میری نماز

ہم با جماعت نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک میرے ساتھ کھڑے ایک ساتھی کے جیب سے مو بائل فون پر Ringing tone سنائی دینے لگی۔موبائل کی میوزک نے کافی نمازیوں کو اپنی طرف متوجہ کر دیا۔ میں سوچنے لگا کہ آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ لوگ مسجد میں آکر با وضو حالت میں با جماعت نماز کے دوران بھی موسیقی چلانے سے گریز نہیں کرتے۔ کیا یہ مسجد کے درو دیوار سے موسیقی کی گونج پیداکرنے والے اپنے موبائل بند کرنا بھول جاتے ہیں۔ ان سوالات نے نماز کے دوران ہی میرے دماغ میں خیالات کا ایک طویل سلسلہ شروع کر دیا۔ایسا کیسے ممکن ہے کہ کوئی نماز شروع کرنے سے پہلے اپنا موبائل بند کرنا یا اسے Silentپہ کرنا بھول جائے جبکہ مسجد کے دروازوں اور کئی جگہوں پہ یہ فقرہ لکھا نظر آتا ہے کہ موبائل بند کر دیں۔اور پھرامام صاحب نمازشروع کرتے ہی موبائل فون بند کرنے کی تاکید کرتے ہیں نماز کے لیے جاتے ہی راستے میں مو بائل بند کیاجا سکتا ہے۔اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ لوگ بند کرنا بھول جاتے ہیں تو پھر یہ بھول نماز کے سلسلے میں ہی کیوں ہوتی ہے۔یہ بھول دنیا کے کسی اورشعبے میں کیوں نہیں ہوتی۔دنیا کے معاملات میں ہم اتنے محتاط ہیں کہ اپنا ایک رو پیہ بھی ضائع نہیں ہونے دیتے ہیں۔مجھے نماز کی ادائیگی کے دوران وہ ریڑھی والے بھی یاد آگئے جو بڑی احتیاط سے اور مہارت سے اپنے خراب فروٹ کو گاہک کی آنکھوں سے چھپا کر شاپنگ بیگ میں ڈال دیتے ہیں ۔سارا دن ایک فروٹ بیچنے والا داغ والے فروٹ کو اس طرح سجاتا رہتا ہے کہ داغ کا نشان چھپ جاتا ہے۔ اسی طرح ہر شخص اپنے کاروبار کو اتنی ہوشیاری سے ترتیب دیتا ہے کہ نقصان کا خدشہ نہ ہو۔لیکن مسجد میں اکثریت کو بھولنے کی بیماری کیوں لگ جاتی ہے؟۔ہم مسجد میں دورانِ نماز موبائل پرموسیقی بجانے کے عادی مجرم بنتے جا رہے ہیں۔تقریباً ہرنماز میں کسی نہ کسی طرف سے موسیقی کی آواز ضرور سنائی دیتی ہے۔مجھے جج صاحبان،ڈاکٹرز اور مختلف اداروں کے سربراہ بھی یاد آئے جن کے سامنے موبائل فون بڑے ادب سے خاموش رہتے ہیں۔موبائل کی کیا مجال کہ یہ کسی دفتر،عدالت یا کسی سرکاری ادارے میں ذرا سی چوں چراں بھی کرے۔ یہ موبائل اتنے بے ادب ہیں کہ مالک حقیقی،مختارِ کل،تمام کائنات کے منتظم اعلٰی،ہر جاندار کو زندگی یا موت بخشنے والی طاقت اور ہر چیز پہ قادر ذات کے سامنے برملا اعلانِ بغاوت کرتے ہیں۔جی ہاں ہم باغی ہیں یہ ہماری بھول مسجد میں اپنے خالق حقیقی کے سامنے سر بسجود ہوتے ہی ہوتی ہے اور باقی نفع ونقصان کے معاملات میں ہم بڑے ہوشیار اور محتاط ہیں۔یہ کیسا امتزاج ہے کہ آگے امام صاحب کی قرات ہو رہی ہوتی ہے اور صفوں میں سے اچانک موسیقی کے کئی سر سنائی دیتے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری نمازیں حقیقی روح سے قاصرہیں۔ہم باوضو ہو کر باجماعت کھڑے ہو کر بھی شاید نماز کی اصل فضیلت سے محروم ہوتے ہیں۔ہم اوپر نیچے ہو کر اور نماز کے کلمات سے ادائیگی کو ہی کافی سمجھتے ہیں۔اس میں خشوع وخضوع نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ہمارے سجدے ایسے ہیں جیسے کہ ہمارے ذمے کوئی قرض ہواور جسے ہم بادل نخواستہ اتارتے ہیں۔