جذباتی ہجوم

ایک ہنگامہ ہے کہ بپا ہے ہر طرف
اک شورہے کہ آواز سنائی نہ دے

تمہید کیا باندھی جائے کہ معاملہ تمہید سے غالباً آگے جاچکا. ایک انتہاٰئی قابل استاز فرماتے ہیں کہ ممتاز قادری نے جو کیا وہ درست اقدام تھا جبکہ دوسری جانب حکومت نے کیا وہ بھی درست فیصلہ تھا.
ابوظہبی کے درویش کا معاملہ بھی یہی ہے کسی ایک انتہا پر نہیں رہا جاسکتا.

معاملہ ناموسِ رسالت کا ہو یا کسی بھی قسم کےقانون کا...جو بنیادی پیغام ہے اس سے انحراف کیسے ہو کہ ایک انفرادی حیثیت میں کیا ہم ایسےاقدام کو جائز کہہ سکتے ہیں؟ بس یہی سوال ہے جس پر ساری قوم دو حصوں میں تقسیم ہوچکی. اس بات سے قطع نظر کہ یہ قانون دو حصوں پر مشتمل ہے جس میں ایک یہ ہے کہ جس شخص پر یہ حد جاری ہو اور ثابت ہوجائے اس کو قتل کرنے میں کیا کوئی بھی شخص حق بجانب ہے؟ اگر اس کا جواب ہاں ہے تو مجھے کہنے دیجیے کہ پھر طالبان, داعش آیسیس بھی تو یہی کررہے ہیں جس کو کافر مرتد سمجھتے ہیں قتل کرتے جاتے ہیں. تو ان کو دہشت گرد اور خوارج کہہ دیاجائے مگر یہی چیز اگر ممتاز قادری کرے تو سروں کا تاج کہلائے اور اسی سے یہ تاثر بھی ثابت ہوا کہ شہر کے شہر جس کو چاہے کافر قرار دے دیجیے اور دائرہ اسلام سے نکال دیجیے. انارکی فساد اور معاشرے کے نظام کو تہہ وبالا کیجیے نظامِ انصاف پر لعنت بھیجیے اور جوچاہیے کیجیے.

مگر یہاں رکیے اور کسی بھی ایک شخص سے بیٹھ کر بات کیجیے اور پوچھیے کہ اس قانون کو کس نے بنایا؟
اس میں گواہی کی شرائط کیا ہیں؟

آپ نے ایک مسلمان کو ہمیشہ کے لیے عالمِ اسلام سے نکال دینا ہے, اللہ کی دی ہوئی اسکی زندگی کوختم کردینا ہے, تو کیا یہ انتہائی قدم کوئی احتیاط کا تقاضہ نہیں کرتا؟ سب جانتے ہیں کہ تھانے کلچر میں ایک ایف آئی آر کی کیا جیثیت ہے آپ کسی بھی صاحبِ فہم سے پوچھ لیں وہ جھٹ سے اس پر ایک ہزار اعتراض اٹھائے گا کہ ایک چھوٹے سے مقدمے میں گواہی کا جو معیار ہے وہی تسلی بخش نہیں کجا کہ ایسے معاملے میں کہ جس سے نازک کوئی اور معاملہ ہوہی نہیں سکتا.

اس کا جواب بھی درکار ہے کہ جس نظام کی کمزروری کا بہانہ بنا کر ہم یہ قانون اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں عام زندگی میں اسی نظام کے تحت ہم ہزاروں فیصلے بھی مانتے ہیں.مگر جہاں اختلاف ہوا وہیں خود فیصلے کرنے بیٹھ گئے کیا یہی قوموں کا وطیرہ رہا؟ کیا معاشرہ ایسے اقدامات سے پنپے گا؟

آج اس معاملے میں قوم نے مظاہرے شروع کیے ہیں یہ دیکھ لیجیے انارکی اور معاشرے کی تنزلی کی جانب بڑھتا ہوا ایک اور قدم ہے جو دنیا کی قوتوں کو اس بات کا جواز مہیا کرےگا کہ ہم قانون کا مذاق اور ہاتھ میں لینے کی روائت بدرجہ اتم رکھتے ہیں. اور سیکولر طبقے کو ایک اور بہانہ بھی اپنے ہاتھوں سے انکی جھولی میں ڈال رہے ہیں کہ عوام اور حکومت میں خلیج اس قدر بڑھ چکی کہ مذہب اور ریاست کے معاملے الگ الگ کرنا آسان ہوتا جارہاہے.

یہیں سے ایک ایسا پہلو بھی نکلتا ہے جس سے بحثیت قوم ہم نے ہمیشہ روگردانی کی قسم اٹھا رکھی ہے. اور وہ یہ کہ آج جو اسلام کا نام لیکر اور مذہب کے ٹھیکیداری اپنے سر لینے کو بےتاب ہیں اسی حکومت کو جس نے آج یہ اقدام کیا,کو یہ کرنے کا جواز خود ووٹ دے کر مہیا کیا.

یہ کیسی منافقت ہے جس کا یہ قوم کبھی جواب نہ دینا چاہےگی کہ جب آپ نے ایک اختیار کسی کو تفویض کردیا تو کیسے ممکن ہے کہ آپ اس سےآگے بڑھ کر اسی قانون کو خود ہاتھ میں لیں الا یہ کہ آپ نے وہ حق کلی طور پر دوبارہ حاصل کر لیا ہو.

دوسری طرف حکومت نے جان بوجھ کر یہ سردرد اپنے سر لی جیسے کہ کچھ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس مسئَلے کو کم از کم دو سال مزید بھی لٹکایا جاسکتا تھا کہ یہ داغ نواز حکومت کے ماتھے پر نہ سجے. مگر یقیناً غیر ملکی قوتوں کےزیرِاثر اس فیصلے میں بہت سے سوال ہیں جنکا جواب ابھی سوائے اس کے کچھ نہیں کہ جس قدر جلدی اس کیس پر دکھائی گئی , ماڈل ٹاون, قصور سکینڈل, فیصل آباد, ریمنڈڈیوس ایان علی جیسے کسی کیس میں نہ دکھائی گئی.

اور آخرمیں میڈیا کاکردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں جس انداز سےتجاہلِ عارفانہ اور مجرمانہ خاموشی دکھائی گئی یہ یقیناً لوگوں کے ابہام کو مہمیز کرتی ہے.

لیکن یہ بھی یاد رکھاجائے آج یہ ہجوم خود کو قوم ثابت کرنے میں ناکام نظر آتا ہے. یہ تب تک ناکام ہی رہے گا جب تک جذبات کے اندھے ریلے میں بہتا رہے گا. کہ قومیں تربیت سے جلا پاتی ہیں اور مشکلات میں کندن بنتی ہیں.

عشقِ مصطفےصلی اللہ علیہ والہ وسلم کا تقاضا بغیر کسی معتبر طریقے کے کسی کو بھی قتل کرنا نہیں, اسکی ہر ممکن جان بچانا ہے.
Muhammad Asif Mehmood
About the Author: Muhammad Asif Mehmood Read More Articles by Muhammad Asif Mehmood: 8 Articles with 5980 views محدود علم کے بعد اس سے بھی محدود عمل.
لکھنے کاشوق. بے مہار سوچ. کسی حد تک سچا بہت حد تک ڈپلومیٹک.
.. View More