بصیرت

تجدید وإحیاء

اعمال کی صورتیں مسخ نہیں ہوتیں،مگر ان میں حقیقت غارت ہوجاتی ہے،صورت باقی رہتی ہے، معنی اور روح غائب،قومی تنزلی کا معنی یہ ہے کہ تمام قومی اور دینی اشغال بظاہر قائم دائم رہتے ہیں،پر ان کی روح مفقود ہوجاتی ہے،یہ نہیں ہے کہ ہماری مسجدیں ،خانقاہیں اور مدارس وتربیت گاہیں اجڑ جائیں گی،نہیں ایسا نہیں ہوگا،ان میں زرق برق فانوس ہوں گے،قالینیں ایک سے ایک ہوں گی،تعمیرات پر بے تحاشا پیسہ لگایا جائے گا،روشنی اور لائٹینگ کا قابل دید انتظام ہوگا، مگر دلوں سے نورانیت اٹھ جائیگی،دل ویران ہوں گے،اجڑے ہوئے ہوں گے اور یہ وہ بستی ہے جو ایک مرتبہ بربادی کے بعد بڑی مشکل سے آباد ہوتی ہے،یہ مولانا ابوالکلام آزاد کے ایک ملفوظ کا مفہوم وخلاصہ تھا،وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ایمان کا تعلق دل سے ہے،دل اجڑگئے،تو پھر کیا باقی رہے گا،یہی مفہوم آیت قرآنی کا بھی ہے،کہ آنکھیں نابینا نہیں ہواکرتیں بلکہ سینوں میں جو دل ہوتے ہیں وہ نابینا ہوجاتے ہیں،کیونکہ بصارت جس کا تعلق آنکھوں سے ہے حقیقت میں بینائی نہیں ہے،اصل بینائی بصیرت ہے ،جس کا تعلق دل سے ہوتاہے۔

بصیرت کہاں سے حاصل ہوتی ہے، وہ اہل بصیرت کے یہاں سے،اہل ایمان کے یہاں سے،صحابۂ کرام ؓ کو سب کچھ صحبت ہی تو ملا،لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو زیادہ پڑھے گا،اس کا ایمان اتنا ہی مضبوط ہوگا،اس میں کوئی شک نہیں کہ علم سے ایمان میں پختگی آتی ہے،اللہ تعالی کی صحیح معرفت کا ذریعہ علم ہی ہے،لیکن علم بھی تو متبحر اہل علم سے حاصل ہو،تب بات بنتی ہے،رٹّوں سے بات نہیں بنتی،مفاہیم کے حقائق تک رسائی ضروری ہے،اب ہمارے یہاں بقول مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم:جب طالب علم کو بغیر سمجھے کسی بات کو ماننے پر مجبور کیاجاتاہے،تو اس طرح کی مجبوری اس کی عادت بن جاتی ہے،اور وہ زندگی میں ہر چیز بغیر سمجھے قبول کرنے لگتا ہے،،جو ذہنی غلامی اور ذلت کاباعث بنتاہے،گویا جو استاذ اپنے شاگردوں کو مذہبی حقائق سمجھا نہیں سکتا،اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ اُن کو مذہب کی تعلیم دے۔

ہمارے یہاں اور پوری دنیا میں آج مذہب یا کسی بھی نظریئے کی تعلیم میں رکاؤٹ یہی ہے کہ سمجھانے والے خود جس چیز کی تعلیم دے رہے ہیں، وہ اس کی حقیقت سے بیشتر طور پرناواقف ہوتے ہیں،اب ایک جاگا ہوا بیدار بندہ تو سوئے ہوئے کو جگاسکتا ہے، مگر سویا ہوا تو کبھی بھی کسی سوئے ہوئے کو نہیں جگاسکتا،‘‘خفتہ را خفتہ کے کند بیدار’’۔ یہ المیہ ہے فکر ونظر کے حاملین کا ،آپ کہیں بھی ذرہ سی بات رٹے رٹائے الفاظ ومفاہیم سے ہٹ کران کے گوش گذار کردیں ،پھر دیکھیں کتنا بڑا واویلا شروع ہوجاتاہے،اصل سرچشموں پر جائے بغیر ان سے استفادہ کی نیت کئے بغیر ہمیشہ کے لئے شاخوں میں سرگرداں ایسے بہت سےحضرات سےہمارا اور آپ کا دن رات سابقہ پڑتاہے،آپ قرآن کریم کی کوئی آیت یا کوئی حدیث پیش کریں گے،وہ آگے سے کسی بزرگ کا قول نقل کریں گے،یہ نہیں دیکھتے کہ قرآن وحدیث کی تعبیرات میں جو تاقیامت جامعیت ومعنویت ہے وہ اس بزرگ کے قول میں کہاں ہے،پھر یہ کہ قرآن وحدیث وہ وحی ہے، جو خاتم المرسلین ﷺکو قیامت تک آنے والی ا نسانیت کی رہبری کے لئے عطا ہوئے،تو ایسا کونسا بزرگ ہے جس کی تعلیمات کے متعلق تصریح موجود ہو کہ اس خاتم بزرگاں کے ارشادات خاتم تعلیمات ہیں۔

