بس اب اور نہیں۔۔۔ شاہینوں کی پرواز

یہ ایک اور شکست نہیں ایک اور رسوائی ہے۔شاہینوں کی پرواز کے دعوے دار آسمان کی جانب نگاہ کرتے ہوئے زمین بوس ہوگئے۔آخر کب تک ہم مٹی کے بتوں کیسونے کے بھاؤ لگاتے رہیں گے۔ہر کھیل میرٹ سے شروع ہوکر میرٹ پراختتام پزیر ہوتا ہے اسی بنا پر شکست تسلیم اور جیت کا جشن منایا جاتا ہے لیکن لگتا ہے کہ ہمارا نظام کرکٹ میں بھی الٹا چل رہا ہے۔کرکٹ جو تقریباً ہر پاکستانی کا جنون ہے اسے بھی تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیا ہے۔ایشیا کپ میں شکست کی زمہ داری صرف ان کرکٹرز کی نہیں جو پوری قوم کو رسوا کرنے میں کمال رکھتے ہیں بلکہ قصور وار پی سی بی کی تمام انتظامیہ بھی ہے۔جو ہر بار ہر شکست کی عجیب و غریب منطق پیش کر کے بری وزمہ ہو جاتی ہے۔کیا وجہ ہے کہ ایک وقت تھا جب ، حنیف محمد، ظہیر عباس، جاوید میانداد، انظمام، سعید انور، محمد یوسف، یونس خان جیسے ورلڈ کلاس بیٹسمین ٹیم کی شان ہوا کرتے تھے اور اب یہ حال ہے کی کوئی ڈھنگ کا اوپنر نظر آتا ہے نہ ہی قابل بھروسہ مڑل آرڈر بیٹسمین۔ پی سی بی میں عہدے داروں کی قطار لگی ھے جو لاکھوں روپے تنخواہیں بٹورنے میں مصروف ہیں انہیں کچھ گنے چنے دلپسند کھلاڑیوں کے علاوہ کوئی نیا ٹیلنٹ نظر نہیں آتا۔دنیائے کرکٹ میں آئے دن نئے پلیرز جلوہ افروز ہورہے ہیں اورسینئر پلیرز نئے ریکارڈز بنا رہے ہیں اور جب ان سے پرفارمنس نہیں ہوتی تو عزت سے ریٹائر ہوجاتے ہیں۔اسکے برخلاف ہماری ٹیم میں جو کچھ نہیں کرتا اسے کپتان بنادیا جاتا ہے۔اور پھر کپتان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر شکست کی زمہ داری دیگر پر ڈال کر خود اپنا کیرئیر بچاتا رہے۔

کیا ہمارا ڈومیسٹک اسٹرکچر اتنا کمزور ہے کہ سیلکٹرز ابھی تک کوئی ویراد کوہلی، اے بی ڈی ویلئر، ہاشم آملا یا سنگاکارا تلاش نہیں کر سکے یا سلیکٹرز کو ان کروڑوں شائقین کی کوئی پرواہ ہی نہیں جو ہر میچ میں ٹی وی کے سامنے دعاؤں کے سہارے کسی معجزے کی توقع میں بیٹھے میچ دیکھ کر اپنا دل جلا رہے ہوتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کرکٹرز کو جتنا پیسہ، شہرت اور عزت ملتی ہے اس کا تصور کسی دوسرے شعبے میں محال ہے۔پوری دنیا میں جہاں بھی پاکستانی مقیم ہیں وہ اپنی ٹیم کی فتح پر ایسے جشن مناتے ہیں جیسے وہ خود ٹیم کا حصہ ہوں مگر اب مسلسل خراب کارکردگی نے انہیں بھی دلبرداشتہ کردیا ہے۔کبھی ہم دنیا کی صف اول کی ٹیم ہوا کرتے تھے اور اب یہ حال ہے کہ ایشیا کی بھی کمزور ترین ٹیم ہو چکے ہیں۔شائقین اب جواب چاہتے ہیں کہ کیا وجہ ھے 19 سال کے طویل کیرئر میں 398 میچز کھیلنے کے باوجود صرف 6 سینچریوں کی بدولت فقط 8064 رنز بنانے والے آفریدی میڈیا کے کچھ منتخب صحافیوں کی بدولت ٹیم میں کب تک شامل رہیں گے۔ہم شعیب ملک، احمد شہزاد یا حفیظ کو مسلسل خراب اور اکا دکا پرفارمنس کے باوجود بار بار ٹیم پر مسلط کرتے رہیں گے۔کیا ابھی بھی ڈومیسٹک میں مسلسل نزرانداز ہونے والے پلیئرز ان نام نہاد اسٹارز کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔سرفراز احمد نے کئی مرتبہ مشکل وقت میں اپنی عمدہ پرفارمنس سیبیٹنگ لائن کی ڈوبتی نیا کو پار لگایا ہے مگر اسکے باوجود بھی انہیں کبھی فوقیت نہیں دی گئی کبھی مجبوراً تینوں فارمیٹ کا کپتان بنا دیا جاتا ہے تو کبھی بغیر کسی وجہ کے ہی سرفراز ٹیم کا حصہ ہی نہیں ہوتا یا ہو بھی تو مشکل صورتحال میں اسے قربانی کا بکرا بنادیا جاتا ہے۔اب وقت آچکا ہے کہ ارباب اختیار کو انتہائی سخت فیصلے کرنا ہونگے۔کرکٹرز کو سخت تنبیہ کرنا ہوگی کہ جسطرح یہ اشتہارات میں خود کو بہترین اداکار ثابت کررہے ہوتے ہیں ویسے ہی اگر گراؤنڈ میں پرفارمنس نہیں دی تو انہیں اب گھروں کو رخصت کرنے میں دیر نہیں لگائی جائے گی۔

ہم نے عبدالرزاق جیسے بہترین آلراؤنڈر کو سیاست کی نزر ہوتے دیکھا ہے مگر اب ایسا نہیں ہونا چاہئے ہر طرح کی لابنگ کا خاتمہ کرکے پرفارمنس کی بنیاد پر سلیکشن کرنا ہوگی۔نئے کھلاڑیوں مہں شرجیل خان، محمد نواز اور اصغر جیسے ٹیلنٹڈ پلیئرز کو بھرپور آزمایا جائے۔ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ سر پر کھڑا ہے یقیناً ابھی فوری تبدیلیاں ممکن نظر نہیں آتی مگر اسکے فوری بعد ون ڈے اور ٹی ٹونٹی اسکواڈ سے فارغ پلیئرز کو مستقل فارغ کرکے نیا خون ٹیم میں شامل کیا جائیاور ان پر مستقل محنت کی جائے تب ہی شائقین کرکٹ کا غصہ ٹھنڈا ہو ورنہ کہیں کرکٹ کا حال بھی ہاکی کی طرح نہ ہو اور عوام تنگ آکر کرکٹ پر بھی فاتحہ نہ پڑھ لیں۔
Muhammad Shoaib Yar Khan
About the Author: Muhammad Shoaib Yar Khan Read More Articles by Muhammad Shoaib Yar Khan: 2 Articles with 1482 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.