طلاق
(Shahid Shakeel, Germany)
لائف پارٹنر یعنی میاں بیوی میں کشیدگی کی
انتہا ہو جائے تو علیحدگی کے بعد طلاق کی نوبت آ جاتی ہے دونوں اپنے ذاتی
اور اگر بچے ہوں تو ان کے معاملات ہینڈل کرنے کے بعد اپنی اپنی راہ لیتے
ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی علیحدگی سے ان کی اولاد پر کتنا
گہرااثر پڑے گا وہ کن مصائب سے دوچار ہوں گے تاحیات سسک سسک کر زندگی بسر
ہو گی کس کس کو اپنے والدین کی جہالت کی کہانیاں سناتے رہیں گے کہ ماں ایسی
تھی یا باپ ویسا تھا ،ماں پرورش کرے گی تو دل باپ کے لئے روئے گا اور اگر
باپ پرورش کرے گا تو ماں کی جدائی کا زہر پیتے رہیں گے کس کس کو کہتے رہیں
گے کہ ماں ہے لیکن نہیں ہے اور باپ کے ہوتے ہوئے بھی یتیم ہیں ایسا سوچتے
ہوئے کتنا درد محسوس کرتے ہونگے اور جب زمانے کی تیز دھار کٹیلی باتیں کہ
تیرا باپ اچھا نہیں تھا اسی لئے علیحدگی ہوئی یا ماں کو کوئی طعنہ دے گا تو
کیا جواب دیں گے، کوئی کسی کی زبان کو قفل نہیں لگا سکتا بالفرض اگر کسی
قریبی فرد کو تمام حالات سے آگاہی ہو تب بھی والدین جیسا نرم گوشہ کوئی
نہیں رکھتا کیونکہ والدین دنیا کی وہ عظیم شخصتیں ہیں جو اپنی اولاد پر
قربان ہو جاتی ہیں لیکن زندگی میں ایسے مقام ،حالات اور خاص طور پر موجودہ
دور میں اتنی تیزگی آگئی ہے کہ دوست بھی دشمن ہے ،ہر کوئی دوسرے کی کمزوری
کا متلاشی ہے اور موقع ملتے ہی گزند پہنچانے سے گریز نہیں کرتا،ایک ہنستے
کھیلتے خاندان میں دراڑ ڈال کر کسی کو کچھ حاصل تو نہیں ہوتا لیکن کچھ لوگ
عادت سے مجبور ہوتے ہیں نہ خود خوش رہ سکتے ہیں نہ کسی دوسرے کو خوش دیکھ
سکتے ہیں ،اکثر خواتین بہکاوے میں آجاتی ہیں اور فیملی سے کنارہ کشی کو
ترجیح دیتی ہیں لیکن کئی مرد بھی مختلف وجوہات کے بنا پر ہنستا کھیلتا گھر
اجاڑ دیتے ہیں ،اور اس اجاڑ پجاڑ میں اکثر قریبی افراد کا عمل دخل ہوتا ہے
کیونکہ وہ تمام حالات سے واقف ہوتے ہیں ۔ فیملی کے بکھر جانے سے سب سے
زیادہ نقصان بچوں کا ہوتا ہے مثلاً انکی صحت پر شدید اثر پڑتا ہے ،نیند میں
خرابی ،متلی یا بار بار قے کرنا ،پیٹ اور سر میں درد رہنا وغیرہ ۔ایک رپورٹ
کے مطابق جرمنی میں ہر سال ایک لاکھ اسی ہزار سے دو لاکھ تک طلاقیں ہوتی
ہیں اور ان طلاقوں کی زد میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد بچے آتے ہیں جن کی عمریں
ایک سال سے سولہ سال تک بتائی گئی ہیں بعد از علیحدگی اور طلاق زیادہ مسائل
کا سامنا دونوں پارٹیوں کو کرنا پڑتا ہے لیکن چونکہ والدین اپنے مفاد کو مد
نظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں مصروف رہتے ہیں
اور انکی اسی جہالت کا خمیازہ ان کے بچوں کو بھگتنا پڑتا ہے جنہیں سماجی
