8 مارچ کو دنیا بھر میں عورتوں کا عالمی دن
بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ یہ دِن ہر عورت ذات کے لیے بڑی اہمیت کا
حامِل ہے۔ تعلیمی و فلاحی اداروں میں عورتوں کے لیے پروگرامز کا خصوصی
انعقاد کیا جاتا ہے۔ ٹیلی ویژن اور ریڈیوپر خا ص قسم کے پروگرامز نشر کئے
جاتے ہیں۔ ہر دوسراشخص موبائل فون ، ٹیلی فون ، ایس ایم ایس ،ای میل اور
کارڈز کے ذریعے اپنی اپنی ماؤں ،بیٹیوں ، بہنوں ، بہوؤں ، دادی، خالہ ،
پھوپھی ، چاچی ،تائی، ممانی اور دوستوں کو مبارکباد کے پیغامات بھیجنے اور
موصول کرنے میں مصروف نظر آتا ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے انداز سے محبت کا
اظہار کرتا ہے۔ کوئی دعاؤں ، نغموں ، تقریرو ں اور کوئی پھولوں کی مالاؤں
اور نظموں کے خوبصورت گلدستے پیش کرتا ہے اِس خاص دن کے موقع پر عورتوں کے
چہرے خوشی سے شاداب اور لب دعا سے لبریزدِیکھائی دیتے ہیں۔ اور پھر اِس خاص
دِن کے موقع پر رنگ برنگے کپڑوں میں ملبس نیک سیرت اور خوبصورت عورتیں
،محفلِ بہاراں لگ رہی ہوتی ہیں۔ ان کی قربانیا ں ،خدمتیں اور وفائیں دیکھ
کر ایسا لگتا ہے جیسے ساری دُنیا کی رونقیں اور خوبصورتی اِنہی کے دم سے
ہیں۔ بہ فضل خُدایہ اٹل حقیقت ہے کہ اگر یہ نہ ہوں توکائنات کی خوبصورتی بے
رنگ اور بے ڈھنگ سی ہو جاتی ہے۔ کل بنی نوع انسان کا وجود اِنہی کے ہونے سے
ہی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہر طبقے ، فرقے اور مذہب کے لوگ آج انہیں خراجِ
عقیدت پیش کرتے ہیں۔ کیونکہ زندگی کے ہر شعبے میں وفا کی دیوی نے عمدہ
کارہارئے نمایاں سر انجام دیے ہیں۔
عورت وفا کی دیوی ہے ۔یہ تو ایسی ہستی ہے جس میں ساری دُنیا کی رونقیں
سمائی ہوئی ہیں۔ اِس وفا کی دیوئی نے اپنے نیک اور اچھے اعمال کی بدولت ہر
دَور میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ انسان کا وجود عورت ہی کی وجہ ہے۔ انبیاء
کرام ، بادشاہوں اور ہمارے امن کے شہزادے نے بھی ایک پوتر اور نیک دل عورت
کی کوکھ سے جنم لیا۔ بائبل مقدس میں ہمیں ایک نیک پارسہ عورت سوسن کا نام
بھی سُننے اور پڑھنے کو ملتاہے۔ یہ وہ عورت تھی جو خدا پرست اور دعا گو
خاتون تھی ۔ اور اِسی کی روحانیت او ر مضبوط ایمان کی بدولت خدانے مُشکل
وقت میں بھی اپنی اِسی بندی کی حفاظت کی اوراسے اپنی پناہ میں رکھا۔ مقدسہ
مریم مومنِ ا عظمیٰ ہے۔جس کا کوئی بھی نعیم البدل نہیں ۔ پیدائش سے لیکر
آسمان پر جانے تک گناہ سے مبرہ رہی اور اپنے بیٹے کی اچھی والدہ اور وفادار
شاگردہ رہی۔ یسوع مسیح کی پیدائش سے لیکر اُس کے صلیب پر جان دینے تک حتیٰ
کے بعد میں بھی اُس کے شاگردوں کے ساتھ رہی ۔کبھی اُس کو اپنے سے جُدا نے
ہونے نہ دیا۔ کلیسیائی تاریخ اور روایات میں ہمیں اِسی طرح کی اور بھی اَن
گنت اچھی عورتوں کی مثالیں مِلتی ہیں۔ جس میں مقدسہ بینڈکٹ ، مقدسہ لوسی،
مقدس اینگس ، مقدسہ آگاتھا، مقدسہ ، کیتھرین آف سینا، مبارک ٹریضہ اور ایسی
اور بھی بہت ساری عظیم ہستیاں ہیں ۔جنہوں نے اپنا آپ مسیح کی محبت کے لیے
قُربان کر دیا۔اِس دنیامیں کانٹوں کا تاج پہنے مسیح یسوع کی انِجیل کی
