آدھی آبادی دیوار کے پیچھے

 تحریر؛ حسن آراء
،،،وجود ِزن سے ہے تصویر کا ئنات میں رنگـــ ِ،، شاعر کا خیال بہت دلفریب نظر آتا ہے شاعر مشرق کو کائنات میں رنگ عورت کے وجو سے نظر آتے ہیں جبکہ حقیقی زندگی میں عورت خود رنگوں سے خالی نظر آتی ہے بیٹی،بہن،بیوی،پھر ماں کے مرتبہ پر فائز ہونے والی حوا کی بیٹی ہمیشہ سے معاشرے کے دوہرے رویہ کا شکار رہی ہے۔ جبکہ اسلام عورت کی تعظیم کا درس دیتا ہے۔اور یس کے ضابطے انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں عورت ماں کے روپ میں فرد کی تعمیر کرتی ہے اور قدم قدم پر خاندان کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے ا سی فطری ضرورت کے پیشِ نظر اسلام عورت کی عزت و احترام کی تا کید کرتاہے ہمارے دین میں انسانی حقو ق کو اولیت دی گیئں ہے اﷲ کریم نے حقو ق اﷲ پر حقوق العباد کو فوقیت دی ہے اسلام انسانی حقوق کا علمبردار ہے۔اور مساوات کی آزادی دیتا ہے ۔
قئرآنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے
ترجمعہ:عورتوں کے مردوں پر ایسے ہی حقوق ہیں لیسے مردوں کے عورتوں پر اچھے سلوک سے۔۔۔۔سورہ البقرہ رکوع28
پھر مردو کے لیے حکم آتا ہے
ترجمعہ:اور اچھے سلوک سے عورتوں کے ساتھ زندگی بسر کرو۔۔۔سورہ النساء رکوع نمبر 3

ا لبتہ خواتین کے لییے کچھ حدود رکھی گئی ہیں جو ان کی حفاظت اور معاشرے میں ان کی آسانی کے لیئے ہین۔قرآن مین جہاں بھی احکامات آئے مرد اور عورت دونون کہ مخاطب کیا گیاوالمومینین والمومنات والمسلمین والمسلمات کہ کر پکارا گیا پردے کا حکم عورت کے لیئے آیا تو مردوں کو بھی کہا گیا کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں تمام احکامات مین دونوں کو مخاطب کیا گیا البتہ جنسی فرق کو مد نظر رکھتے ہوئے طریقوں مین فرق رکھا گیا ۔

مگر معاشرہ قدم قدم پر عورت کا استحصال کرتا رہااس سے جانوروں جیسا سلوک روا رکھا گیا ور اس آدھی آبادی کو دیوار کے پیچھے رہنے پر مجبور کیا جاتا رہا ایسا ہی ایک واقعہ امریکہ کے شہر نیو یارک مین 8مارچ 1907؁ء پیش آیاجب نیو یارک کی ایک لباس سازی کی کمپنی سے وابستہ سیکڑوں کارکن خواتین نے مردوں کے مساوی حقو ق اور بہتر حالات کار کے لیئے زپر دست مظاہرہ کیا انکا نعرہ تھا ،، دس گھنٹے کا م کے عو ض اچھی تنخواہ دو۔،، یہ بات خود کو مہذب کہلانے والی قوم کو سخت نا گوار گذری ان کارکن خواتین پر نہ صرف لاٹھی چارج کیا گیا بلکہ ان پر گھڑ سوار دستے چھوڑ دیئے گئے اور گھوڑوں کے سموں تلے روندا گیااور جیلوں مین ڈال کر ان کی سوچ کو کچلنے کی کو شش کی گئی مگر اب حوا کی بیتی جاگ چکی تھی اسے اپنے حقو ق کا احساس ہو گیا تھا اسکے بعد یہ سلسلہ چل پڑاوہ نام نہاد مہذب معاشرے سے اپنا حق مانگ رہی تھی بلاآخر 1908؁ء میں امریکہ کی سوشلسٹ پا رٹی نے خواتین کے مسائل حل کرنے کے لئے وومن نیشنل کمیشن کی بنیاد رکھی سو شل ڈیمو کریٹک وومن سو سائٹی نے 8مارچ 1908؁ء کو نیو یارک میں عورتوں کے حقوق کے لئے ایک اجلاس منعقد کیا گیا جس کے نتیجے میں1909 ؁ء خواتین کا عالمی دن مانانے کا اعلان کیا گیا مگر اس کی تا ریخوں رد و بدل کیا جا تا رہا1960؁ء میں یہ مطالبہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا اور کچھ مغر بی ممالک میں یہ دن آٹھ مارچ کو منایا جا نے لگا 1975؁ء سے1995؁ء کے درمیان میکسیکو،کوپن ہیگن ، نیروبی ،بیجنگ میں خواتین کی چار عا لمی کانفرنس منقعد کی گیئں بلا آخر آٹھ مارچ کے دن کوخواتین جدو جہد کرنے والی خوتین سے یوم یک جیہتی کے طور پر منائے جانے کا فیصلے کو تسلیم کرلیا گیا۔
ہر سال اس دن کی مناسبت سے مختلف تنظیمین سیمینار،جلسے اور تقاریب منقعد کرتی ہیں مگر کوئی جا ننے کی کوشش نہیں کرتا کہ عورت کے حالات مین بہتری آئی کہ نہیں ۔

