ایک اور غازی شہید ہوگیا
(Muhammad Nasir Iqbal Khan, Lahore)
4جنوری 2011ء کومیں برادرم اقبال
سندھو اوروفاقی وزیرکامران مائیکل کے ہمراہ لندن میں تھا جس وقت سابق
گورنرپنجاب کے قتل کی اطلاع موصول ہوئی۔مقتول گورنر کو اس کے متنازعہ
اوراشتعال انگیز بیانات کے سبب پنجاب پولیس کے ایک اہلکارممتازحسین قادری
نے موت کے گھاٹ اتاراوروہیں گرفتاری دے دی ۔سابق گورنر کے قتل کو اس کی
جماعت نے سازش بنانے کی بہت کوشش کی گئی مگرکامیابی نہیں ملی ۔سابق گورنرنے
ناموس رسالت ؐ قانون میں تبدیلی بارے کوئی سنجیدہ اورمثبت تجویزنہیں دی تھی
بلکہ موصوف نے نجی وسرکاری میڈیاپرمسلسل اس قانون کوتنقیداورتوہین کانشانہ
بنایا۔ راقم نے ا ن دنوں ''گورنرپنجاب ہوش کریں''کے عنوان سے کالم لکھا تھا
مگروہ ہوش میں آیا اورنہ ریاست سمیت کسی عدالت نے کوئی ایکشن لیا جس
پرممتازحسین قادری کوجوش آگیا۔ریاست کی مجرمانہ خاموشی اورانتظامی ناکامی
نے ممتازحسین قادری کوقاتل بنادیا ۔اگرغازی ممتازحسین قادری یاکوئی
دوسراعام شہری کسی تھانہ میں جاتا بھی توکیا ایف آئی آر درج ہوتی ،ہرگز
نہیں ۔سابق گورنر10دسمبر2010ء کوبھی بغیر بتائے بیرون ملک گیاتھا اورصوبہ
پنجاب کے گورنر کاعہدہ کئی روزتک خالی رہا تھا جبکہ پنجاب اسمبلی کے سپیکر
رانااقبال خاں کی طرف سے سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کولکھے گئے مکتوب کے
باوجودسابق گورنر کی اس آئین وقانون شکنی پرکوئی قانونی کاروائی نہیں کی
گئی تھی کیونکہ ہمارے ہاں قانون شکنی کی صورت میں قانون کا ہنٹرصرف کمزوروں
کی چمڑی ادھیڑتا ہے۔انصاف کی عدم دستیابی سے انتقام کاراستہ کھلتا
ہے۔ممتازحسین قادری اس وقت کے گورنر پنجاب کوقتل کرنے سے قبل پاکستان کاایک
عام اورگمنام آدمی تھا جبکہ پاکستان کاحکمران طبقہ عام آدمی کواچھوت سمجھتا
ہے مگر سراپارحمت حضرت محمدصلی اﷲ وعلیہ وسلم سے نسبت اوروالہانہ محبت نے
انہیں شہادت کے اعلیٰ مقام سے ہمکنار اور سرفراز کردیا۔امام احمدبن جنبل ؒ
کافرمان ہے''ہمارے جنازے فیصلہ کریں گے کہ حق پرکون تھا''۔ایک بزرگ فرماتے
ہیں ''جس کی قبر زندہ ہے وہ زندہ ہے''۔جنازوں کے ساتھ ساتھ قبروں سے بھی
معلوم ہوجاتا ہے کہ حق پرکون تھا ۔ ملعون راج پال کوجہنم واصل کرنیوالے
غازی علم دین شہید ؒ کی قبرآج بھی زندہ ہے اوریقیناغازی ممتازحسین قادری ؒ
کی قبر بھی زندہ رہے گی ۔میں چیلنج کرتا ہوں ایک طرف نوے برس قبل جام شہادت
نوش کرنیوالے غازی علم دین شہید ؒ کی قبرکشائی کی جائے اوردوسری طرف کسی
معلون کی قبر کھودی جائے توسچائی تک رسائی آسان ہوجائے گی ۔ آج بھی ہزاروں
عالم دین ایک علم دین شہیدؒ کامقابلہ نہیں کرسکتے۔عمل کے بغیر علم کی کوئی
