ماں تو سب کی سانجھی ہوتی ہے
(Muhammad Abdullah, Lahore)
سوموار والے دن سارا دن وہاڑی میں مختلف
لوگوں سے یونائٹ اینڈ ڈیفنڈ پاکستان پروگرام کی تیاری کے لیے ملاقاتیں اور
میٹنگز کرتے ہوئے تھکاوٹ سے چور جب رات بارہ بجے کے قریب بہاولپور پہنچا تو
جاتے ہی سو گیا. صبح اذان فجر کے ساتھ آنکھ کھلی تو اپنا موبائل چیک کیا جس
پر نوٹیفیکیشنز اور میسجز کا تانتا بندھا ہوا. ان میں سے ہی محترم جنید
الرحمن بھائی کا ایک جان لیوا میسج پڑھ کر کلیجے کو ہاتھ پڑا کہ احمد طیب
بھائی جو المحمدیہ روضہ سوسائٹی شرقی پنجاب کے ذمہ دار ہیں ان کی والدہ
ماجدہ جو کافی عرصہ سے علیل تھیں وہ رضائے الہی سے وفات پا گئی ہیں. احمد
بھائی کا گھرانہ بھی بہاولپور میں ہی مقیم ہے. میسج میں لکھی عبارت پر یقین
کرنے کو دل نہیں مان رہا تھا کونکہ ایک دو دن قبل ہی تو احمد بھائی بتا رہے
تھے کہ ماں جی کی طبیعت اب کافی بہتر ہے. میں نے تصدیق کے لیے بھاولپور کے
ساتھیوں سے پوچھا تو وہ بھی بتانے لگے کہ ہاں واقعی ماں جی وفات پا گئی ہیں.
فجر و اشراق سے فارغ ہونے کے بعد جب ہم احمد بھائی کے گھر گئے تو ان کے گھر
کے ارد گرد مرد و زن کا تانتا بندھا ہوا تھا. وہاں پر ایک عجیب منظر دیکھنے
کو ملا. احمد بھائی اور ان کے دیگر اہل خانہ کے دل گو غم سے لبریز تھے مگر
زبان پر صبر و تشکر کے کلمات تھے. احمد بھائی اور ان کے بڑے بھائی عبدالاحد
ہمیں ماں جی کی بیماری ،آخری ایام اور زندگی کے بارے میں بتانے لگے.
وفاتیں اور بھی ہوتیں ہیں مگر اس ماں کی وفات پر جس چیز نے مجھے یہ الفاظ
لکھنے پر مجبور کیا وہ ماں کے ہاتھوں پورے گھرانے کی بے مثل تربیت اور بیٹے
کا رقت آمیز انداز میں خود اپنی ماں کا جنازہ پڑھانا تھا. ہم جس معاشرے میں
رہتے ہیں وہاں تو لوگوں کو اپنے والدین کا جنازہ پڑھتے ہوئے اس بات کا نہیں
پتا ہوتا کہ اپنے والدین کو الله کے حضور روانہ کرتے ہوئے دعا کونسی ادا
کرنی ہے کجا کہ بیٹا خود والدین کا جنازہ پڑھا رہا ہو. مگر یہاں پر وہ خوش
قسمت ماں ہے کہ جس کے چاروں بیٹے نیک سیرت عالم باعمل جس کا خاوند کا ہر
لحظہ دعوت دین میں مصروف عمل. وہ ماں جو اس بیماری کے عالم میں بھی خود جا
کر خواتین کو اسلام کی دعوت دیتی. دور تلک خود جا کر خواتین کا اصلاحی
میگزین الصافات اپنے ہاتھوں سے تقسیم کرتیں. جنازے پر ایسے لگتا تھا جیسے
سارا شہر امڈ آیا ہو اس پر احمد بھائی کے والد محترم جو خود بھی ہائی سکول
میں استاد ہیں ، کہنے لگے کہ یہ جو آپ اتنی تعداد دیکھ رہے ہیں یہ ان
خواتین کے بھائی بیٹے ہیں جن کی اس نے خود جا جا کر تربیت کی ہے. اور ان
مردوں سے زیادہ تعداد میں خواتین ہیں جو گھر میں آئی بیٹھی ہیں. جنازے سے
قبل ممتاز مذہبی سکالر الشیخ عبدالطیف نے موت اور آخرت کی تیاری پر اس
انداز سے بات کی کہ آنکھیں آنسؤوں سے جھلملانے لگیں اس کے بعد عبدالاحد
بھائی نے جنازہ میں دعاعیں اس رقت اور سوز سے مانگیں کہ پیچھے صفوں میں
کھڑے اس ماں کے روحانی اور اسلامی بیٹے بے اختیار رو دیے کہ "ماں تو سب کی
سانجھی ہوتی ہے". یہ ہے اسلام کا امتیاز جو عورت کو اوج ثریا کی بلندیوں تک
پہنچا دیتا ہے. الله مرحومہ کی آخرت کی منزلیں آسان کرے اور جنت الفردوس
میں اعلی درجات سے نوازے اور لواحقین کو صبر جمیل اور اعمال صالح پر کاربند
ہو کر مرحومہ کے نیکیوں کے سلسلے کو رکنے نہ دینے کی توفیق سے نوازے. آمین |
|