پاکستان مین عورتوں کے سا تھ امتیازی سلوک اسکی پیدائش کے وقت سے شروع ہو جاتا ہے جب لڑکے کی پیدائش پر اہل خانہ مٹھائیون کے ٹوکرے تقسیم کرتے اور لڑکی کی کی پیدائش پر باپ کو اپنے کاندھے پر بوجھ محسوس ہونا شروع ہوتا ہے آج بھی دیہی علاقوں میں عورت کو تعلیم کے زیور سے مزین ہونے سے روکا جاتا ہے غیرت کے نام پر خواتین کا قتل فخر سمجھا جاتا ہے وانی،کارو کاری وراثت کی تقسیم سے بچنے کے لیئے، قرآن ِ کریم سے شادی،جبری نکاح جیسی جاہلانہ روایات برقرار ہیں کارو کاری کے نام پر نہ جانے کتنی عورتیں موت کے گھاٹ اتار دی گیئں کوئی پوچھنے والا نہیں حوا کی بیٹی پنی حرماں نصیبی کا رونا روتی رہی مگر نقار خانے میں طو طی کی آوز کے مصداق اسکی آواز معاشرے کے ناخداوں کے شور مین دب کے رہ گئی ظلم کی چکی مین پستی رہی اعلی رتبے کی حقدار ہونے کے باوجود مرد کی جوتی ہی رہی وہ گھر کی دھوبن، باورچی، جمعدارنی،ایک ایسی مفت کی خدمت گارجسے اجر عظیم کا سہنا سپنا دکھا کر یا درا دھمکا کر ظلم کی چکی مین باریک پیسا جاتا رہا ہے اسے فرائض کا احساس دلا کر حقوق کو اجر کا آسرا دے کر معاشرہ اسکا استحصال کرتا رہا ہے۔

مگر آج کی عورت بیدار ہو چکی ہے مسلم خواتین اسلامی شعار کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے حقوق کے لیئے آواز بلند کرسکتی ہیں اگر چہ حکومت کو ہر وقت کڑی تنقید کا سامنا ریتا ہے مگر ملکی سطح ہر کیئے جا نے والے اقدامات خوش آئیند ہیں وومن سینٹرز ،ووکیشنل سینٹرز میں اضافہ کیا گیا ہے۔ وزارت ترقیء خواتین نیشنل کمیشن آف اسٹیٹس فار وومن کا قیام جسکے تحت جینڈر ریفارمز ایکشن پلان پر عمل در آمد کا منصوبہ بھی فرئض انجام دے رہا ہے GRAPٰٓٓایسا منصوبہ ہے جس میں افسر اعلی سے افسران تک خواتین ہیں اسکے زریعے حکو متی سطح پر CEDAW جیسے بین الاقوامی معاہدے پر عمل در آمد کی مربوط کو ششیں کی جا ہی ہیں۔انسانی حقوق کے عالمی منشور UDHR کے تحت اقوام عالم نے جنرل اسمبلی کی طرف سے عورتون کے خلاف تشدد کے خاتمے کے قانون CEDAWکی منظوری کے بعد عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق حاصل ہین ۔ قوانین موجود ہیں مگر پاکستان مین اس پر عملدرآمد نہیں ہے مذہبی بنیادون کا سہارا لے کر عورتوں کے حقوق سلب کیا جاتا ہے آج بھی کارکن عورت سے زیادہ کام لے کر کم معاوضہ دیا جاتا ھے آج بھی اسے روزگار کے مساوی مواقع حاصل نہیں آج بھی اسے ہراساں کیا جاتا ہے جبکہ جنسی خوف و ہراس کا قانون ASHA موجود ہے اس کے باوجود بنت حوا مصائب و آلام کا شکار ہے مگر ان قوانین پر عمل درآمد مشکل نظر آتا ہے پنجاب نے اس سلسلے میں کوششوں کا آغاز کر دیا ہے مذہبی جماعتوں سے مشاورت جا ری ہے جب عورت کے حقوق کی بات ہوتی ہے مذہبی جماعتیں متحرک ہو جاتی ہیں اب دیکھتے ہیں حرماں نصیبی کب بنت حوا کا دامن چھوڑے کب عورت احترام کے لائق سمجھی جائے کب معاشرہ کی دیوار سامنے سے ہٹے اور عورت اپنا پورا حق وصول کرپائے۔کوششین جاری ہیں۔حوا کی بیٹی تا حال منتظر لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں روح بھی ہوتی ہے اس مین یہ کہاں سوچتے ہیں -
Sherazi Akram
About the Author: Sherazi Akram Read More Articles by Sherazi Akram: 2 Articles with 1914 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.