گواہی دیتی رہیں اور آج آسمان پر شاہی تاج پہنے مسیح یسوع کے دائیں اور
بائیں بیٹھی ہمارے لیے شفاعت کر رہی ہیں۔
عورت کی خدمت اور برداشت
ہر دور کی طرح موجودہ دور کی وفا کی دیوی نے بھی گراں قدر خدمات سر انجام
دیں ہیں۔ میں ایسی عظیم ہستیوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔یہ دیوی ہم انسانوں
میں اپنے کام اور وفا کی وجہ سے اعلیٰ اور منفرد پہچان رکھتی ہے۔کیونکہ یہ
صبح سے لیکر رات گئے تک مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہے۔ لیکن بدبخت بچاری
اِتنے کام کرنے کے باوجود بھی شام کو اپنے خاوند کی جِھڑکیاں ، ساس کی کرخت
باتیں، سُسر کی بے جا بک بک اور بچوں کی بدتمیزی سُن کر چُپ سادھ کر اپنے
ارمانوں کا گلہ گُھونٹ کر سو جاتی ہے۔ جس گھر میں عورت نہ ہو وہ گھر سُونا
، ویران اور قبرستان سا لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے گھر کئی صدیوں سے سنسان
پڑا ہے۔ عورت گھر کی رونق اور زنیت ہوتی ہے۔ زیست کے سوتے اِسی میں سے
پُھوٹتے ہیں۔ ایک ننھی جان کو دُنیا میں لانے کے لیے نو ماہ تک بڑے کرب اور
درد ناک عمل سے گزرتی ہے۔ پھر جا کر اِس ننھی جان کو دُنیا میں لانے کا سبب
بنتی ہے۔
حوا کی بیٹی اورظالم معاشرہ
یہاں پر مَیں آپ سب کی اجازت سے اپنے مضمون کا رُخ کچھ بدلتا ہوں ۔ تاکہ
آئینے کے دونوں رخ دیکھے جا سکیں ایک طرف حوا کی بیٹی جبکہ دوسری جانب ظالم
معاشرے کی بے رحمیاں۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ دنیا بھر کے مختلف ممالک
میں عورتوں کے ساتھ فحاشانہ ، غلامانہ ، ظالمانہ اور وحشیانہ رویہ برتا
جاتا ہے۔ عورتوں کا بازار لگایا جاتاہے اور اِن کی خریدو فروخت عام ہوتی
ہے۔ اور سرے عام اِن کی بولی لگا ئی جاتی ہے اور پھر لاکھوں اور کروڑوں
روپے کا نفع کمایا جاتا ہے۔ایسا کرنے والے حضرات کبھی بھی ابو ، بھائی یا
چاچا نہیں بلکہ حیوان کہلاتے ہیں ۔جو اپنی ماں ،بیٹیوں اور بہنو ں کے بھرے
بازار میں بولی لگاتے ہیں۔ عورت بچاری غموں اور دُکھوں کی ماری اپنے پیٹ کی
بھوک ختم کرنے کے لیے اپنا جسم بیچنے پر بھی آمادہ ہو جاتی ہے۔ یہی ہے ابنِ
آدم کی اوقات کہ وہ اپنے روپے پیسے اور شان وشوکت کے بل بولتے پر بنتِ حوا
کو اپنی حوس کا نشانہ بناتے ہیں۔اگرعورتیں کہیں پر کوئی کام کرنا شروع کریں
تو پھر بھی بدنامی کا دھبہ لگا کر گھر بیٹھ جاتی ہیں۔ یہی رویہ برتا جاتا
ہے عورت بیچاری کے ساتھ۔
حوس کی نظر سے نہ دیکھ اے ابنِ آدم
حوا کی ہر بیٹی طوائف نہیں ہوتی
آئیں ذرا اپنے دخترانِ وطن کا بھی جائز ہ تولیں ۔وطنِ عزیز پر جان نثا کرنے
والے ۔ وطن کی حشمت اور آبرو کے لیے اپن تن، من ، دھن قربان کرنے
والے۔دخترانِ وطن کے ساتھ کیا کیاسلوک کرتے ہیں؟
ایک طائرانہ نظر اپنے ہسپتالوں کی طرف دوڑاتے ہیں۔ جو ہسپتال کم اور
زِناکاری کے اڈے زیادہ لگتے ہیں۔ جہان شفاء کم اور دوا زیادہ دی جاتی ہے۔
نیک نیتی کم اور بد نیتی زیادہ برتی جاتی ہے۔میل ڈاکٹرز حضرات جو مقدس پیشے
سے وابسطہ ہوتے ہیں۔جن کو زمین پر دوسرا مسیحا کہا جاتا ہے۔جن کے ہاتھ میں
