بنت حوا کی جسم فروشی اور ہمارے معاشرے کے شرفاء کا کردار

پاکستان اسلام کے نام پر بننے والا وہ واحد اسلامی ملک ہے جہاں ہر طرف اسلام کے نام لیوا اسلام کا نام استعمال کرکے ہر قسم کا مکروہ دھندہ کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں جس میں عصمت فروشی، سود خوری، رشوت زنی اور فتویٰ زنی قابل ذکر ہیں۔ ویسے تو ہر طرح کے جرائم ہمارے اسلام کے نام پر حاصل کئے جانے والے وطن عزیز میں کوڑیوں کے بھاؤ مل جاتے ہیں مگر ہمارے اس پاکستان میں جسے ہم نے لاکھوں جانوں کی قربانیوں اور اپنی ایک لاکھ سے ذیادہ ماؤں، بیٹیوں، بہنوں اور بہوؤں کی عزتین پامال کروا کر حاصل کیا تھا اسمیں عصمت فروشی کا مکروہ دھندہ اپنے عروج پر ہے اور ہمارے مذہبی ٹھیکیدار، سیاسی کھلاڑی ، قانون نافذ کرنے والے ادارے، ہماری عدلیہ کے منصفین ، امراء اور نو دولتئے بھی ان بے بس ، بے کس ، مجبوراور لاچار خواتین سے اپنی جنسی شہوت کی آگ بجھاتے ہیں۔ یہ خواتین جہاں پر اپنا روزگار کماتی ہیں اسے حرف عام میں چکلہ، قحبہ خانہ یا پھر کوٹھا کہا جاتا ہے ۔ یہ بیچاریاں تمام رات گھنگھروؤں کی جھنکار اور طبلے کی تھاپ پر ناچ گانا کرکے اور عیاش لوگوں کی داد عیش کی تھکی ماندی اپنے چکنا چور بدن کیساتھ تمام دن پلنگ توڑتی ہیں اور پھر سر شام سرخی پوڈر لگا کر اور بن سنور کر اﷲ کا نام لیکر اپنے اڈے پر جلوہ گر ہو جاتی ہیں اور ایک دوکاندار کی طرح اپنے گاہکوں کا انتظار کرتی ہیں اور بعض اوقات تو گاہگ کے نہ ہونے پر یہ اﷲ سے گڑا گڑا کر دعائیں بھی مانگتی ہیں۔ انکے پاس آنے والے کچھ گاہک تو روزمرہ کے ہوتے ہیں اور کچھ گاہگ نئے نئے اس منڈی میں داخل ہوتے ہیں ۔ایک زمانہ ہوا کرتا تھا کہ نواب زادے اپنی بگڑی ہوئی اولادوں کو بائیوں کے کوٹھوں پر آداب سیکھنے کیلئے بھیجا کرتے تھے اور یہ امیر ذادے اور نو دولتئے کوٹھوں پر جا کر اپنی جنسی ہوس کو بھی پورا کیا کرتے تھے مگر نئے اورترقی یافتہ دور میں داخل ہوتے ہی یہ امراء اور نو دولتئے ان عصمت فروش خواتین کو اپنی بدنامی کے ڈر اور خوف سے اپنے ہی عشرت کدوں پر لا کر ان سے اپنی جنسی پیاس بجھاتے ہیں اور انکے جسموں کو بھنبھوڑتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں پہلے یہ عصمت فروش عورتیں ایک محدود جگہ جسے چکلہ کہتے ہیں میں ہی اپنا دھندہ کیا کرتی تھیں مگر جب پاکستان میں ایک فوجی جرنیل نے شب خون مارا تو اسنے ان چکلوں کو ختم کرکے ان جسم فروش عورتوں کو گلی گلی اور محلے محلے اور اب تو بڑی بڑی عالیشان کوٹھیوں تک پھیلا دیا جہاں پر نہ صرف یہ جسم فروشی کا دھندہ کرتی ہیں بلکہ اب تو یہ بہت سے شریف زادوں، سیاستدانوں، امراء اور نو دولتیوں کی لڑکیوں کو اپنے چنگل میں پھنسا کر انہیں بھی اس دھندے کی طرف راغب کرکے ان سے اپنے بطن سے پیدا ہونے والی ان اولادوں کا بدلہ لے رہی ہیں جنہیں ہمارے نام نہاد امراء، نو دولتئے اور شہوت پرست حرف عام میں حرام کی اولادیں کہتے ہیں جو باعث شرم ہونے کیساتھ ساتھ باعث عبرت بھی ہے جو مقافات عمل بھی ہے ۔