وقعت نہیں ہوتی ۔
ہمارے ہاں جوسورۃ اخلاص کی تلاوت نہیں کرسکتا وہ بھی اسلامی شریعت پرنکتہ
چینی کرکے معاشرے میں بے چینی اوراضطراب پیداکر نے میں آزاد ہے۔اگر کسی
کوقتل کرناانتہاپسندی ہے تودوسروں کے مذہبی عقیدے پرضرب لگانایعنی انہیں
مضطرب اورمشتعل کرنا اس سے بھی بڑی شدت پسندی ہے۔اگرممتازحسین قادری کے پاس
کسی کوقتل کرنے کااختیار نہیں تھا تومقتول کوعدالت سے سزایافتہ آسیہ بی بی
کوبیگناہ وبے بس قراردینے اور متفقہ قانون پر اشتعال انگیز تبصرے کرنے کاحق
کس نے دیا تھا ۔سابق گورنرکوصرف اس سزایافتہ خاتون کے ساتھ ہمدردی کیوں تھی
،اس وقت اوربھی ہزاروں بے بس اوربیگناہ قیدی جیل کی کال کوٹھڑیوں میں
بندہوں گے ۔شرعی قوانین پرمستندعلماء کے درمیان بحث ہوسکتی ہے یاپارلیمنٹ
کے اندرتجاویز پیش کی جاسکتی ہیں مگر کسی کوشرعی قوانین کی توہین کرنے کاحق
نہیں پہنچتا۔جس وقت سابق گورنر میڈیا پرناموس رسالت کے متفقہ قانون
کومتنازعہ بنانے کی سرتوڑکوشش کررہا تھا اگر اس وقت ریاستی قانون نے اسے
گرفت میں لیا ہوتا توقانون کامحافظ ممتازحسین قادری قانون شکنی کاارتکاب نہ
کرتا ۔ایک اوراہم بات اﷲ تعالیٰ کے بنائے ضابطے انسانوں پرنافذ ہوتے ہیں
مگرانسانوں کابنایا کوئی قانون اوراصول قادرمطلق اوراس کے عزیزترین محبوب
حضرت محمد صلی اﷲ وعلیہ وسلم پرلاگونہیں ہوسکتا ۔'' ناموس رسالت کی حفاظت
کیلئے بنایاگیاقانون احکام الٰہی نہیں''، جوکوئی یہ کہتا ہے اس کی معلومات
ناقص ہیں۔حضرت محمدصلی اﷲ وعلیہ وسلم نے اپنے عہدنبوت میں براہ راست اپنے
صحابیٰ ؓ کوکچھ ملعونوں کوقتل کرنے کاحکم دیا تھا جس کی تعمیل ہوئی تھی اور
نبی مہربان حضرت محمدصلی اﷲ وعلیہ وسلم نے کبھی اﷲ تعالیٰ کی وحی اور مرضی
ومنشاء کے برعکس کوئی بات نہیں کی، یہ ہماراایمان ہے۔حضرت جابر رضی اﷲ عنہ
سے روایت ہے کہ حضور پاک صلی اﷲ وعلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ''کعب کوکون
قتل کرے گایہ اﷲ ورسول اﷲ صلی اﷲ وعلیہ وسلم کوایذادیتا ہے توصحابہ نے اسے
قتل کردیا'' ۔(صحیح بخاری حدیث نمبر3031)۔ایک ملعون سرورکونین حضرت محمد
صلی اﷲ وعلیہ وسلم کوگالیاں بکتاتھاتوآپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پوچھا کون
اسے قتل کرے گاتوحضرت خالد رضی اﷲ عنہ نے ذمہ داری اٹھائی اوراسے قتل
کردیا(الشفا ء جلدنمبر1صفحہ نمبر62) ۔ایک عورت حضور پاک صلی اﷲ وعلیہ وسلم
کی بے ادبی کیاکرتی تھی توایک صحابی نے اس کاگلاگھونٹ کراسے ماردیا تو حضور
پاک صلی اﷲ وعلیہ وسلم نے اس عورت کاخون رائیگاں جانے دیا اورقاتل
کوسزانہیں دی۔سنن ابوداؤد،حدیث نمبر(4362)۔
مصورپاکستان حضرت اقبال ؒ نے اپنے علم وعرفان کی بنیادپر اﷲ تعالیٰ کوراضی