شفاء کا عنصر پایا جاتا ہے۔ غریب خاندانوں سے آئی نرسسز تھوڑے ہی عرصہ بعد
اِن ظالموں کے تشدد کا نشانہ بن جاتی ہیں۔ معصوم فاختہ باپ کے گھر سے اُڑان
پکڑتی ہیں اور جانے انجانے میں ہسپتالوں میں جاکر شکاری (ڈاکٹرز) کے بچھائے
ہوئے جال میں پھنس جاتی ہیں۔اِنہی بیہودہ کاموں کی وجہ سے ہمارے ڈاکٹرز کے
ہاتھ میں شفاء کاملہ نہیں ہے۔ اِسی لیے یہ مریض کو لاعلاج قرار دے دیتے
ہیں۔اسی لیے جعلی ڈگریاں ہاتھوں میں تھامے ہوئے مریضوں کا گلہ گھونٹ دیتے
ہے۔ اِسی لیے دوسرے ہسپتالوں میں لے جانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اور مریض
بیچار ے پورے پاکستان کے ہسپتال چھان بین کرکے بلآخر اپنے گھر میں ہی دم
توڑ دیتے ہیں۔ کتنی لاپرواہی ، ندامت اور شرم ناک بات ہے۔ ہمارے ڈاکٹرز ایک
مریض کو تو بچا نہیں سکتے؟ ۔ تو پھر مسیحا کیسے؟ شافی کیسے؟ بلکہ یہ تو
انسانوں کے روپ میں حیوانی درندے دکھائی ہیں۔جو پیسے کے لالچ میں آ کر
معصوم بنت کو حوس کا پے در پے نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ اُنہی باتوں نے اُن کی
آنکھیں اندھی کر رکھی ہوتی ہیں۔ اور وہ اپنی ذمہ داری میں بری طرح ناکام
ہیں۔
عورتیں بیچاری کریں تو کیا کریں ؟ جائیں تو کدھر جائیں ؟ بس۔۔۔! یاتو روپے
پیسے کے لالچ میں یا پھر بدنامی کے ڈر سے متواتر اپنا جسم مجبوری کے تحت
فروش کرتی رہتی ہیں۔ یہاں تک کہ چند کو تو مذہب تبدیل کرنے کی دھمکیا ں بھی
لگائی جاتی ہیں اور وہ بیچاری ڈر کی ماری اپنا ایمان بھی بیچ ڈالتی ہیں۔
اور پتا نہیں بھوک کی ماری یا پھر عشق کی ماری اپنا مذہب بھی مجبوراً تبدیل
کرنے پر راضی ہوجا تی ہیں۔ میری صدر ِپاکستان اور ملک کے وزیر اعظم سے
گذارش ہے کہ وہ ذرا اپنے ہسپتالوں کی حالتِ زار پر کچھ ترس کھائیں اور اُن
کی حالت کو بہتر بنائیں۔ غریبوں کے علاج کے لیے جدید سہولیات فراہم کی
جائیں۔ علاوہ اس کے دورانِ ڈیوٹی نرسسز کی عزت و آبرو کو پامال نہ کیا جائے
بلکہ سخت نگرانی میں اُن کے مال و حقوق کا خیال رکھا جائے ۔
آئیں ذرا ایک نگاہ اپنے سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں پر بھی ڈالتے
ہیں۔بابائے پاکستا ن کہہ گے ہیں کہ نوجون قوم کا سرمایہ ہیں۔ نوجوان قوم کی
ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔اور یہی نوجوان ہمارا روشن مستقبل ہیں۔
ہمارے تعلیمی ادارے عاشقی معشوقی کی آماجگاہیں بن چُکی ہیں۔کالجوں اور
یونیورسیٹیوں کے ہاسٹلز میں ایسے ایسے گنوؤنے کام کیے جارہے ہیں کہ آنکھ
دیکھ کر شرمندہ اور دھنگ رہ جاتی ہے۔ نوجوان لڑکیوں کو زیورِ تعلیم سے
آراستہ کرنے کی بجائے اُن کے ساتھ نجائز تعلقات استووار کر لیے جاتے
ہیں۔ہمارے اخبارات ہر روز اِنہی شہ سرخیوں سے بھرے ہوتے ہیں کہ آج فلاں جگہ
پر پانچ سال کی بچی سے بلتکار کیا گیاتو فلاں شہر میں چھ سال کی لڑکی کی
عزت پامال کر کے اُسے قتل کر کے اُس کی نعش کو دریا میں پھینک دیا گیا۔
کہیں یہ خبر بھی پڑھنے اور سُننے کو ملتی ہے کہ آ ج ایک سکول ٹیچر نے اپنی
سکول کی ایک طالبہ کو زبرستی اپنی حوس کا نشانہ بنایا۔ یا پھر آج پنجاب