دھیان کہیں اورہوتاہے اور ہم ایک رو ٹین ورک کی طرح صفوں میں کھڑے ہو کر ایک عمل کر لیتے ہیں اور ہمیں پتہ ہی نہیں کہ ہم رکوع وسجود کیوں کرتے ہیں۔آخر اس نماز کا کیا مقصد ہے جسے ہم ایک فارمیلٹی سمجھ کرادا کرتے ہیں۔یہ نماز کی اصلی صورت نہیں ،بلکہ یہ ایک روٹین ورک ہے جو ایک عادت کی طرح ہم سرانجام دے رہے ہیں۔مسجد میں آتے ہیں،نیّت کر کے امام کے پیچھے اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں مگر دماغ کہیں اور ہوتا ہے،کچھ اور پلاننگ کر رہے ہوتے ہیں،بعض اوقات پتہ بھی نہیں ہوتا کہ کونسا رکن اداکر رہے ہیں۔یہی وہ نماز ہے جس کے بارے میں حدیث شریف میں آیا ہے کہ نمازی کے سر سے ایک بالشت برابر بھی پیش ہونے کے لیے اوپر نہیں جاتی بلکہ نمازی کے منہ پہ مار دی جاتی ہے۔اسی نمازکے بارے میں اقبال نے فرمایا تھا کہ
جو میں سر بسجدہ ہواکبھی توزمیں سے آنے لگی صدا تراا دل توہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں
۔ایسی نماز، نماز کی توہین ہے۔ وہ ذات جس نے ہمیں اس کی تاکید فرمائی ہے،وہ ہمای نماز کی محتاج تو نہیں بلکہ ہمیں اس کی ضرورت ہے او راس کی صحیح ادائیگی میں ہی ہمارے لیے بے شمار فوائد مضمر ہیں۔ ایک روایت کے مطابق اﷲ تعالٰٰی نے اس شخص کی بخشش کی ذمہ داری لی ہے جو پانچ وقت اپنی نماز پورے اہتمام اورخشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرتا ہے اور جس نے نماز کی ادائیگی میں غفلت برتی اس کے لیے اﷲ کی طرف سے کوئی ضمانت نہیں کہ اس کی مغفرت ہو گی۔پانچوں نمازوں کی خشوع وخضوع کے ساتھ ادائیگی بندے اور رب کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔نماز کی درست ادائیگی بندے اور خالق کے درمیان ایک رشتہ ہے جس میں بندہ اپنی بندگی،عاجزی،فرمانبرداری اور محتاجی کا اعتراف کرتے ہوئے رب کی کبریائی کا اقرار کرتا ہے۔ یہ اپنے گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہے۔جوحضرات نماز کو ظاہری رسم سمجھ کر اور نا قابل فہم انداز سے ادا کرتے ہیں وہ اس کی اصلیت سے نا آشنا ہیں۔ یہ صرف جسم اور اعضاء کی حرکت یازبان سے چند کلمات ادا کرنے کا نام نہیں بلکہ دل و روح دونوں خا لقِ حقیقی کے سامنے جھکانے کا نام ہے۔نماز ہی تو دنیا میں اپنے پروردگار سے ملاقات کا ایک ذریعہ ہے،جس میں ہم مسلسل ذاتِ باری تعالٰی کے دربار میں آکربھی لاپرواہی کرتے ہیں۔

حضرت مجدّد الف ثانی شیخ سرہندی لکھتے ہیں کہ دنیا میں نماز کا درجہ وہی ہے جو آخرت میں دیدارِالٰہی کا ہے۔ اس دنیا میں بندہ کو اﷲ تعالٰی کا قرب نماز ہی میں حاصل ہوتا ہے اورآخرت میں انتہاہی قربت دیدارکے وقت نصیب ہو گی۔ نماز اسلام کا بہت ہی اہم رکن اور اپنے رب سے تعلق جوڑنے کا وسیلہ ہے۔ نماز کو آپﷺ نے جنت میں جانے کی ضمانت اور اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا ہے۔ یہ اسلام کا وہ اہم فریضہ ہے جو کسی حالت میں معاف نہیں۔گرمی ہو یا سردی،حالتِ جنگ ہو یا امن،تندرستی ہو یا بیماری ، صورتِ قیام ہو یا سفر، ہر حال میں یہ فرض ادا کرنا پڑتا ہے۔حضرت نبی کریم ﷺ کی امت کو آخری وصیت یہی تھی کہ مسلمانوں! نماز اور اپنے غلاموں کا ہمیشہ خیال کرنا۔فریضۂ نماز جس قدر اہم ہے، اس کا طریقہء ادائیگی بھی بہت اہم ہے۔اس کی تاکید میں صرف یہی شامل نہیں کہ اسے اداکروبلکہ رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہے کہــــ اس طرح ادا کرو جس طرح مجھے ادا کرتے دیکھتے ہو۔