کرنے اوراپنے من کی ہرمرادپانے کیلئے مسلمانوں کو جورازبتایا ہے اس میں
دنیاومحشر کی کامیابی پنہاں ہے۔ جس کسی نے یہ رازسمجھ لیا اس نے قرب الٰہی
پالیا ۔
کی محمدؐ سے وفاتونے توہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیالوح وقلم تیرے ہیں
اﷲ تعالیٰ نے تواپناوجودِپاک بھی اپنے محبوب صلی اﷲ وعلیہ وسلم کے سبب
ظاہرفرمایا اوراس کائنات میں اﷲ تعالیٰ سے بڑاکوئی عاشق رسول صلی اﷲ وعلیہ
وسلم نہیں اورکوئی سچاعاشق اپنے محبوب کیخلاف کسی قسم کی ہرزہ سرائی برداشت
نہیں کرسکتا ۔اگرکوئی میرے والد کی شخصیت پرانگلی اٹھاتا ہے توبھلے میرے
والد اس بداخلاق کو درگزرکردیں مگر میں اسے چھوڑدوں یہ میری غیرت گوارانہیں
کرے گی اورجہاں سرورکونین حضرت محمدصلی اﷲ وعلیہ وسلم کی ناموس کامعاملہ
آجائے وہاں کوئی عام مگر سچامسلمان کس طرح خاموش رہ سکتا ہے اورجوعاشق رسول
اﷲ صلی اﷲ وعلیہ وسلم ہووہ تویقینا مرنے مارنے پراترآئے گا ۔جس مسلمان
کوحضرت محمدصلی اﷲ وعلیہ وسلم اپنے ماں باپ اوربیوی بچوں سے بڑھ کرعزیز
نہیں اس کاایمان کامل نہیں ۔اﷲ تعالیٰ اوراپنے محبوب کی ناموس کاپہرہ دینا
ہر مسلمان کافرض اوراس پرقرض ہے ۔
خداکی عظمتیں کیا ہیں محمدمصطفی جانیں
مقام مصطفی ؐکیا ہے محمد ؐ کاخداجانے
اﷲ تعالیٰ کی بڑائی اوربزرگی بارے سرورکونین حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلم سے
زیادہ کوئی نہیں جانتا اوراپنے محبوب کامقام ومرتبہ اﷲ تعالیٰ سے بہترکوئی
نہیں جان سکتا ۔ہمیں توصرف اﷲ تعالیٰ کی بندگی جبکہ اس کے محبوب سے محبت
اورآپ ؐ کی اطاعت کاحق اداکرنا ہے ۔ جس جس نے سرورکونین حضرت محمدصلی اﷲ
وعلیہ وسلم کے ساتھ وفا کی انہوں نے تقدیراورتاریخ پرراج کیا اوراﷲ تعالیٰ
کے حبیب ؐ سے بیوفائی کرنیوالے زندگی میں بھی رسواہوئے اورمحشر میں بھی
رسوائی ان کامقدر ہوگی۔حضرت محمدصلی اﷲ وعلیہ وسلم کے ساتھ وفاکرنیوالے
باوفاوباصفا حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ ،حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ ،حضرت
عثمان غنی رضی اﷲ عنہ ،حضرت علی حیدر رضی اﷲ عنہ، حضرت امام حسن رضی اﷲ عنہ
،حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ ،حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ ،حضرت بلال رضی اﷲ عنہ
،حضرت اویس قرنی رضی اﷲ عنہ اورحضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ سمیت دوسرے
صحابی ؓ کے مقام واحترام سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔ صحابیٰ ؓبلاشبہ شمع
رسالت کے پروانے اورناموس رسالت ؐ کے محافظ وجانثار تھے ۔
سرور کونین حضرت محمدصلی اﷲ وعلیہ وسلم کی ناموس کی حفاظت کیلئے