مسائل حل کرنے میں شدید مشکلات پیش آتی ہیں،ایسے بچوں کو مسائل ورثے میں
ملتے ہیں اور وہ مزید بحرانوں اور تنازعات کا شکار ہو جاتے ہیں ، علیحدگی
یا طلاق کے بعد جب تک بچے اپنے ماں یا باپ کے ساتھ رہتے ہیں تو کسی حد تک
معاملات ہینڈل کر لئے جاتے ہیں لیکن جیسے ہی لڑکپن اور جوانی کی دہلیز پر
قدم رکھتے ہیں تو نئے سہارے کی تلاش کی جاتی ہے مثلاً بااعتماد دوست، جانا
پہچانا ماحول اور اگر ناکامی ہو تو ڈرگس یا الکوحل کا سہارا لیا جاتا ہے
کیونکہ وہ اپنے آپ کو ٹھکرایا ہوا انسان سمجھتے ہیں اور اندر ہی اندر خوف
میں مبتلا رہتے ہیں اور سوالیہ نشان ان کی زندگی کا ہمسفر ہوتا ہے۔سویڈن کے
میگزین آف ایپی ڈیمی لوجی اینڈ کمیونٹی ہیلتھ کے مطالعے میں بتایا گیا کہ
علیحدگی کے بعد بچے جسمانی طور پر شدید متاثر ہوتے ہیں ،غیر واضح علامات
میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ،ماہرین نے تحقیق کے بعد بتایا کہ خاص طور پر چھوٹے
بچوں کے علاوہ ایک لاکھ پچاس ہزار بچے جن کی عمریں چھ سے پندرہ سال تھیں
والدین کی علیحدگی کے بعد وہ شدید جسمانی و ذہنی طور پر متاثر ہوئے ، مثلاً
نیند میں خلل اور کنسنٹریشن کمزوری سر فہرست تھی، ایسی صورت حال بچوں کے
مستقبل اور زندگی کے لئے شدید خطرناک ثابت ہو سکتی ہے،علیحدہ ماں یا باپ کے
ساتھ رہنے والے بائیس فیصد بچے عام طور پر نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے
ہیں ،مجموعی طور پر تمام بچوں کی نیند میں خلل ،ذہنی پریشانی، سر اور پیٹ
کا درد، بھوک میں کمی ، بے چینی ،تھکاوٹ اور بے سکونی شامل ہیں،رپورٹ میں
بتایا گیا کہ لڑکیا ں خاص طور پر متاثر ہوتی ہیں ،بچوں میں خوف اور غم و
غصہ جنم لیتا ہے جس کے سبب جسمانی اعضاء تکلیف میں رہتے ہیں ،والدین کے
موجود ہونے کے باوجود بچے خلا محسوس کرتے ہیں اور ہر وقت یہی سوچتے ہیں کہ
ہماری وجہ سے والدین میں علیحدگی یا طلاق تو نہیں ہوئی ،چھوٹے بچے اکثر
بیمار رہتے ہیں اور بڑے اپنے آپ کو مصروف رکھنے کیلئے سپورٹس یا دیگر سماجی
رابطوں سے وقت گزاری کرتے ہیں ،علیحدگی اور طلاق کے بعد والدین بچوں سے
ملاقات ضرور کرتے ہیں لیکن ناپختہ ذہن کے بچے حقائق نہیں جانتے اور نہیں
چاہتے کہ والدین سے ایسے ملاقات ہوبلکہ والدین دوبارہ ایک ہو جائیں جو شاید
ناممکن ہوتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے اپنی ذات اور انا کی بجائے بچوں کے
مستقبل کے بارے میں سوچا جائے اور باہمی رضا مندی سے زندگی گزارنے کی کوشش
کی جائے نہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے کیونکہ علیحدگی یا طلاق گھر ہی
نہیں کئی افراد کی زندگی بھی اجاڑ دیتی ہے۔ |
|