یونیوسٹی کے ہاسٹلز میں پولیس نے چھاپہ مارا اور بہت سارے طالبعلموں کو
گرفتار کر لیا۔ ایسی شرمناک خبریں ہمیں روزانہ سُننے ، پڑھنے اور دیکھنے کو
ملتی ہیں۔
آئیے ذرا دیہاتی لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی عورتوں کے ساتھ کیسا سلوک
کرتے ہیں؟دیہات کے لوگ قدامت پسند اور تنگ نظر ہوتے ہیں۔ عورتوں، نوجوان
بچیوں کو ایسے گھر وں میں باندھ کے رکھتے ہیں جیسے وہ اُن کی بہو، بیٹیاں
،بیویاں کم اور باندھیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ تعلیم کے لیے اُن کے راستے بند کر
دیئے جاتے ہیں۔ خاص قسم کے پہرے کے اندر اُن کو رکھا جاتا ہے تاکہ کہیں
بھاگ نہ جائیں۔ اور کم عمری میں ہی اُن کو رشتہ ازدواج سے منسلک کر دیا
جاتا ہے۔ جوکہ سراسرا غلط ہے۔ حالانکہ ابھی تک اُن کی شادی کا وقت آیا بھی
نہیں ہوتا اور نہ ہی اُن بیچاری کے پاس کوئی ذریعہ معاش ہوتا ہے۔ ہمارے
دیہاتی بہن بھائیوں کو بھی اپنی سوچ کو بدلنا ہو گا۔ اور عورتوں کے ساتھ
میانہ روی کے ساتھ پیش آنا ہوگا اور اُن کو اُن کے برابر کے حقوق دینے ہوں
گے۔
ؓبھٹے پر کام کرنے والی عورتیں بھٹے کے مالک سے قرضے لے لے کر قرضے کے نیچے
دب جاتی ہیں۔ اور پھر ہمیشہ کے لیے اُس کی غلام بن جاتی ہیں۔ قرضے اُتاریں
گیں تو جان چھوٹے گی نہ اُن کی ؟۔ اِسی آڑ میں بھٹے کا مالک بھی فرعون بن
جاتا ہے اور جو چاہتا ہے اُن کے ساتھ کرتا ہے۔ ہمارے سامنے زندہ مثال کو ٹ
راھادہ کشن میں جلا ئے جانے والے جوڑے شمع اور شہزاد کی ہے ۔جس کو بھٹے کے
مالک نے جھوٹے الزام لگا کر زندہ جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ ہمارے وطنِ
عزیز میں ایسے بے شمار غیر قانونی کام ہو رہے ہیں۔ اور ہمارے حکمران سونے
کی چڑیہ بنے آزادی سے پیرس، لندن،دبئی اور نیویارک جیسے خوبصورت شہروں میں
مٹر گشت کر رہے ہیں۔نہ اُن کو اپنے ملک کی کوئی پرواہ ہے اور نہ ہی اپنی
رعایہ کی۔ اگر اُن کو خیال ہے تو اپنی بہو، بیٹی اور بیوی کا بس۔قوم کی
بیٹیاں، دخترانِ وطن تار تار کو ترس رہی ہیں۔ اُن کی سودے بازی کر دیتے ہیں
اور اچھی خاصی قیمت میں اُن کو بیچ ڈالتے ہیں۔باہر کے ملکوں سے قرضے لے لے
کر اپنے بنک بھر تے جارہے ہیں۔ اور ملک کو بیچتے جار رہے ہیں اگر یہی حال
ہمارے ملک کا رہا تو ملک خاک ترقی کرے گا۔ مجھے تو اندیشہ ہے کہ ایک دِن
اِس وطنِ عزیز کا نام ہی صحفہء ہستی سے نہ مِٹ جائے۔
خدا راہ ہمارے ملک کو اپنے حفظ ومان رکھ اور دُختران ِ وطن کی عزت اور آبرو
پر کوئی آنچ نہ آنے دے ۔ ہمارے حکمرانوں کے کُند ذہنوں کو جھنجھوڑ اور اِن
کو عقل و دانائی کا راستہ دِکھا ۔
کاش کہ مل جائے مجھے مقدر کی سیاہی اور قلم
لمحے لمحے کی خوشی لکھ دوں تماری زندگی کے لیے
ٓٓ
آپ سب کو میری طرف سے خواتین کا عالمی دن مبارک ہو!
میرے بچپن کے دن بھی کیا خوب تھے اقبال
بے نمازی بھی تھا اور بے گناہ بھی
کاش کہ مل جائے مجھے مقدر کی سیاہی اور قلم
لمحے لمحے کی خوشی لکھ دوں تماری زندگی کے لیے
رکھنا میرا خیال اب عمر بھر کے لیے
لو میں اپنے آپ کو تیری امانت کر دیا |