کبھی کبھی وہ دِکھا بھی دیتا ہے

محترم قارئین السلامُ علیکم کبھی کبھی ہمارے ساتھ ایسا واقعہ پیش آجاتا ہے کہ جسے ساری زندگی وہم سے زیادہ اہمیت نہ دی ہو وہ حقیقت بن کر سامنے آجاتا ہے اور کبھی جسے ہمیشہ سچائی سمجھ کر عبادت کا درجہ دیا ہو وہ سراب ثابت ہوتا ہے ہر بات عقل میں سما جائے یہ بھی ضروری نہیں اور صرف محنت سے ہمیشہ منزل مل جائے ایسا بھی کوئی کُلیہ نہیں بعض اوقات جس شے کی طلب حد سے بڑھی ہو نہیں مِلتی اور کبھی بنا طلب کے مل جائے تو اُسی شے کو بے مصرف سمجھ کر ضائع بھی کردیا جاتا ہے۔

آپ کہیں یہ تو نہیں سمجھ رہے کہ میرا موڈ آپ کو آج بُور کرنے کا ہے اگر آپ ایسا سمجھ رہے ہیں تو بالکل غلط سوچ رہے ہیں میں آج آپ کے ساتھ اپنی زندگی کا ایک ایسا واقعہ شئیر کرنے جارہا ہوں جسے پڑھ کر شائد آپ جھوم جائیں، یا آپکے ڈوبتے ہوئے یقین کا سورج پھر سے اُبھر آئے یا پھر کسی کے یقین کو مظبوطی،اور استِقامت نصیب ہوجائے۔

یہ ۱۹۸۵ کا واقعہ ہے ہمارے علاقے میں ایک نئی مسجد کی تعمیر ہونے جارہی تھی مجھے حُکم ملا کہ اگلے جمعہ کی نماز میں پڑھاؤں اور اپنے بیان میں لوگوں کو مسجد کی تعمیر کے لئے دِل کھول کر چندہ دینے کیلئے راضی کروں کہ یہ مسجد اگرچہ شہر کے قلب میں واقع تھی لیکن ایک طویل عرصے سے تعمیر کی مُنتظر تھی۔

مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا تھا جس مسجد کے مقتدی عرصہ دراز میں اپنی مسجد کو تعمیر نہیں کرپائے وہ میرے صرف ایک بیان سے کس طرح اپنی جیبوں کو راہِ خُدا میں اُلٹ دیں گے مجھے یہ سب ناممکن لگ رہا تھا لیکن مسجد کمیٹی کے ایک بُزرگ کا اصرار تھا کہ اُنکا دِل اُنہیں گواہی دے رہا تھا کہ میرے بیان سے لوگوں میں ضرور جذبہ بیدار ہوگا۔

میں اُنکا دِل نہیں توڑنا چاہتا تھا لیکن یہ بھی جانتا تھا کہ مجھ گُنہگار انسان کے بیان میں ایسی تاثیر کہاں کہ لوگوں کی سوچ کے دھارے کو بدل سکوں، لیکن مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق حامی بھر لی اور بیان کی تیاری شروع کردی۔

جُوں جُوں جُمعہ کا دِن قریب آرہا تھا دِل میں عجیب سے ہول اُٹھ رہے تھے کہ اُن بُزرگ کا گُمان جو اُنہوں نے میرے متعلق قائم کر رکھا تھا جُمعہ کے دن جب حسبِ منشا چندہ حاصل نہ ہوپائے گا تو ریت کی دیوار کی طرح ڈھے جائے گا اور اُنہیں مسجد کمیٹی کے بقیہ ارکان کے سامنے خِفت کا سامنا ہوگا میں نہیں جانتا تھا کہ مشیت الہی میں کیا طے پا چُکا ہے جب جمعرات کا دِن آیا تو میرے سینے میں ایک بات پھانس کی طرح چُبھ کر رہ گئی اور وہ یہ تھی کہ ہم اکثر سُنتے ہیں کہ جو راہِ خُدا میں ایک خرچ کرتا ہے اللہ کریم اُسے دُنیا میں دس گُنّا اورآخرت میں ستر گُنا عطا فرماتا ہے، میرے دِل میں جو سوال پھانس بن کے اٹکا تھا وہ یہ تھا کہ کیا کسی مجھ سے عام انسان نے اِسکا مُشاہدہ بھی کیا ہے؟

