موت کے کاروبار پر احتجاج

دنیا میں لوگ احتجاج اپنے حقوق ،اپنے مسائل ،کسی کے رویے،کسی کے ظلم و زیادتی پر کرتے ہیں مگر ہمارے پیارے ملک میں لوگ اس بات پر احتجاج کر رہے ہیں کہ ہمیں دوسرے لوگوں کی صحت ’’تباہ‘‘کرکے مارنے کی اجازت دی جائے ،ہمیں کوئی نہ روکے،یعنی ہمیں اپنے تھوڑے سے منافع کے لئے دوسرے نا سمجھ لوگوں کو مارنے کی کھلی چھٹی دی جائے ۔۔’’اسلام کہتا ہے کہ جو ملاوٹ کرے وہ ہم میں سے نہیں‘‘ تو دوسری طرف ملاوٹ کی اجازت نہ ملنے پر احتجاج کیا جا رہا ہے ۔۔۔۔مال روڑ لاہور پر احتجاج پر ’’عدالت‘‘فیصلہ دے چکی ہے اور تاجروں کے شدید احتجاج پر اب مال روڑ پر احتجاج کو روکا جاتا ہے ،پھر بھی کوئی نہ کوئی گروپ مال روڑ پر احتجاج کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے گزشتہ روز گوجر برادری’’گوالے‘‘ اپنے دودھ والے ٹرکوں سمیت فورڈ اتھارٹی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے اور مطالبہ کر رہے تھے کہ ہمارا دودھ چیک نہ کیا جائے ۔۔۔یعنی ہمیں ’’دو نمبری‘‘ اور ملاوٹ کی اجازت دی جائے کئی تو عائشہ ممتاز کے خلاف باقاعدہ نعرے بازی کر رہے تھے ۔۔۔۔ارے گوجر بھائیو ۔۔۔آپ لوگوں کو مضر صحت ،اور ملاوٹ شدہ دودھ پلانے کے لئے کیوں اصرار کر رہے ہو اور احتجاج کر رہے ہو ۔۔۔؟اگر تمہارا دودھ خالص ہے تو پھر تمیں کس بات کا ڈر ہے۔۔۔؟ ڈٹ کر فورڈ اتھارٹی والوں سے کہو کہ جیسے مرضی دودھ چیک کرو تمہیں اس سے کچھ نہیں ملے گا ۔۔۔۔ہم نے اسلام کے فرمان کے مطابق ’’اس میں کوئی ملاوٹ نہیں کی ہے‘‘ لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہے۔۔۔۔۔احتجا ج اس بات پر ہو رہا تھا کہ جب ہم لاہور شہر میں دودھ لیکر ’’چائے ملاوٹ شدہ‘‘ داخل ہوں تو ہمیں کوئی روک ٹوک نہ ہو۔۔۔مضر صحت اور ملاوٹ شدہ دودھ خالی لاہور ،راولپنڈی ،اسلام آباد ،پشاور کا مسئلہ نہیں اب پورے پاکستان میں وبائی مرض کی طرح مکروہ دھندے کی شکل اختیار کر گیا ہے،گزشتہ روز ڈاکٹر عادل رشید نے بتایا کہ جن بھنیسوں اور گائیوں کو ٹیکے لگا کر دودھ حاصل کیا جاتا ہے وہ مضر صحت ہے اور خاص طور پر ٹیکوں والے دودھ کے استعمال سے ’’کینسر‘‘ کا مرض بڑھ رہا ہے بھارت میں ان ٹیکوں ( Oxytocin) پر پابندی لگ چکی ہے ،عوام کو آج پورے پاکستان کے ہر چھوٹے ،بڑے ہوٹل ،تندور پر،بکرے،گائے،مرغی کا گوشت،دودھ،دہی،مرچ مصالحے،ادویات،اور ہر کھانے پینے کی دکان پر جو کچھ مل رہا ہے وہ’’ ملاوٹ شدہ‘‘ہے،بلکہ 95فیصد ناقص اور مضر صحت ہے کتنی عجیب اور مضکحہ خیز بات ہے کہ جب حکومت کا ایک ادارہ یعنی فورڈ اتھارٹی ان تمام غیر میعاری اشیاء بنانے والوں اور ملاوٹ کرنے والوں کو پکڑتی ہے تو یہ لوگ جلوس اور احتجاج شروع کر دیتے ہیں ۔۔۔ ،ملک میں تمباکو نوشی،پان ،گٹھا،چھالیہ،رنگ دار اشیاء کھانے والوں کی تعداد بھی بڑتھی جا رہی ہے ،پاکستان میں انتہائی ناقص خوراک اور پینے کے لئے انتہائی آلودہ پانی ہے جس سے بیماریاں بڑھتی جارہی ہیں اور ’’حکومت‘‘ گھوڑے بیچ کے سوئی ہوئی ہے ،چاہے وہ پمجاب ہو ،کے پی کے،سندھ یا بلوچستان ہو ۔۔۔