ہم ایک ایسے بے حس اور بدبو دار معاشرے میں رہتے ہیں جہاں پر مردوں کے جرائم کی پردی پوشی کی جاتی ہے جبکہ حواکی بیٹی کو صرف شک کی بنیاد پر اسکی ناک کاٹ دی جاتی ہے، اسے سرسے گنجا کردیا جاتا ہے، اسے ننگا کرکے گلیوں اور بازاروں میں پھرایا جاتا ہے، اسکے منہ پر تیزاب پھینک کر اسے بد صورت کر دیا جاتاہے اور اسے کاری قرار دیکر قتل کر دیا جاتا ہے اور حوا کی بیٹی اس معاشرے میں ہر وقت تذلیل کا نشانہ بنتی ہے اسے گھر سے باہر نکال دیا جاتا ہے اور پھر اسکا انجام ایک طوائف کی صورت میں نکلتا ہے۔ پھر ان طوائفوں کے پاس یہ نو دولتئے اور امیر زادے اپنی جنسی پیاس بجھانے کیلئے جاتے ہیں اور یہ نہ صرف اسے اپنی شان سمجھتے ہیں بلکہ یہ ان پر نوٹ بھی نچھاور کرتے ہیں اور یہ اسے فخر کی بات سمجھتے ہیں۔ امیر ذادوں ، سیاستدانوں او ر نو دولتیوں کے نطفے سے نو ماہ تک ایک طوائف کے پیٹ میں پلنے والا یہ بچہ اگر لڑکا ہو تو یہ اس چکلے میں دلے کا کردار ادا کرتا ہے اور اگر انکے نطفے سے پیدا ہونے والی یہ لڑکی ہو تو پھر خوشیاں منائی جاتی ہیں مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں اور اسکے جوان ہونے پر اسے کوٹھے پر بٹھا کر اسے جسم فروشی کے دھندے میں لگا دیتے ہیں ۔مگر یہ شریف زادے ، سیاستدان اور امیر زادے اتنے بے غیرت ہوتے ہیں کہ وہ اپنے نطفے سے پیدا ہونے والی ان اولادوں کو اپنی بیٹیی یا بیٹا ماننے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔ کوٹھے پر بیٹھی ہوئی یہ شریف زادوں، سیاستدانوں اور نو دولتیوں کے نطفے سے جنم لینے والیاں یہ شریف زادیاں جو دوسروں کی عیاشی کا سامان بنتی ہیں بعض اوقات بے غیرت شریف زادے انہی کے پاس اپنی جنسی خواہش مٹانے کیلئے انہی کے کوٹھے پر جاتے ہوئے اپنی غیرت کا جنازہ نکالتے ہیں۔

جسم فروشی ہمارے معاشرے میں ایک صنعت یا پھر بہت بڑے پیشے کی شکل اختیارکر چکی ہے ۔ مذہبی ٹھیکیدار، سیاستدان، قانون کے رکھوالے اور انصاف فراہم کرنے والے ہمارے معاشرے میں ایک کلنک کے ٹیکے کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں جو ہمارے ملک کی پیشانی پر ایک بد نما داغ ہیں کیونکہ یہ بھی کسی نہ کسی طرح اس گھناؤنے جرم میں شامل ہیں۔ اب یہ نام نہاد اپنی جنسی خواہش کو مٹانے کیلئے چکلے کا رخ نہیں کرتے بلکہ وہ دلالوں کے ذریعے ان کال گرلز کو اپنی عیاش گاہوں پر بلا لیتے ہیں اور ان سے رات بھر اپنی جنسی لطافت کا مکروہ کھیل کھیل کر انہیں سورج طلوع ہونے سے پہلے اپنی بڑی بڑی کالے شیشے والی گاڑیوں میں بٹھا کر انکی مسکن گاہوں میں چھوڑ آتے ہیں۔

امیر زادوں، سیاسی بونوں اور نو دولتیوں کی جنسی لطافت اور جنسی پیاس بجھانے والی یہ جسم فروش خواتین جہاں انہیں اپنے خوبصورت جسم کے اتار چڑھاؤ کے رازو نیاز سے آشناء کرتی ہیں وہیں یہ ان میں مختلف قسم کی بیماریاں پھیلانے کا باعث بھی بن رہی ہیں جن میں ہیپاٹائٹس، ایڈز اور دوسرے متعددی امراض ہیں جو تیزی سے ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے میں پھیل رہے ہیں مگر ہماری حکومت کی نظر کبھی ان پر نہیں پڑی۔