مسئلہ یہ ہےکہ قرآن کے مقابلے میں بزرگوں کے اقوال تو کجا،حدیث بھی آجائے،تو وہ نہیں لی جائیگی،قرآن ہی کو لیاجائےگا،لیکن ہوتا کیا ہے کہ قرآن کریم کی صریح نصوص کے مقابلے میں علم باطنی اور فلسفے کے کمزور سہارے لے کر تنگ نظری پھیلائی جاتی ہے،صرف ایک شرک ہے کہ اس میں ہمارے یہاں بہت ہی وسعتِ قلبی ونظری سے کام لیا جاتاہے،ان تمام کوتاہیوں کی بنیادی وجہ بصیرت کا فقدان ہے،دلوں کی بے نوری ہے،ہم سمجھتے ہیں کہ عام بزرگ تو چھوڑیئے خود ایمہ اربعہ بھی اگر آج دوبارہ سے فرض کریں زندہ ہوجائیں،تو وہ بھی دنیا میں اتنی محیر العقول تبدیلیاں دیکھ کر اپنے پچاس فیصد اقوال سے رجوع کرکے ان پر از سرِ نَو تحقیق کرنے بیٹھ جائیں گے،وہ اہل اللہ تھے،اہل بصیرت تھے،انہیں رجوع کرنے میں کوئی تردد نہیں ہوگا،لیکن ظاہری بصارت وزبانی رٹّے والے آج کی تمام دنیا میں تمام مذاہب ونظریات کے پیروکار جہالت کی ضداضدی کی وجہ سے ان کے رجوع کو بھی نہیں مانیں گے اور ان سے بھی لڑ پڑیں گے۔

علم جستجو کا نام ہے بحث وتحقیق کا نام ہے،جہاں بھی اور جب بھی علم کو محدود کیاجائے گا،وہاں جمود آئے گا،کائنات میں تطہیر وصفائی کاذریعہ ہی پانی ہے،مگر منجمد پانی بھی طاہر نہیں رہتا،اسی لئےجہاں بھی علم کی راہوں میں جستجو کے بجائےجمود آئے گا، وہاں سڑان آجائی گی، فکر ونظر میں تعفن اور بدبو آجا ئی گی،یہی وجہ ہے کہ فرمایا گیا،علم کی تلاش میں اگر چین یعنی دور دراز علاقوں میں بھی جانا پڑے،تو ضرورچلے جایاکرو۔
اسلام میں پوری انسانیت کے لئے تا قیامت وسعت ہے،اس میں امن وسلامتی ہے، بلا کسی تفریق کے پوری انسانیت کی بھلائی ہے،آج کی معلوماتی دنیا اس گوہر نایاب کی تلاش میں ہے،تحقیق وجستجو جاری وساری ہے،لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جن کے پاس اس کا کچھ حصہ ہے،وہ اسے کل سمجھ بیٹھے ہیں اور صرف اسی کو صحیح کہلانے پر مصر ہیں،اگر کسی اور کے پاس اس کا کچھ حصہ اپنی عرق ریزی سے آیا ہے، یا اپنے اکابر واسلاف کے واسطے سے،تو یہ اسے غلط کہلانے پر مصر ہیں،لوگوں کو شدید پیاس ہے اور جن کے پاس پانی ہے وہ اپنے حصے کے پانی کو صاف اور طاہر دوسروں کے حصے کے پانی کو نا پاک اور نجس کہلانے پر جھگڑ رہے ہیں،پیاسے کوپانی نہیں پلاتے،چنانچہ بے شمار لوگ دنیا میں بغیر ایمان کے مررہے ہیں اور یہ ‘‘متطرِّفین’’ إحیا وتجدیدِ ملت کے بجائے اپنے اپنے فرقے ومکتبۂ فکر کے إحقاق اور اگلے کے مکتبۂ فکر کے إبطال کے لئے کمر باندھے کھڑے ہیں، حالانکہ اس وقت مسئلہ پورے مسلمانوں یاعالم اسلام کے وجود کا ہے،یا یوں کہیئے کہ تباہ کن ایٹم بموں کی موجودگی میں تیسری عالمی جنگ کی باتیں ہورہی ہیں، پوری انسانیت بربادی کے دہانے پر ہیں،اور ہر قسم کےفکر ونظر کے حاملین ما وشما کی چیستانوں میں پڑے ہیں،بصارت کی تنگ نظریا ں ہیں،دل اجڑ گئے ہیں،بصیرتیں مفقود ہیں،اسی لئے انہیں انسانیت کی تباہی نظر نہیں آرہی، آپ ہی یارب ہمارے دل بدل دے۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 818475 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More