توجہ طلب!
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
عوام شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔گھروں سے
آتے ہیں اور مایوس ہو کر چلے جاتے ہیں۔کسی نے عمرہ پر جانا ہے تو کوئی ویزے
کی معیاد ختم ہونے کی وجہ سے پریشان ہے۔ کچھ لوگوں کے لین دین اور کاروبار
متاثر ہو رہے ہیں تو کہیں پر خرید و فروخت کے سلسلے متاثر ہیں۔ اسی طرح کچھ
طالب علموں کے داخلے کے معاملات تاخیر کا شکار ہیں۔واضح اطلاع نہ ہونے پر
مرد و خواتین شہر اور دور دراز کے دیہاتوں سے آتے ہیں اور بیٹھ بیٹھ کر نا
کام واپس لوٹ جاتے ہیں ۔پانچ کے قریب ضعیف العمر خواتین انہی اوقات میں بے
ہوش بھی ہو چکی ہیں۔ قارئین کرام یہ حالات ہیں نادرا آفس کے جو کہ ضلع
لودھراں کی تینوں تحصیلوں میں تقریباً ایک ماہ سے بند ہیں سیکیورٹی خدشات
اور انتظامات نا مکمل ہو نے کی بنیاد پر بندش کا شکار ہیں۔اخبارات میں
خبروں کی اشاعت کے با وجود کوئی ہلچل دکھائی نہیں۔ ڈی سی اولودھراں کی اس
معاملے میں عدم دلچسپی بھی سوالیہ نشان ہے۔نادرا آفس لوگوں کی زندگی کا ایک
لازمی جزو بن چکا ہے۔روزمرہ کے معاملات و معمولات زندگی کافی حد تک اس سے
منسلک ہوچکے ہیں۔کسی نے بیرون ملک جانا ہے تو کوئی عمرے کی سعادت سے مستفید
ہونا چاہتا ہے۔جائیداد کی خرید و فروخت کا معاملہ ہوکہ طالب علموں کے
داخلوں کیلئے ب فارم کا حصول نیا شناختی کارڈ بنوانا مقصودہو یا پرانے کو
اپ ڈیٹ کرنا ،نام زوجیت کی تبدیلی کے نام کی تبدیلی سب کچھ نادرا کے مرہون
منت ہے لیکن ان مسائل کے حل کیلئے ضلعی انتظامیہ اور حکومت کی طرف سے کوئی
قدم اٹھتا دکھائی نہیں دے رہا۔ آج کل کی طفل تسلیوں کی بنا پر گاڑی کو
گھسیٹا جارہا ہے عوام کے نقصان اور پریشانی سے کسی کو کوئی سروکار نہیں
کمشنر ملتان کے نوٹس میں بھی لایا جاچکا ہے لیکن نتیجہ وہی دھاک کے تین پات۔
دوسرا معاملہ کاشتکاروں کے ساتھ ہونے والی زیادتی سے متعلق ہے اسے بھی
احاطہ تحریر میں لانا ضروری ہے ۔ وزیر اعظم کے امدادی پیکج برائے کاشتکار
کے تحت سوا تینتیس کروڑ کے لگ بھگ رقوم کسانوں میں تقسیم کرنے کا سلسلہ
شروع کیا گیا یہاں بھی ملک بھر کی طرح ضلع لودھراں میں انتہا کی بے
ضابطگیاں پائی گئی کسان اور کاشتکار رو رو کر بے حال ہوگئے شور مچا مچا
کرتھک گئے احتجاج دھرنے درخواست بازی جو ان سے بن پڑا انہوں نے کیا لیکن
کہیں پر کوئی ایکشن نہ لیا گیا آخر کار وزیر اعلی پنجاب کے نوٹس لینے پر
سینئر ممبر ریونیو بورڈ، ڈی جی ریلیف، کمشنر ملتان نے کہروڑپکاکا دورہ کیا
اسی دوران پٹواریوں اور ان بارہ افراد کے خلاف مقدمات کا اندراج کر لیا گیا
جو کہ فرضی ڈالے گئے تھے حالانکہ یہ تعداد کہیں زیادہ تھی بلامبالغہ سیکڑوں
کی تعداد میں افراد میں بے ضابطگیاں پائی گئی ہیں۔محکمہ مال کے نگران سر
جوڑ کر بیٹھ گئے ۔اگلے روز اسسٹنٹ کمشنر کہروڑپکا کے کمپیوٹر سے وزیراعظم
امدادی پیکج کے ریکارڈ کی حامل ہارڈ ڈسک چرا لی جاتی ہے۔اور تین سے چار روز
بعد اے سی آفس میں لگے درخت کے نیچے سے مل بھی جاتی ہے پولیس اور شواہد کے
