دوا ساز ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری....من مانے اضافے کے بعد مصنوعی قلت

ملک میں کچھ عرصے سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے ادویہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کا معاملہ زیر بحث ہے۔ گزشتہ ماہ عالمی ادویہ ساز کمپنیوں نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کی منظوری کے بغیر خاموشی سے جان بچانے والی متعدد دواﺅں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا۔ اپوزیشن اور عوام کے شدید احتجاج کے بعد حکومت نے دوا ساز کمپنیوں کے اضافے کو مسترد کر کے اسے مذاکرات کی دعوت دی، لیکن یہ کمپنیاں حکومت کی بات ماننے کو تیار نہیں ہیں اور خود ساختہ اضافے کو برقرار رکھنے پر مصر ہیں اور قیمتوں میں من مانے اضافے کے بعد مارکیٹوں میں ادویہ کی مصنوعی قلت بھی پیدا کردی ہے، تاکہ ضرورت مند عوام مہنگے داموں ادویہ خریدنے پر مجبور ہوجائیں۔ ایک طرف موسم کی تبدیلی کی وجہ سے ملک بھر میں نزلہ، ز کام، کھانسی، دمہ، سینے کے انفیکشن جیسے امراض میں اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ دوسری جانب دوا ساز ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ان امراض کی ادویہ میں مصنوعی قلت کردی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مارکیٹوں سے کھانسی کے شربت Delen، دمہ کا انجکشن Kenacart، پیناڈول، Tandigel، Actifed، Avil خاص طور پر غائب یا نایاب ہیں، جس کی وجہ سے عام آدمی کے لیے علاج کروانا نہایت مشکل ہوگیا ہے۔ ان موسمی دواﺅں کے علاوہ بھی مارکیٹ سے بہت سی دوائیں غائب ہیں یا ان کی قیمتوں میں دگنا اضافہ ہوگیا ہے۔ دو ساز کمپنیوں کی جانب سے قیمتوں میں حالیہ من مانے اضافے کے بعد میڈیکل اسٹورز پر کئی اہم ادویات نایاب ہو گئی ہیں۔ دوائیں نہ ملنے سے الرجی سمیت مختلف امراض میں مبتلا مریضوں کی پریشانیاں بڑھ گئیں۔ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو مریضوں کی پریشانیاں بڑھ گئیں، لیکن ان کی پریشانیوں میں اور بھی اضافہ اس وقت ہو ا جب میڈیکل اسٹوروں سے الرجی سمیت دیگر امراض کی ادویات ہی غائب ہو گئیں۔ طبی ماہرین کے مطابق پولن کا سیزن شروع ہونے کے باعث الرجی سمیت سانس، دمہ اور آنکھوں کے امراض بڑھ رہے ہیں۔ 6 ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے ادویات میں 15سے70 فیصد اضافے کے بعد کئی اہم ادویات مارکیٹ سے ناپید ہو چکی ہیں۔ فارماسسٹ کہتے ہیں کہ پرانی قیمتوں والا اسٹاک روک کر جان بوجھ کر کمی پیدا کی گئی ہے۔ مریضوں کو میڈیسن مافیا کی لوٹ مار سے بچانے کے لیے ڈرگ اتھارٹی کو ایسا میکنیزم بنانا ہو گا، جس کے تحت ادویات کی قیمتوں کا صحیح تعین کیا جا سکے۔ دوا ساز کمپنیوں نے حکومت کی جانب سے ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفیکشن مسترد کرنے کے اقدام کو کھلا چلینج کرتے ہوئے اہم ترین ادویات کی مصنوعی قلت پیدا کی ہوئی ہے۔ نزلہ، زکام، فلو، نفسیاتی امراض، مرگی، آدھے سر کا درد، سانس، دمہ، نیند، دماغی دوروں، سکون آور اور بعض دیگر امراض کی ادویات کھلے عام من مانی قیمتوں پر فروخت کی جارہی ہیں، جس کے نتیجے میں بعض ادویات کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ موجودہ صورتحال سے مریض پریشان اور محکمہ صحت مکمل طور پر لاتعلق نظر آتا ہے۔ محکمہ صحت میں موجود کالی بھیڑوں کی زیر سرپرستی مارکیٹ میں زائدالمعیاد ادویات اور منافع خوری کے گھناﺅنے کاروبار نے انتہائی تشویشناک صورت اختیار کرلی ہے، جبکہ بیشتر دوا ساز کمپنیاں موسمی امراض اور جان بچانے والی بعض اہم ترین اور ضروری ادویات کی فراہمی کئی کئی ماہ تک بند کر دیتی ہیں جس کے باعث ادویات کی قیمتوں میں کئی کئی گناہ اضافہ کر دیتے ہیں۔ غیر ملکی دوا ساز کمپنیوں کو مخصوص ادویات کا لائسنس جاری کر کے اجارہ دار بنا دیا گیا ہے۔