ان عوامل سے سرطان سمیت خطرناک ترین بیماریاں بڑھ رہی ہیں عمران خان سرطان کے لئے پشاور میں اسپتال بنا رہے ہیں خدا کرے کہ وہ مفت علاج کے وعدے پے بھی قائم رہے ان کی کاوش لائق تحسین ہے ،ایک طرف ملک میں امراض روز بروز برھ رہی ہیں تو دوسری طرف عطائیت ،دو نمبر اور جعلی ڈاکٹروں نے پنجے گاڑ رکھے ہیں ،پاکستان میں رجسٹرڈ ڈاکٹرز صرف دو لاکھ جبکہ عطائی دو گنا چار لاکھ ہیں ،کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک طرف حکومتی ادارے جب عطائیوں اور دونمبر ادویات بنانے والوں کے خلاف کاروئی کرتے ہیں تو دوسری طرف عدالتیں سے ریلیف مل جاتا ہے ’’سٹے آرڈر‘‘ مل جانے پر یہ عطائی اور دو نمبر ادویات بنانے والے اور شیر ہو جاتے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عطائیوں کو ریلیف دینے والے کیا پنا اور اپنے بچوں کا علاج ان سے کرائیں گئے ۔۔۔۔؟ یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک بندہ ایم نی بی ایس نہیں تو کیا وہ الٹرا ساؤنڈ کرے اور ادویات دے۔۔۔۔؟یہ کہاں کی دلیل ہے کہ ہومیوڈاکٹرز ،حکیموں اور ایل ایچ وئیز،کے ساتھ ساتھ پیرا میڈیکل سٹاف بھی کسی ایم بی بی ایس یا کسی بھی الٹر ساؤنڈ اسپشلسٹ کو تیس ریس ہزار روپے دے اور مشین پر ٹیسٹ اور معائنہ کی تربیت لے،راقم نے خود جا بجا جگہوں پر دیکھا ہے کہ ایسے بے شمار اشتہارات دیکھے ہیں کہ تین ماہ میں الٹرا ساؤنڈ کورس کر لیں ،بد قسمتی سے اس ملک میں ایسے سینکروں ایم بی بی ایس ہیں جو ہر بیماری کا علاج کر رہے ہیں ایک ڈاکٹر مہارت کسی اور فلیڈ میں حاصل کرتا ہے اور علاج کسی اور بیماری کا شروع کر دے ،یہ بھی عطائیت ہے ،بقول ڈاکٹر جاوید احمد گورائیہ ای ڈی او ہیلتھ کے ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کو اب عطائیت کے خلاف خود جہاد کرنا ہو گا ،راقم نے ایک جگہ کال کی تو بتایا گیا کہ اگر آپ ایف اے یا میٹرک پاس ہیں تو آپ کو الٹرا ساؤند کے ماہر بن سکتے ہیں ،بیماریوں کی تشخیص پھر اس پر علاج اور ادویات کا تعین الٹرا ساؤنڈ اور دیگر کلینکل ٹیسٹوں کی رپورٹ کی روشنی میں کیا جاتا ہے اور الٹر ساوئنڈ کرنے والا ہی جاہل اور غیر تربیت یافتہ ہو اور اس کو جسم کی کیمسٹری کا کیا پتہ ہے ،بھلا کس طرح وہ جسم کے اندر گردوں ،جگر اور دیگر نظام کا معائنہ کر کے رپورٹ لکھ سکتا ہے ،جبکہ حکومت کہتی ہے کہ جگر کے انراض بڑھ رہے ہیں ان ناہل ڈاکٹرز اور حکیموں ،نرسز اور ایل ایچ وی کو الٹرا ساؤنڈ کی اجازت دی جائے ،اس طرح کی اجازت ملنے پر ہر بیماری کا علاج غلط ہو جائے گا اور لاکھوں لوگ خطر ناک بیماریوں کا شکار ہو جائیں گے ،حکومت کے لئے یہ بات کس قدر شرم اور افسوس کی ہے کہ سرکاری ہسپتال تو80سے ایک سو کنال پر ہوتے ہیں مگر وہاں علاج کی سہولتیں نامناسب اور وہ نقصان میں ہوتے ہیں جبکہ ایک سے دو کنال کا پرائیوٹ اسپتال سالانہ ڈیڑھ کروڑ سے دو کروڑ صرف منافع کماتا ہے ۔۔۔۔؟سرکاری اسپتالوں کو برباد صرف اور صرف ان سرکاری ڈاکٹروں اور پروفیسرز نے کیا ہے جو رات رات بھر پرائیوٹ اسپتالوں میں نوٹ چھاپنے پر لگے رہتے ہیں ،۔نجانے وہ عوام اور سول سوسائٹی جو ہر’’ ایونٹ ‘‘ پر موم بتیاں جلانے کی ماسٹر ہے وہ اب کہاں ہے۔۔۔۔؟حکومت کو چائیے کہ عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دیں جب عوام خود ایسی ناقص غذا کھانے پر تلی ہوئی ہے تو آپ کیوں محکمے بنا کر فنڈز ضائع کر رہے ہیں ۔۔۔؟