مغرب کی نماز کی ادائیگی کے بعد میری طبعیت عجیب سی ہوگئی آنکھوں سے اشک رواں تھے اور زُبان پر صرف ایک کلمہ تھا اے اللہ یقیناً تیری راہ میں ایک خرچ کرنے والے کو تُو ایک کے بدلے دس عطا فرماتا ہوگا لیکن میرے مولا مجھے بھی دِکھا دے کہ کسطرح تو ایک کے بدلے دس عطا فرماتا ہے میرے مالک مجھے حق تو نہیں پُہنچتا کہ میں تیری بارگاہ میں مُشاہدے کی درخواست کروں کہ میں بندہ ہوں اور تو مالک ہے اور غلام کو کچھ حق نہیں کہ مالک سے شرط رکھے لیکن اگر تو چاہے تو مجھے اپنے فضل سے عطا فرما دے اور میرے یقین کی نَیّا کو پار لگا دے میں جب دُعا سے فارغ ہُوا تو دِل میں اِک عجیب سا سکون پیدا ہوگیا جس سے مجھے یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ گویا جیسے میری دُعا قبول ہوگئی ہو، لہٰذا میں نے اپنی جیب پہ نگاہ ڈالی میں نے تمام رقم سامنے والے پاکٹ میں رکھی اور کُرتے کی دونوں اطراف کی جیبوں کو خالی کرلیا اور کسی مسکین سے بندے کو تلاش کرنے لگا کچھ ہی وقت میں مجھے ایک شخص نظر آیا جسکے چہرے سے ہی میں نے اندازہ لگا لیا کہ وہ شخص بھوکا تھا میں نے سلام دُعا کے بعد اُس شخص سے کھانے کے متعلق معلوم کیا اُس نے اپنا سر اثبات میں ہِلا دیا میں اُس شخص کو اپنے گھر سے کافی دُور ایک ہوٹل پہ لے گیا اور بہترین کھانے کا آرڈر دے دیا اُس نے کھانا آنے کے بعد مجھ سے اصرار کیا کہ میں بھی کھانے میں شریک ہوجاؤں ورنہ وہ بھی کھانا نہیں کھائے گا ناچار مجھے بھی اس کے ساتھ کھانے میں شریک ہونا پڑا کھانے سے فارغ ہونے کے بعد میں نے چائے کا آرڈر دے دیا۔

میں نے ہاتھ دھونے کے بعد کاؤنٹر کا رُخ کیا ہوٹل کے مالک نے گھنٹی بجائی جس پر ویٹر نے حسبِ عادت چِلا کر آواز لگائی صاحب سے اَٹھارہ روپے لینا، میں نے رقم ادا کی اور ہوٹل سے باہر آگیا(اُس وقت اَٹھارہ روپے کوئی معمولی رقم نہیں تھی ایک چھوٹی فیملی کا ایک وقت کا گُزارہ اس رقم میں ہوجاتا تھا ہوٹل پر روٹی کی قیمت غالباً ۵۰ پیسے ہُوا کرتی تھی) میں نے اُس شخص سے مُصافحہ کیا اور اُس سے اجازت لی اسکے بعد دِل ہی دِل میں یوں دُعا کی، اے میرے پروردیگارمیں نے تیری راہ میں جو رقم خرچ کی ہے مجھے دِکھا کہ کسطرح یہ دَس گُنّا رقم میں بدلتی ہے۔

