو
ں کی مرہم پٹی کی،حضرت طلحہ کے سرپر تیروں کے بہت سے زخم لگے تھے جس سے بہت
سا خون بہہ گیا اورآپ بے ہوش ہوگئے “۔ میں نے انکے چہرے پر پانی چھڑکا تو
انہیں ہوش آیا تو سب سے پہلے یہ سوال کیا کہ حضور کا کیا حال ہے۔ ہم نے
بتایا کہ الحمد للہ حضور بخیرو عافیت سے ہیں ،یہ سن کر اس جاں باز صادق نے
بے ساختہ کہا اللہ کا شکر ہے حضور سلامت ہیں تو ہرمصیبت آپکے ہوتے ہوئے
کوئی حقیقت نہیں رکھتی ۔لغت میں طلحہ کا معنی ہے،کڑوا،چھریرابدن،ایک
کیلا۔(اریبہ)بصیرت والی، محتاج،ذہین وفطین،عقلمند،ماہر،سمجھدار،ریاست
وسرداری کا متلاشی ،پڑھاکو،بابِ سمِع وکرُم دونوں سے مستعمل ہے۔اریب نام
مذکر کے لئے اسی معنی میں ہے،پیارانام ہے۔(علیشہ) اچھا نام نہیں،عربی میں
بھیڑیا کوکہتے ہیں۔
استعارہ ،مجاز اور تشبیہ
سوال: حضرت جی،استعارہ،مجاز اور تشبیہ میں کیافرق ہے؟(سمیع اللہ
عزیز،راولپنڈی)۔
جواب:(استعارہ) باب ِ استفعال سے مصدر ہے،مجرد میں یہ عاریت سے
مأخوذہے،مانگنے کے معنی میں ہے،ایک لفظ میں جو معانی پنہاں ہیں،انہیں کہیں
اور استعمال کرنے کی وجہ سے اسے استعارہ کہتے ہیں،یہاں ایک چیز کودوسری
چیزسے ایسی تشبیہ دی جاتی ہے کہ نقل پر اصل کا ڈائرک اطلاق کیاجائے،جیسے
کسی جمال کا بیان کرتے یہ کہنا کہ یہ چاند ہے چاند،(مجاز)ایک لفظ کو غیر
حقیقی معنی میں استعمال کرنے کو مجاز کہتے ہیں،باب نصر وباب افعال سے
آتاہے،گذرنا اور گذارنے کے معنی میں ہے،(تشبیہ)باب تفعیل، ایک شئے کو
دوسری چیز سے مماثل قرار دینا،باب افعال ،مفاعلہ اور تفعل سے بھی آتاہے
،ہر باب کی خاصیت کے مطابق معنی دیتاہے، اصولیین کے نزدیک استعارہ اور مجاز
ایک چیز کے دو نام ہیں، جب کہ اہل بیان کے نزدیک مجاز کی ۲۵ قسمیں ہیں ، ۲۴
کو مجازِ مرسل اور پچیسویں کو استعارہ کہتے ہیں۔
پھراستعارہ کی چار قسمیں ہیں:
1استعارہ مکنیہ:
جس میں ارکانِ تشبیہ میں سے صرف مشبہ کو ذکر کیا جائے۔
2استعارہ تخییلیہ:
جس میں مشبہ بہ متروک کے لازم کو مشبہ کیلیے ثابت کیا جائے۔
3استعارہ تصریحیہ:
جس میں مشبّہ بہ بول کر مشبّہ کو مراد لیا جائے۔
4استعارہ ترشیحیہ:
جس میں مشبّہ بہ کے ملائم ومناسب کو مشبّہ کیلیے ثابت کیا جائے۔
استعارہ تشبیہ سے زیادہ طاقت ور بیانیہ ہوتا ہے کیونکہ تشبیہ میں دو چیزوں
کا مشابہہ ہونا ظاہر کیا جاتا ہے، جبکہ استعارہ میں دونوں کا یکجا ہونا
ظاہر کیا جاتا ہے ۔یعنی دونوں میں حقیقی اور مجازی معنوں میں آپس میں کوئی
رشتہ ضرور ہوتا ہے۔ اگریہ رشتہ تشبیہ کا ہے تو اسے استعارہ کہیں گے مثلاً
کسی حسین آدمی کو دیکھ کر کہیں کہ میں نے حضرت یوسفؑ جیسا آدمی دیکھا ہے،
تو یہ تشبیہ ہوئی اور اگرایسے موقع پریہ کہیں میں نے حضرت یوسفؑ کو دیکھا،
تو اسے استعارہ کہیں گے، تشیبہ اوراستعارہ میں خاص فرق یہ ہے کہ تشبیہ لغت
کے تابع ہوتی ہے جبکہ استعارے کا لغت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ اسے
ایجاد کیا جاتا ہے بہرحال یہ بحث بہت لمبی ،یہاں اس مختصر پر اکتفا
کیاجاتاہے۔ |
|