(بخاری شریف) ۔نماز تو برائی سے بھی روکتی ہے،مگر یہ کیسی نماز ہے جوہمیں مسجد میں لا کر باجماعت کھڑا کر کے موسیقی اور ترانے بجانے سے نہیں روک سکتی۔ ہم نہ صرف اپنی نماز مردہ کر رہے ہیں بلکہ دوسروں کی نمازوں پہ بھی اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں ،کیونکہ ایک موبائل کی گھنٹی کئی نمازیوں کی توجہ اپنی طرف کر دیتی ہے۔آخر کسی کے خشوع و خضوع کو ہم ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔نمازکے دوران ہی میرے خیالات کے اس بھنور میں غوروفکر کی ایک اور لہر اٹھی ۔دفعتََامجھے ایک اور خیال آیا کہ کافی حد تک یہ بھی ممکن ہے کہ نماز میں موسیقی بجانے والے نماز کا اصل طریقہ نہیں جانتے اور اسے دیکھا دیکھی ہی ادا کرتے ہیں۔کتنا ہی اچھا ہو کہ یہ لوگ صحیح طرح نماز سیکھ لیں۔ ان کی نماز میں کئی اورخامیاں بھی تو ہو سکتی ہیں رکوع و سجود میں بھی کچھ بے ضابطگی ممکن ہے جن کی اصلاح کی ضرورت ہے۔اس صورت میں بھی تو یہ خود ذمہ دار ہیں۔ہمارے پاس امورِدنیا سیکھنے کے لیے بہت وقت بلکہ ساری زندگی ہے اور نماز کی درستگی کے لیے کوئی ٹائیم نہیں۔ جہالت کسی گناہ یا قصور سے معافی کا بہانہ نہیں ہو سکتی کیونکہ جاہل ہونا بھی ایک جرمِ سنگین ہے۔جس سے نہ صرف اپنی ذات کے لیے مہلک اثرات پیدا ہوتے ہیں بلکہ اس کی آگ پورے معاشرے کو جلاتی ہے اور معصوم لوگ بھی اس کی لپیٹ میں آتے ہیں ۔ لا علمی کا جواز جرم کی ذمہ داری سے راۂ فرار اختیار کرنے کے مترادف ہے۔انہی خیالات کے عالم میں مجھے ایک اور حدیث شریف یاد آئی کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ مساجد میں گانے بجانے کے آلات لے کر آیا کریں گے۔آج یہ پیشن گوئی درست ثابت ہو گئی ہے۔لیکن یہ حدیث موبائل میوزک کا دفاع ہر گز نہیں کرتی اور اسے جواز بنا کر مسجدوں میں گانے بجانے کو تحفظ فراہم نہیں کیا جا سکتا۔پیارے نبی نے یہ ہر گز نہیں فرمایا تھا کہ لوگوں کو چاہیے کہ وہ گانے بجانے کے آلات لے کر آئیں اور دورانِ نمازموسیقی کی دھن بجائیں۔غور و فکر کے اس عالم میں مجھے ابو جہل کی نسلوں کا تذکرہ بھی یاد آگیا جب میں نے کہیں پڑھا تھا کہ کفاراور مشرکینِ مکہ مساجد کے باہر نمازکے اوقات میں شوروغل اور اودھم مچایا کرتے تھے۔آج ہم انجانے میں کہیں ان سے بھی آگے نہ نکل جائیں اور شاید ہمارا کردار کہیں بدتر نہ ہو جائے ،کیونکہ وہ مساجد کے باہر یہ کام کرتے تھے اور ہم مساجد کے اندر صفوں میں گھس کر یہ کام کرتے ہیں۔یہ تمام خیالات جو میں نے قلمبند کیے ہیں،یہ نماز کے دوران ہی میری سوچوں کے دریچوں پہ دستک دیتے رہے ہیں ۔یہ نماز کی حالت میں میری Stream of consciousness تھی جس کو میں نے الفاظ کا لبادہ پہنا دیا۔یہ تسلسل اس وقت ٹوٹا جب امام صاحب نے پہلے دائیں اور پھر بائیں جانب السّلام علیکم و رحمتہ اﷲ کہا۔یہ سب خیالات موبائل میوزک سے پیدا ہوئے۔بظاہر تو نماز میں نے مکمل کر لی ہے لیکن اس کی مقبولیت اور فضیلت میں شاید ابھی بہت کمی ہے،جس کا ذمہ دار میرے علاوہ،میرے ساتھ کھڑا دوسرا نمازی بھی ہے۔
Sajid Mehmood
About the Author: Sajid Mehmood Read More Articles by Sajid Mehmood: 2 Articles with 2071 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.