آواز خلق نقارہ خدا است

فروری کا آخری ہفتہ اور مارچ کے ابتدائی ایام فیملی کے ساتھ حرمین شریفین میں گزارنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ایک دن دوران طواف احرام اور سادہ کپڑوں میں ملبوس کچھ زائرین حرم کی آواز حرم کعبہ میں گونج رہی تھی۔ وہ پورے جوش عقیدت کے ساتھ ترنم سے کہ رہے تھے ’’غازی تیرے جان نثار ، بیشمار بیشمار۔۔یا رسو ل اﷲﷺ آپ کے چاہنے والوں کی خیر‘‘۔ وہاں کی مشغولیات کی وجہ سے ابھی تک کسی حتمی خبر تک رسائی نہیں ہوئی تھی البتہ کچھ چہ مہ گوئیاں سننے میں آرہی تھیں۔ ہوٹل جا کرکچھ دیکھنے سننے کی کوشش کی تو سوشل میڈیا پر ممتاز حسین قادری کی پھانسی کے سلسلے میں کئی ایک پیغامات گردش کر رہے تھے ۔ لائیو ٹی وی لگا کر دیکھا تو وہاں آسکر ایوارڈ کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ پھر کچھ احباب سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ غازی ممتازحسین قادری کو پھانسی دے دی گئی ہے البتہ حکومت کے ایماء پر پیمبرا نے سخت ترین احکامات جاری کیے ہیں کہ ممتاز حسین قادری کی پھانسی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے احتجاجی جلسہ و جلوس نہیں دکھا نااور نہ ہی نماز جنازہ کی کوریج کرنی ہے۔یہی وجہ ہے کہ کوئی چینل یہ دکھانے کی جرائت نہیں کر رہا۔اس سے دور جمہوریت میں پاکستانی میڈیا کی آزادی کا پول کھل گیا۔ پیمرا کے چند سطروں پر مشتمل حکمنامے نے بڑے بڑے باتونیوں کی زبانیں گنگ اور قلم جامد کر کے رکھ دیے ۔امید ہے آئندہ انہیں پاکستان میں’’ میڈیا کی آزادی‘‘ کا دعوی کرتے ہوئے کسی حد تک شرمندگی ضرور ہوگی۔ جہاں تک حالیہ واقعات کا تعلق ہے، قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر خود ہی فیصلہ کر کے کسی کو قتل کر دینا یقینا کسی بھی معاشرے کے لئے اچھی روایت نہیں۔ لیکن جہاں تک سلمان تاثیر کے قتل اور ممتاز حسین قادری کی پھانسی کے کا تعلق ہے خود سلمان تاثیر نے پہلے نہ صرف قانون کو ہاتھ میں لیا بلکہ جس آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایاتھا اسی کے قانون کو کالا قانون تک کہ دیا۔ تحفظ ناموس رسالت کا قانون شریعت اسلامیہ اور آئین پاکستان دونوں میں موجود ہے۔ اگر اس قانون کو کالا قانون کہنا جرم نہیں تو پھر ممتاز قادری کا قانون کوہاتھ میں لینا کیسے جرم ٹھہرا؟ ایک شخص جو پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کے گورنر کے عہدے پر فائز ہے وہ نہ صرف ناموس رسالت کے قانون کو کالا قانون کہتا ہے بلکہ جب ممتاز قادری نے با ادب انداز میں سلمان تاثیر کو تحفظ ناموس رسالت کے قانون کوایسا کہنے سے گریز کرنے کو کہا تو اس نے تیش میں آکر جو کچھ کہا اسے سپریم کورٹ کے فیصلے کے من و عن الفاظ میں پڑھ لیجئے ۔ غازی ممتاز حسین نے سپریم کورٹ میں بتایا کہ ’’ میں سلمان تاثیر کے سامنے آیا اور مجھے یہ بات کرنے کا موقع ملا۔’’ جناب (گورنر صاحب) آپ نے تحفظ ناموس رسالت کے قانون کو کالا قانون کہا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو آپ کو یہ ذیب نہیں دیتا کہ ایسا کہیں۔ اس پر اچانک وہ (سلمان تاثیر) برہم ہوا اور کہا کہ نہ صرف یہ کالا قانون ہے بلکہ یہ تو میرا پاخانہ ہے‘‘ (PLD 2016 Supereme Court Page 28, 29) ممتاز قادری سے برداشت نہ ہوا اور غیرت ایمانی اور حب رسولﷺکے جذبے سے سرشار ہو کر گولی چلائی اور سلمان تاثیر کو قتل کردیا۔سلمان تاثیر کے قتل کے تیسرے دن اس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے میڈیا پر بیان دیا کہ ’’ میرے سامنے کوئی گستاخی رسول کرے تو میں بھی اس کو قتل کردوں گا‘‘۔اگر وزیر داخلہ قانون کو ہاتھ میں لینے کا اعلان کر سکتا ہے تو پھر ممتاز قادری نے کیا غلط کردیا؟ حقیقت یہ ہے کہ ممتاز قادری نے جو کچھ کیا وہ ایمانی غیرت اور عشق نبیﷺ میں ڈوب کے کیا۔ جبکہ سلمان تاثیر یہ سب کچھ روشن خیالی، لبرل ازم کے فروغ اور اسلام دشمن قوتوں کو خوش کرنے کیلئے کر رہا تھا۔ خود ان کا بیٹا آتش تاثیر ولد سلمان تاثیر اپنی کتاب Stranger to History میں اپنے والد کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے ’’ (میرا والدہر شام کو شراب پیتاہے۔ اس نے کبھی روزہ رکھا اور نہ کبھی نماز پڑھی۔ وہ خنزیر کھاتا ہے۔ ایک مرتبہ اس (سلمان تاثیر) نے بتایا کہ جیل میں اسے پڑھنے کیلئے جو کتاب دی گئی وہ صرف قرآن تھا۔ اس نے کئی دفعہ الٹی طرف سے اسے پڑھا اور کہا کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ میرے لئے اس میں کچھ بھی نہیں‘‘۔ جب اس طرح کی مسلمانی ہو تو پھر توہین رسالت کی کیا پرواہ! حقیقت یہ ہے کہ جب گستاخانہ باتیں متکبرانہ لہجے میں سر عام کی جا رہی ہوں ۔ احتجاجی جلسے و جلوس نکل رہے ہوں۔ بحیثیت گورنر استثنا کی وجہ سے کوئی قانونی کاروائی بھی نہ کی جا سکتی ہو۔ کوئی عدالت سوموٹو ایکشن تک نہ لے اور حکومت وقت کوئی کاروائی کرنے کی بجائے اس گستاخی کا دفاع کرے تو پھر کسی ممتاز قادری نے یہ قرض تو چکانہ ہی تھا۔ یہ کوئی فقہی مسئلہ ہے اور نہ ہی سیاسی و سماجی عقدہ۔ یہ تو غیرت ایمانی اور حب رسول ﷺکا جذبہ ہے جو کہ انتہائی نازک اور حساس معاملہ ہے۔ اس کے لئے کوئی مسلمان اپنی جان تک کی بازی لگا سکتا ہے۔ ممتاز قادری کی پھانسی کو انصاف کہنے والے کیا بتا سکتے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کو لاہور میں ایک غریب لڑکے کو قتل کروانے کی سزا کیوں نہ ملی؟ ایان علی کو ابھی تک سزا کیوں نہ دی گئی؟ شاہ رخ جتوئی کو پھانسی کیوں نہ ہوئی؟ بلدیہ ٹاؤن کراچی اور ماڈل ٹاؤن لاہور کے قاتل کیوں دندناتے پھر رہے ہیں؟ صرف اس لئے کہ وہ طاقتور اور عیاش ہیں اورممتاز قادری ایک غریب کا بیٹا اور دیندارہے۔ ہمارے لئے یہ بھی تعجب خیز بات ہے کہ ممتاز قادری کی پھانسی پر خوشی کے شادیانے بجانے والوں میں سے اکثریت ان این جی اوز اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی ہے جو ملک میں پھانسی کی سزا کے ہی خلاف ہیں۔ لیکن اسلام دشمنی میں اس پھانسی پر پھولے نہیں سما رہے۔ ممتاز حسین قادری کے تاریخ ساز جنازے اور عوام الناس کے خراج عقیدت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ حکومت وقت میڈیا پر پابندیا ں عائد کر کے جنازے کی کوریج رکوا سکتی ہیں لیکن لوگوں کے دلوں سے غیرت ایمانی اور پیارے نبیﷺ کی محبت نہیں نکال سکتی۔ارباب اقتدار کو غیور عوام کے جذبات کوسمجھ لینا چاہیے کیونکہ’’ آواز خلق نقارہ خدا است‘‘۔ پاکستانی قوم نے مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ ثابت کردیا ہے کہ تحفظ ناموس رسالت پرہم سب ایک ہیں۔ اپنے عہدے اور منصب کے غرور میں مبتلا کوئی بھی شخص توہین رسالت کا ارتکاب کرنے سے پہلے اب سو بار سوچے گا کہ ’’کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے‘‘۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ارض پا ک میں لبرل ازم اور سیکولر ازم کے نام پر جس طرح لادینیت کو رواج دیا جا رہا تھا،ان حالات میں غازی علم دین شہید کے بعد ممتاز حسین قادری شہید کی قربانی شاید وقت کی ضرورت بن چکی تھی۔ یہ قربانی صدیوں تک اہانت رسول کا تصور کرنیوالوں کے سروں پر تلوار بن کے لٹکتی رہے گی اور سرور دوعالمﷺ کی عظمتوں اور رفعتوں کے پرچار پہلے سے بڑھ کے ہوتے رہیں گے۔
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 219795 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More