کب ہوش میں آئیں گے
(Muhammad Shoaib Yar Khan, )
ہم نہ جانے کس خوش فہمی کا شکار ہیں. دنیا
تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہے, ریسرچ اپنے عروج پر ہے دنیا بھر کے
سائنسدان نت نئے تجربات کرکے روزانہ کی بنیاد پر ایجادات کے لئے سر جوڑے
رہتے ہیں کہ کسطرح اپنی عوام کو اور دنیا کو مسائل کے انبار سے نکالا جائے
کیسے روزگار کے نئے مواقع اور پھیلتی بیماریوں کا علاج دریافت کیا
جائے.کسطرح آبی وسائل کو کنٹرول کرکے پانی کے ذخائر کو بڑھائیں. کسطرح
توانائی کے بحران پر قابو پایا جائےاپنے مادنی ذخائر کو کیسے عوام کی فلاح
پر استعمال کیا جائے، محدود ذخائر میں کیسے اضافہ کیا جائے. کسطرح غذا کی
قلت کو دور جرنے کی تدبیر نکالی جائے ، لوگوں کے لباس سے پرواز تک
کیسےسہولیات فراہم کی جائے, کیسے ماحولیات کے مسائل سے نمٹا جائے .کسطرح
نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں تعلیم کا حصول کیسے عام
انسان تک آسانی سے ممکن بنایا جائے.یہ اور نہ جانے ایسے کتنے مسائل ہیں جن
کے حل کے حصول کے لئے سمجھدار قومیں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں ہر ترقی یافتہ
قوم نے اپنی سیاست, تعلیم, معیشت, مذہب اور ترقی کو ایک دوسرے سے جدا رکھا
ہوا ہے تاکہ سب اپنا کام اپنے طریقے سے انجام دیں اور اسی حساب سے نفع
نقصان کا تعین ہو. اسکے برخلاف ہم نہ جانے کس خوش فہمی کا شکار ہیں.ہم نے
سیاست کو عبادت اور عبادت کو سیاست کا درجہ دے رکھا ہے.ہم کروڑوں اربوں
روپے کے قرضدار ہونے کے باوجود بھی نہ جانے کیسے مطمئن گھومتے ہیں.ہمارے
سیاستدان ہوں یا حکمران طبقہ ان کی نظر میں عوام کی اہمیت اور عزت صرف ووٹ
کے حصول تک ہوتی ہے باقی پانچ سال تک آپس کے اختلافات اور جوڑ توڑ میں اپنی
توانائیاں صرف کرنا, ایوانوں میں قانون سازی کا مقصد اپنی اپنی پوزیشنز کو
مضبوط بنانا عوام کے مسائل سے نظریں چرانا اور کچھ نہیں.دنیا چاند پر پہنچ
کر اب وہاں رہائش کے اسباب پیدا کررہی ہے ہم ابھی تک چاند کی تاریخوں میں
الجھے ہوئے ہیں.ہم سوئی سے لیکر جہاز تک انکا دیا استعمال کرتے ہیں،،،،
لیکن دعویدار ہیں مغرب سے نفرت کے،،،، ہم مذہب کے معاملے میں جذباتی
اورجنونی جبکہ عملی طور پر لادین ہوتے جارہے ہیں کونسا ایسا بد فعل ہے جو
ہم نہیں کرتے مگر لفاظیوں میں ہم سے بڑا عالم کوئی نہیں.ہر سال سیلاب کی
تباہ کاریوں پر قصیدے پڑہتے ہیں مگر اسکے اسباب اور بچاؤ کو اگلے سیلاب تک
بھلادیتے ہیں. کئی دہائیاں گزر گئی ہم اب تک کالا باغ ڑیم پر کوئی مصالحت
کر سکے نہ اسکا نعمل بدل پیش کر سکے.ہماری تعلیمی پالیسیاں زوال کا شکار
ہیں ہمارا نوجوان آج بھی اپنے مستقبل کو دیار غیر میں محفوظ تصور کرتا
ہے.ہم جنہیں ووٹ دیکر اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے کے لئےاسمبلیوں تک
پہنچاتے ہیں وہ روزانہ کی بنیاد پربڑھتی ہوئی مہنگائی, بجلی اور گیس کی
طویل لوڈ شیڈنگ سے بے نیاز ہو کر صرف دولت کےحصول کو اپنا اول مقصد بنا
لیتے ہیں آخر کب تک ہم خوش فہمی کا شکار رہیں گے ابھی بھی وقت ہے اگر ابھی
بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو خدانخواستہ ہمارا حال بھی ان قوموں کی طرح نہ ہو
جو خواب غفلت کاشکار ہوکر دشمنوں کا تر نوالہ بن گئیں اور انکے پاس صرف
خواہشات اور بہانوں کا سہارا ہی رہ گیا. |
|