گزشتہ ماہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے جان بچانے والی ادویہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کے بعد اپنے عملے کو ہدایت کی تھی کہ وہ صارفین سے نئی قیمتوں کے حساب سے ادویات کے پیسے چارج کریں، جس کے باعث کئی جان بچانے والی ادویات مارکیٹ سے غائب ہوگئیں اور ”مافیا“ کو مریضوں کی پریشانی سے بے جا فائدہ اٹھانے کی کھلی چھٹی مل گئی۔ اس کے ساتھ کئی ادویہ ساز کمپنیوں نے تو اپنے عملے کو یہ بھی ہدایت کی کہ مارکیٹ سے ادویات کا پرانا اسٹاک اٹھا کر انہیں نئی قیمتوں میں بیچا جائے۔ ذرایع کے مطابق ادویات ساز کمپنیوں نے انسانی جانیں بچانے والی 165ادویات کی قیمتوں میں10 سے350 فیصد اضافہ کیا، ان ادویات میں کھانسی کے شربت ٹیکے الرجی اور بلڈ پریشر کے ساتھ ساتھ ملیریا، شوگر اینسولین، اینٹی بائیوٹک اور پینا ڈول کی میڈیسن بھی شامل ہیں، جبکہ وفاقی حکومت نے جب ادویات مہنگی کرنے والی12 کمپنیوں کا ریکارڈ حاصل کیا تو یہ انکشاف ہوا کہ ادویات کی قیمتوں میں 10 فیصد سے لے کر 750 فیصد تک اضافہ کیا گیا۔ ایک مقامی وکیل اشتیاق چودھری ایڈووکیٹ نے ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی، جس میں کہا گیا کہ ادویہ ساز کمپنیوں نے کینسر،ہیپاٹائٹس سمیت دیگرموذی بیماریوں کے علاوہ جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں کسی فارمولے کے بغیر از خود اضافہ کر رکھا ہے۔ ادویات کی قیمتوں کے تعین کے لیے حکومت کی طرف سے کوئی فارمولا نہیں ہے، جبکہ ہزاروں مریض مہنگی ادویات خریدنے کی سکت نہیں رکھتے اور سسک سسک کر جان دے دیتے ہیں۔ درخواست میں استدعا کی گئی کہ ادویہ ساز اداروں کو قیمتوں کے تعین سے متعلق قانون کے دائرے میں لانے کے لیے حکومت کو موثر قانون سازی کا حکم دیا جائے۔ از خود قیمتیں بڑھانے والی کمپنیوں کے خلاف ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو قانون کے مطابق کارروائی کرنے کا بھی حکم دیا جائے۔ ادویہ ساز کمپنیوں کی اجارہ داری کا یہ عالم ہے کہ وہ حکومت سے مذاکرات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیرمملکت برائے قومی صحت سائرہ افضل تارڑ کی بلائی گئی میٹنگ میں فار ما انڈسٹری کا گیارہ میں سے صرف ایک نمائندہ پیش ہوا،دوسری بار پھر دوا ساز کمپنیوں کے نمائندوں کو طلب کیا، لیکن دوسری بار بھی دوا ساز کمپنیوں کے نمائندے حاضر نہیں ہوئے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دوا ساز کمپنیاں حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اس قدر ہٹ دھرمی کے باوجود حکومت دوا ساز کمپنیوں کو ادویہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کرنے سے باز رکھنے میں ناکام ہے۔ واضح رہے کہ آئین پاکستان ریاست کے ہر شہری کو جینے کا حق دیتا ہے اور حکومت کو بھی پابند کرتا ہے کہ اپنی پالیسیوں سے جینے کے حق کا تحفظ کرے، لیکن ادویات کی بڑھتی قیمتیں آئین پاکستان کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور اربا ب اختیار کی مجرمانہ غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ادویات کی قیمتوں کی بڑھوتری پر حکومت نے چپ سادھ رکھی ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد شعبہ صحت صوبوں کے حوالے کر دیا گیا لیکن وفاقی حکومت کی ذمہ داری ختم نہیں ہوتی۔ ڈرگ کنٹرول اٹھارٹیز کا آئینی کردار ادویات کے معیار کی جانچ اور قیمتوں کا تعین ہے۔ ملک میں ادویات کی محفوظ اور ارزاں نرخوں پر فراہمی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی ذمہ داری ہے، مگریہ ادارہ اپنا کام ٹھیک طریقے سے نہیں کر رہا جس سے ادویہ ساز ادارے من مانی پر اتر آئے ہیں۔ عوام کو ارزاں نرخوں پر محفوظ اور معیاری ادویات اورطبی خدمات کی دستیابی یقینی بنانا ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ جعلی، غیر معیاری اور غیر اندراج شدہ ادویہ کی روک تھام اور ذخیرہ اندوزی کی حوصلہ شکنی بھی اسی اتھارٹی کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی دواؤں کی لاگت اور جائز منافع کا تعین کرے، کیونکہ قائمہ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق 10 روپے کی دوائی 100 روپے میں ہی دستیاب ہے۔ فارما انڈسٹری صارفین کی جیبوں سے مہنگی ادویات فروخت کر کے اربوں روپے کما چکی ہے۔ مارکیٹ میں غیر معیاری ادویات کی بھرمار ہے۔ ملکی اور غیر ملکی دواساز کمپنیاں اپنی دواؤں کی زیادہ سے زیادہ فروخت اور ناجائز منافع خوری کے لیے ڈاکٹروں کو لالچ دے کر بیرون ممالک میں نہ صرف دوروں پر لے جاتی ہیں بلکہ کبھی کیش اور مختلف مہنگے تحفے دے رہی ہیں جو کہ جرم کی مدمیں آتا ہے اور صارفین میں آگاہی کے نام پر اپنی دوائیں فروخت کرنے کے لیے دفتاً دفتاً میڈیا پر اشتہاری مہم بھی چلاتی ہیں، جس کا بوجھ صارفین کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ صوبائی سطح پر کام کرنے والی ڈرگ کنٹرول اتھارٹیز کہاں ہیں؟

پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں ادویات بہت مہنگی ہیں۔ پاکستان ایک غریب ملک ہے لہٰذا یہاں ادویات کی قیمتیں کم ہونی چاہئیں۔ بھارت میں ادویات کی قیمتیں پاکستان کی نسبت آدھی سے بھی کم ہیں۔ بنگلا دیش میں بھی ادویات پاکستان کے مقابلے میں سستی ہیں۔ بھارت، بنگلادیش اور چین سمیت متعدد ممالک میں ضروری ادویات کی ایک فہرست مرتب کی جاتی ہے، جو کم قیمت ہونے کے ساتھ معیاری اور مہنگی ادویات کا متبادل ہوتی ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ اسی فہرست کی تجویز کردہ ادویات نسخے میں لکھیں، لیکن یہاں ایسا نہیں کیا جاتا۔ واضح رہے کہ دوا ساز اداروں نے 2013 میں بھی ادویات کی قیمتوں میں ازخود پندرہ فیصد اضافہ کیا تھا۔ ادویہ ساز اداروں نے ادویات کی قیمتوں میں ازخود اضافہ پہلی بار نہیں کیا بلکہ عوام پر یہ ظلم پہلے بھی کئی بار ڈھایا گیا ہے۔ 2013ءمیں بھی وزیر اعظم کے اضافہ کو روکنے کے احکامات کے باوجود ادویہ سازاداروں نے حکومت کی ایک نہ چلنے دی اور 15 فیصد اضافے کا نوٹیفیکیشن واپس ہونے پر حکم امتناعی لے لیا۔ دوا سازاداروں نے حکم امتناعی کی آڑ میں عوام پر گزشتہ ڈھائی سال میں 90 ارب روپے کا بوجھ ڈال دیا اور یوں عوام سے ہر سال 35 ارب روپے بٹورے جارہے ہیں۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی حکومت کا دفاع نہ کرسکی تو معاملے پر پردہ ڈال دیا۔دنیا بھر میں کمپنیاں پیٹنٹ کے سات سال بعد قیمت میں 20 فیصد کمی کرتی ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔

وزارت صحت اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے مکمل طور پر غافل ہوگئی ہے۔ عوام کی زندگی اور صحت سے کھیلنے والی درندہ صفت دوا ساز کمپنیوں کے لائسنس فوری طور پر منسوخ کیے جائیں اور ان اداروں کی پشت پناہی کرنے والی وزارت صحت میں موجود کالی بھیڑوں کو عبرت ناک سزا دی جائے۔ملک میں غیر ملکی دوا ساز کمپنیوں کی اجارہ داری کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے کبھی ملکی دوا ساز کمپنیوں کو موقع ہی فراہم نہیں کیا۔ اگر ملک میں غیر ملکی کمپنیوں کی بجائے ملکی دوا ساز کمپنیوں کو تمام فارمولوں کی ادویہ کو مارکیٹ کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا تو یہ صورتحال نہ ہوتی۔ اگر پاکستانی دوا ساز کمپنیوں کو اجازت دی جاتی ہے تو ان کے فارمولوں سے ادویہ کی تیاری بہت کم قیمتوں پر ہوسکتی ہے،لیکن حکومت صرف ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ملک میں عوام کا خون چوسنے کی اجازت دیتی ہے۔ اگر آج ہماری مقامی دوا ساز انڈسٹری طاقتور ہوتی تو یہ صورتحال نہ ہوتی، ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے کبھی مقامی دوا ساز انڈسٹری پر وہ توجہ نہیں دی جو دینی چاہیے تھی، جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ عام آدمی علاج سے محروم ہو رہا ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 631956 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.