کیا کبھی کسی مذہبی ٹھیکیدار، سیاستدان، قانون نافذ کرنے والوں، عدلیہ کے ایوانوں میں بیٹھ کر لوگوں کی قسمت کے فیصلے کرنے والوں اور سیاسی بساط پر گھناؤنے کھیل کھیلنے والوں نے سوچا کہ ہمارے اسلامی معاشرے میں جسم فروشی اور عصمت فروشی کو فروغ دینے میں وہ کونسے عوامل ہیں جو ہمارے معاشرے کو گھن کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ ان بیچاری جسم فروش خواتین کی لرزہ بر اندام داستانیں اور آپ بیتیاں اگر سن لی جائیں تو زمین اور آسمان ہل جاتے ہیں مگر حوا کی اس بیٹی کو جو دن رات انکی ہوس کا نشانہ بنتی ہے آجتک کسی نے ان پر غور نہیں کیا کیونکہ ایک بے غیرت مرد جو اسے صرف جنسی لذت کا ذریعہ سمجھتا ہے وہ اتنا بے حس ہو چکا ہے کہ وہ چاہتا ہی نہیں کہ انکی مجبوریوں کو سمجھ کر انہیں بھی اس معاشرے میں ایک با عزت مقام فراہم کیا جائے۔ جسم فروش خواتین کی داستانوں اور آپ بیتیوں کا ایک ایک لفظ باعث عبرت اور اس پر ڈھائے جانے والے اس ہی جیسی عورت اور مرد کے وہ مظالم ہیں جن میں جنسی خواہش چھیپی ہوئی ہے ۔ اگر ہم ان عصمت فروش اور عیاش لوگوں کو جنسی تسکین فراہم کرنے والی ان عورتوں کی زندگیوں میں جھانک کر دیکھیں اور انکی زندگیوں میں گھلے ہوئے زہر کو محسوس کریں تو ہمیں ان عورتوں کو اس نہج پر لانے میں مردوں کا بدبو دار اور گھناؤنا کردار نظر آتا ہے جنہوں نے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کیلئے یا تو اپنی بیویوں کو طلاق دے دی پا پھر خواتین نے مرد کے ساتھ بھاگ کر اپنی اولاد کو اس نہج پر پہنچایا ہر دو صورتوں میں یہ دلدوز کہانی مرد کے گرد ہی گھومتی ہے۔ مگر افسوس کہ ہم نے کبھی ان عصمت فروش عورتوں کے دکھوں کو کبھی محسوس ہی نہیں کیا،۔ہم نے انکے اندر کبھی جھانگ کر ہی نہیں دیکھا کہ انکے اندر دکھوں کے کتنے الاؤ ہیں جو انہیں جلا کر اندر ہی اندر خاکستر کر رہے ہیں۔ اگر ہم اپنی جنسی خواہش کو ایک طرف رکھ کر کبھی انکی دکھ بھری داستاں سنیں اور انہیں ٹٹول کر دیکھیں تو حوا کی ان بیٹیوں کا ایک ایک لفظ نہ صرف آپکا دل ہلا دیگا بلکہ بنت حوا کا یہ دکھ جو اسکے دل و دماغ میں کھول رہاا ہوتا ہے ایک لمحے کیلئے آپکو گنگ کر دیگا ۔جسم فروشی جہاں ان خواتین کی مجبوری ہے وہیں وہ جرائم پیشہ افراد اس مجرمانہ دھندے سے وابسطہ ہیں اور ان خواتین کی دلالی کرکے انکی کمائی پر پلتے ہیں ان میں محکمہ پولیس کے ملازمین، با اثر سیاستدانوں اور نام نہاد امراء کی نگرانی میں چلنے والے بیوٹی پارلرز، کالجز اور یونیورسٹیاں، نگار خانے، شو بز سے منسلک خواتین شامل ہیں۔ ہماری مذہبی روایات اتنی کمزور ہو چکی ہیں کہ مذہب کے نام پر لڑکیوں کی آبرو ریزی اور انہیں جسم فروشی پر مجبور کرنا ہمارے معاشرے میں عام ہوتا جا رہا ہے اس پیشے میں ملوث ان لڑکیوں کے وہ والدین ہیں جو انہیں ان مذہبی ٹھیکیداروں کے حوالے کر دیتے ہیں اور انہیں ان کی مرضی کے بغیر انکی شادی کرنے پر مجبور کرتے ہیں یہ لڑکیاں حالات سے تنگ آکر بھاگ کر ایسے لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں جو انہیں جسم فروشی کے دھندے پر لگا دیتے ہیں۔ ہمارے اسلامی معاشرے میں ایک مرد کی ذمہ داری نہ صرف عورت کو تحفظ فراہم کرنا ہے بلکہ وہ اسکے نان نفقے کا ذمہ دار بھی ہوتا ہے مگر جب وہ ہڈ حرامی پر اتر آئے اور بے غیرتی کی انتہاء کردے تو وہ اپنی بیٹی، بہن اور بیوی کی عزت نیلام کرنے میں بھی عار نہیں سمجھتا۔ سوتیلی ماں اور باپ کا غیر انسانی سلوک، عورت اور مرد میں طلاق کا ہو جانا ، شراب نوشی ، جوا ، غربت، بے روزگاری، بے گھری، ماں باپ کے سائے سے محرومہ سب سے بڑی وجوہات ہیں جو ہمارے معاشرے میں عصمت فروشی کا باعث بن رہی ہیں مگر ہم کبھی بھی اسکا دوش خود پر نہیں دیتے اور مرد اپنی بے غیرتی کو چھپا کر عورت کو بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اور ان تمام کی ذمہ داری ہماری حکومت کی ہے۔ ایک اندازنے کے مطابق پاکستان میں جسم فروشی کے اس دھندے سے منسلک خواتین کی تعدا لگ بھگ 34لاکھ ہے ۔ اگر ہمارے معاشرے میں خواتین کا استحصال ہوتا رہا تو آنے والے وقتوں میں یہ تعداد اور بڑھ سکتی ہے جو ہمارے اسلامی معاشرے کے منہ پر ایک طمانچہ ہوگا۔
Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 155630 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.