مطابق اس سارے عمل میں ملوث افراد ’’اندر کے لوگ‘‘ ہیں باہر سے کوئی نہیں
آیا اور نہ ہی آسکتا ہے کیونکہ جس جگہ سے چور کا داخلہ دکھایا گیا ہے وہاں
سے آدمی کا اندر آنا انتہائی مشکل بلکہ ناممکن دکھائی دیتا ہے تفتیش شروع
ہے لیکن یہ اونٹ ابھی کھڑا ہے اور اسکی کروٹ کا بیٹھنے پر ہی اندازہ لگایا
جاسکتا ہے
تیسرا معاملہ جو کہ نہایت اہمیت کا حامل ہے وہ یہ کہ پرائیویٹ سکولز کی
رجسٹریشن نئی اور پرانی کا عمل سارا سال جاری رہتا ہے۔ پہلے یہ معاملہ
ایجوکیشن کے کرتا دھرتا سرانجام دیتے تھے لیکن اب ڈی سی او کی منظوری بھی
اس میں شامل کردی گئی ہے جس کی و جہ سے رجسٹریشن بہت سی پیچیدگیوں اور
تاخیر کا شکار ہو کر رہ گئی ہے کیونکہ ڈی سی او آفس کی جانب سے رجسٹریشن
اور renewal کی شرائط انتہائی سخت کردی گئی ہیں پرائیویٹ سکول مالکان اور
رپرنسپلز کا کہنا ہے کہ ایک طرف تو حکومت بچے بچے کو پڑھانے پر اتارو نظر
آتی ہے اور کسی بھی بچے کو سکول سے باہر دیکھنے کی خواہاں نہیں ہے اور اس
سلسلے میں پرائیویٹ سیکٹرکا کردار روز روشن کی طرح عیاں بھی ہے اور اس میں
کوئی بحث بھی نہیں ہے ۔لیکن اب دوسری شرائط کے ساتھ ساتھ سکول میں گراؤنڈ
کاہونا لازمی قراردیا گیا ہے جبکہ دوسرے اضلاع میں اس قسم کی کوئی پابندی
سنائی اور دکھائی نہیں دیتی اور کام smoothly جاری ہے مگر ضلع لودھراں کے
سکولز مالکان کاکہنا ہے کہ ڈی سی او لودھراں کو بھی اپنی پالیسی پر نظر
ثانی کرنا چاہئے ۔ ہم نامساعد حالات میں تعلیم کی روشنی کو پھیلانے میں
حکومت کے شانہ بشانہ مصروف عمل ہیں اور ہماری کاوشیں اور نتائج ہماری علم
دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔گورنمنٹ کے کچھ سکولز ایسے بھی ہیں جن میں
گراؤنڈ تو درکنار بنیادی سہولیات جیسے پینے کا پانی بجلی کی سہولت
چاردیواری کے ایشوز موجود ہیں دوسرا یہ کہ دہشت گردی کے عفریت کی وجہ سے
کھیل اور کھلاڑی عنقا ہوتے جارہے ہیں گراؤنڈز تو پہلے ہی نہیں تھے اورجو
اکا دکا تھے وہ بھی سیکورٹی خدشات کے تحت ویران ہوتے جارہے ہیں سکولز میں
انہی خدشات کے پیش نظر صبح کی اسمبلی تک نہیں کرائی جارہی ہے اوپن ایریاز
کوخطرناک قرار دیا جارہا ہے انہیں سیکیورٹی رسک قراردیا جارہا ہے سکولز کو
congested اورcovered کیا جارہا ہے خار دار تاریں اور مورچوں میں سکیورٹی
گارڈز کو بٹھایا جارہا ہے تو ایسے میں سکولز میں گراؤنڈز اور پلاٹس کی
تکرار سمجھ سے بالاتر ہے بلکہ محترم ڈی سی او صاحب کو چاہئے جو لوگ علم کو
پھیلانے میں کوشاں اور سرگرداں ہیں انہیں ہمت دیں ان کی حوصلہ افزائی کریں
ناکہ غیر ضروری معاملات میں الجھا کر مقصد سے دور کریں ویسے بھی ضلع
لودہراں میں55 سکولز ایسے ہیں جن کی عمارتوں کو مخدوش قرار دے دیا گیا ہے
اور ان میں بچے زیر تعلیم ہیں تو ان کی طرف توجہ زیادہ ضروری ہے لہذا ارباب
اختیاراور ڈی سی او لودھراں درج بالا امور کی جانب ترجیحا توجہ فرمائیں اور
ان معاملات کو حل کی طرف لے کرچلیں تاکہ غریب اور بے بس عوام کی شکایات کا
ازالہ ہوسکے بچوں کا معیار تعلیم بلند ہوسکے جبکہ شہریوں کو پاکستانی شہری
ہونے پر فخر محسوس ہوسکے۔ |
|