ابھی میں ہوٹل سے نکل کر چند قدم ہی چلا تھا کہ کسی نے مجھے مُخاطب کرتے ہُوئے سلام کیا میں نے متوجہ ہو کر جواب دیا ہی تھا کہ وہ صاحب والہانہ انداز میں مجھ سے بغلگیر ہونے کیلئے بڑھے میں حیرت زدہ تھا کہ اُنہوں نے ازراہِ مہربانی خود ہی اپنا تعارف پیش کردیا یہ میرے ہونے والے سسرال سے تعلق رکھتے تھے جس لڑکی سے میری منگنی ہوچُکی تھی یہ اُسکے چچا زاد بھائی تھے، کہنے لگے اقبال بھائی آج راستہ کیسے بھول گئے؟ ( آجکل شائد اِن باتوں کو معیوب نہیں جانا جاتا لیکن اُس زمانے میں لڑکا سسرال کے گرد پایا جائے اِسے لڑکے والے، اچھا شگون نہیں سمجھتے تھے)۔

بہرحال اب مجھے احساس ہُوا کہ میں علاقہ سُسرال کی حُدود میں آپہنچا ہوں اور اگر کسی رشتہ دار نے مجھے اِنکے ساتھ دیکھ لیا تو میری خیر نہیں!

چُناچہ جان چُھڑانے کیلئے کہہ دِیا ایک اسلامی بھائی کی وجہ سے آیا تھا نماز عشاءَ کا وقت قریب ہے اس لئے اجازت چاہونگا وہ کہنے لگے نماز تو مجھے بھی پڑھنی ہے لیکن ابھی تو اذان بھی نہیں ہُوئی لہٰذا آپ کو میرے ساتھ ایک کپ چائے تو پینی ہی پڑے گی میں سٹپٹا گیا کہاں تو میں اِس علاقے سے نکلنے کے چکر میں تھا اور وہ گھر چلنے کی خواہش کا اظہار فرما رہے تھے میں نے بُہت ٹالنے کی کوشش کی مگر موصوف تو ایسے بضد تھے جیسے قسم کھائے بیٹھے ہوں میری جان یہ سوچ کہ ہلکان ہوئی جارہی تھی کہ کوئی دیکھ نہ لے اگر ابّا جان کو پتا چل گیا تو ٹھیک ٹھاک کلاس لگ جائے کی بہرحال میں اس شرط پر راضی ہوا کہ آپکے گھر والوں کو میرے متعلق معلوم نہیں ہونا چاہیے۔

اُنہوں نے وعدہ کرلیا اور مجھے اپنے ڈرائنگ روم میں لیجا کر بِٹھا کر کہنے لگے بھائی آپ تشریف رکھیں میں چائے لیکر آتا ہوں مجھ پر ایک ایک لمحہ یوں بِیت رہا تھا جسے صدیاں گُزر رہی ہوں اور میرے اوسان تب خطا ہوگئے جب میں نے چند بُزرگ خواتین کو اندر کی جانب سے کمرے میں داخل ہوتے دیکھا، میں بے اختیار سلام کرنے کیلئے کھڑا ہوگیا اور اُن خواتین نے میری بلائیں لینی شروع کردی اِسکے بعد اُنہوں نے پانچ اور دس کے نوٹ نکال نکال کر مجھے پیش کئے جب میں نے رقم لینے سے انکار کیا تو اُن میں سے ایک عمر رسیدہ خاتون کہنے لگی کہ بیٹا ایسا کسطرح ممکن ہے ہمارا ہونے والا داماد ہمارے گھر آئے اور خالی ہاتھ چلا جائے۔

میں نے کہا وہ تو ٹھیک ہے مگر میرے گھر والوں کو اگر علم ہوگیا کہ میں آپ لوگوں کے گھر شادی سے پہلے پُہنچ گیا ہوں تو وہ ناراض ہونگے! وہ خاتون کہنے لگیں ہم کونسا تُمہارے گھر بتانے جارہے ہیں لیکن سلامی کی رقم تو تُمہیں لینی ہی پڑے گی