مرنااورمارناہرسچے مسلمان کیلئے بیش قیمت سعادت اورشہادت ہے۔اس صادق جذبہ
کے بغیرکسی مسلمان کادین کامل نہیں ہوسکتا۔اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں اپنے
محبوب کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا''اورہم نے تمہارا کاذکر بلندکیا '' توکسی
انسان کی کیا اوقات جواس بلندی میں کسی قسم کی کمی کرسکے ،کمی ان افرادمیں
ہے جوگھٹیاشہرت کیلئے سرور کونین حضرت محمدصلی اﷲ وعلیہ وسلم کی شان میں
گستاخی کاارتکاب کرتے ہیں۔کمی ان میں ہے جوناموس رسالت صلی اﷲ وعلیہ وسلم
کے قانون پرانگلی اٹھاتے ہیں۔ عشق رسول صلی اﷲ وعلیہ وسلم وہ نایاب سوغات
ہے جوہرکسی کونہیں ملتی ۔عشق میں فناہوناپڑتا ہے ،محبوب کی ناموس کیلئے جان
پرکھیلنا اورملعون کاسرکچلنا پڑتا ہے ۔اگر انسانوں کے عشق میں غرق ہونیوالے
انسان تاریخ کاحصہ بن سکتے ہیں توپھر غورکریں عشق رسول صلی اﷲ وعلیہ وسلم
میں فنا ہونیوالے عشاق حضرت اویس قرنی رضی اﷲ عنہ ،حضرت بلال رضی اﷲ عنہ
،غازی علم دین شہید ؒ اورغازی ممتازحسین قادری شہیدؒ کامقام ومرتبہ کیا
ہوگا ۔ ارباب اقتدار کے مطابق غازی ممتازحسین قادری شہیدؒ کوقانون کی رٹ
کیلئے تختہ دارپرلٹکادیا گیا جبکہ سرورکونین حضرت محمدصلی اﷲ وعلیہ وسلم کی
شان میں ناپاک حملے کی جسارت کرنیوالے کئی ملعون پچھلی کئی دہائیوں سے کال
کوٹھڑیوں میں ہمارے پیسوں پرپل رہے ہیں۔غازی ممتازحسین قادری شہیدؒ کے
ہاتھوں جوشخص مارا گیا اس کے ساتھ ان کی کوئی ذاتی رنجش یاعداوت نہیں تھی
،انہوں نے عشق رسول صلی اﷲ وعلیہ وسلم کاتقاضاپوراکرتے ہوئے اپنافرض اورقرض
ادا کیا اوربلاشبہ اﷲ تعالیٰ نے کروڑوں پاکستانیوں میں سے انہیں اس کام
کیلئے منتخب کیا تھا اوران کے نام کی طرح ان کے کام نے بھی انہیں اپنے عہد
کے مسلمانوں میں ممتازومحبوب بنادیا۔غازی ممتازحسین قادری شہیدؒ کیخلاف
دہشت گردی کی دفعہ درست تھی اورنہ انسداددہشت گردی میں ان کی سماعت کیونکہ
شرعی معاملات صرف شرعی عدالت میں سنے جاسکتے ہیں ۔غازی ممتازحسین قادری
شہیدؒ کے ہاتھوں مارے جانیوالے شخص کی نمازجنازہ کیلئے جیدعلماء میں سے
کوئی تیار نہیں ہوا جبکہ غازی ممتازحسین قادری شہید ؒ کی نمازجنازہ کی
امامت کرنا پاکستان کے سبھی ممتازعلماء کی آرزو تھی۔پاکستان سمیت دنیا کے
متعدد ملکوں میں انتخابات کے دوران کئی لوگ مارے جاتے ہیں ۔ ایک دوسرے کی
پارٹی کاپوسٹریاپرچم پھاڑنے یامدمقابل سیاستدان کوگالی دینے پریاجعلی ووٹ
کاسٹ کرنے پرکئی افرادکو موت کے گھاٹ اتاردیاجاتا ہے ،دنیا کے متعدد ملکوں
میں توہین مذہب کی سزاموت ہے توناموس رسالت کی حفاظت کیلئے کسی ملعون
کوجہنم واصل کیوں نہیں کیاجاسکتا ۔ |
|