ہمیں دودھ اور دہی کے کاروبار کرنے والوں کے احتجاج سے ایک اخبار میں لگی وہ تصویر یاد آگئی کہ سانگھڑ میں ڈاکوؤں سے زیادہ بھتہ مانگنے پر پولیس کے خلاف احتجاج کیا تھا۔۔۔ سو اپنے گوالے دوستو کا احتجاج بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ انہیں ٹیکے والا،پانی ملا،مختلف مضر صحت کیمکلز سے بنا ہوا،خشک دودھ اور سنگھاڑے کے آٹے سے بنی دہی ٖروخت کرنے کی اجازت دی جائے ،حکومت پنجاب لوگوں کو صاف ستھری غذائی اشیاء دینا چاہتی ہے مگر یہاں عوام خود ناقص غذا کھانے کے حق میں ہے ۔۔۔ورنہ آج تک سول سوسائٹی اس سنگین مسئلے پر خاموش ہے۔۔۔کہیں کوئی سیمنار،مظاہرہ،اور مذاکرا ’’ملاوٹ‘‘ کے خلاف سول سوسائٹی نہیں کر رہی ہے۔۔۔۔۔امریکہ بہادر اور انگریز بہادر دنیا کی ترقی یافتہ ممالک میں وہاں انسانوں کو چھوڑیں اگر پتہ چل جائے کہ ’’جانوروں‘‘ کو دی جانے والی غذا میں ملاوٹ ہے تو اس پر ’’چھ ماہ‘‘ قید ہو جاتی ہے ان تمام ترقی یافتہ ممالک میں جن ٹینکروں میں دودھ ،پانی،اور دیگر غذائی اشیاء لائی جاتی ہیں ان کی دھات ،ان کی صفائی کو پوری طرح چیک کیا جاتا ہے کہ آیا اس میں کوئی جراثیم یا بیٹکریا تو نہیں۔۔۔پھر جب کوئی ٹینکر دودھ یا کوئی غذا لے کر روانہ ہوتا ہے تو اس کا وقت نوٹ کیا جاتا ہے اگر وہ مقررہ وقت ہر مقررہ جگہ پر نہیں پہنچا تو اس خوراک کو ضائع کر دیا جاتا ہے ،کیوں کہ وہ مقررہ وقت گزرنے پر خوراک خراب یا اس میں خطرناک بیکٹریا پیدا ہو جاتے ہیں ۔۔ہمارے ہاں جو اسپتال کے اسپتال مریضوں سے بھرے پڑے ہیں اس کی بنیادی وجہ غذا میں ملاوٹ ،غیر معیاری کھانے،گندے گوشت کا استعمال،اس وقت پاکستان کے بے شمار شہروں میں گدھوں ،گھوڑوں اور کتوں کا گوشت فروخت کیا جاتا ہے۔۔۔۔ان ترقی یافتہ ممالک میں کاسمیٹکس، تمباکو اور ادویات میں ملاوٹ یا غیر میعاری فروخت کرنے پر قید اور ایک لاکھ ڈالر’’ایک کروڑ‘‘ روپے تک جرمانہ ہوتا ہے وہاں پر جو لوگ کچن کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں ان کے ناخن اور بال تک کٹے ہوتے ہیں ،ملک کی الیےٹ کلاس (خیر ہم نہیں مانتے جو قوم کا پیسہ لوٹ کر اور رشوت کھا کر امیر اور بڑے لوگ ہو جائیں انہیں اللیےٹ کلاس کہنا زیادتی ہو گئی سندھ کے سائیں وڈے ڈاکٹر عاصم کو بہت بڑا آدمی قرار دیتے ہیں مگر کیا زمانہ آگیا ہے جو لوگ غلط کام کریں ،پی ایم ڈی سی کو برباد کر دیں آج وہ بڑے لوگ ہیں )۔۔جن معروف اور نامور ریستورانوں میں سرے شام ہی کھانا کھانے جاتی ہے وہاں میز نہیں ملتی گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے وہاں کے کچنوں کی جو صورت حال فیس بک پر فورڈ اتھارٹی نے دکھائی ہے وہ کسی دیہات کے ڈھابے یا مزدور کے ہوٹل کے میعار کی بھی نہیں۔۔۔کس طرح پرانی سبزیاں، ایکسپائر تاریخوں کے ٹن فروٹ اور بوتلیں استعمال کی جارہی ہیں۔۔چاروں صوبائی حکومتوں اور خصوصا میاں صاحب ہمارے خیال میں ایسا قانون لایا جائے کہ جو ہوٹل گندی خوراک فراہم کر رہا ہے اس کو نہ صرف سیل کیا جائے بلکہ اس کے پورے خاندان کو اس ہوٹل کا چھ ماہ تک کھانا اور سزی کھلائی جاے ۔۔۔۔۔شاہد کے اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Dr M Abdullah Tabasum
About the Author: Dr M Abdullah Tabasum Read More Articles by Dr M Abdullah Tabasum: 63 Articles with 49257 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.