اس یقین دِہانی کے بعد مجبوراً ہمیں وہ رقم لینی پڑی وہ دس بارہ خواتین تھیں سلامی وصول کرنے کے بعد میں نے واپسی کی اجازت مانگی تو کسی نے کہا کہ لڑکی کی دادی یا نانی آرہی ہیں بس اُن سے مُلاقات کرلو پھر چلے جانا میں نے تمام رقم کو اپنی داہنی جیب میں رکھ لیا کچھ لمحوں بعد ایک بُہت ضعیف خاتون تشریف لائیں میں نے ادب سے اپنے سر کو جُھکایا اُنہوں نے میرے سر پر خُوب شفقت سے ہاتھ پھیرا اور اُس کے بعد ایک نوٹ میری ہتھیلی پر رکھ دیا مجھے بُہت حیا آرہی تھی اس نوٹ کو بے خیالی میں اپنی بائیں جیب میں رکھ لیا اُس کے بعد اجازت پاتے ہی ایسی دوڑ لگائی کہ سیدھا گھر پُہنچ کہ دم لیا۔

نماز عشاءَ کے بعد جب بستر پر سونے کیلئے دراز ہُوا تو سوچنے لگا اللہ کرے کِسی کو میرے سُسرال یاترا کی بھنک نہ پڑجائے ورنہ گھر والے میرے بارے میں کہیں اُلٹا سیدھا نہ سمجھ لیں اور پھر خود کو ملامت کرنے لگا کہ نہ مُشاہدہ کی ہٹ ہوتی نہ ہی سُسرال شادی سے پہلے جانا پڑتا تبھی ایک خیال کے تحت داہنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور نوٹوں کو سیدھا کر کے گننے لگا اب اُنہیں گِنا تو مایوسی ہوئی کیونکہ یہ صرف ایک سو تیس روپے تھے مجھے ایسا لگا تھا کہ شائد کہیں یہاں سے ہی تو رقم دس گُنا نہیں کی گئی لیکن یہاں تو پورے پچاس روپے کم تھے اور اللہ کریم سے دس گُنا کی اُمید تھی میں نے وہ رقم بے دِلی سے فرنٹ پاکٹ میں رکھ لی اور سونے کیلئے لیٹ گیا میں تمام واقعہ کے مُتعلق دوبارہ سوچ میں گُم تھا کہ مُجھے وہ ضعیف خاتون یاد آنے لگیں جو بڑی شفقت سے میرے سر پر ہاتھ پھیر رہیں تھیں اور مجھے ڈھیروں دُعا بھی دے رہی تھیں اور آخر میں مجھے ایک نوٹ اُنہوں نے بھی دیا تھا میں پُر امید ہو کر دُوبارہ اپنے بستر پر بیٹھ گیا اور اپنی بائیں جیب میں نوٹ تلاش کرنے لگا جب میں نے اُس نوٹ کو دیکھا تو فرط مُسرت سے میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے وہ پچاس روپے کا نوٹ تھا اسکا مطلب اللہ کریم نے مجھے ہاتھوں ہاتھ مُشاہدہ کروا دیا تھا جو میں نے مانگا وہ مجھے عطا کردیا گیا تھا میں فوراً سجدہ شُکر بجا لایا اور دوسرے دِن جب میں نے مسجد میں دوران تقریر یہ واقعہ سامعین کو سُنایا تو آپ یقین کریں لوگوں کی عجب جذباتی کیفیت تھی وہ نعرہ تکبیر بُلند کر رہے تھے اور اپنی جیبوں کو اللہ کے گھر کے لئے اُلٹ رہے تھے کسی طرح یہ واقعہ میرے گھر والوں تک بھی پُہنچ گیا لیکن بدلے میں مجھے اُنکی مُسکراہٹیں ملیں اور میں دل ہی دل میں کہہ رہا تھا میرے مالک مجھے معاف فرمانا بیشک تو جسے چاہے دِکھا بھی دیتا ہے۔
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1060003 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More