کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ اور پنجاب حکومت

صارفین کے حقوق کی بات سب سے پہلے آج سے پچاس سال پہلے امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے امریکی کانگریس میں کی تھی۔ اس وقت صارفین کوچار بنیادی حقوق دیے گئے تھے جس میں بعد ازاں ایک غیر سرکاری تنظیم کنزیومرز انٹرنیشنل نے مزید چار نکات کا اضافہ کیا۔کنزیومرز انٹرنیشنل کی کوششوں کے باعث صارفین کے حقوق کو بنیادی حقوق کا درجہ حاصل چکاہے ۔امریکہ اور برطانیہ میں کارپوریٹ سٹورز کی خریداری رسید کی پشت پر سامان کی واپسی کی مکمل پالیسی چھپی ہوتی ہے اورصارفین کو حق حاصل ہے کہ تیس روز کے اندر خریدی ہوئی چیز و اپس لٹاسکتے ہیں اور اس کے لئے کسی واضح نقص کا ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔ وہ اشیاء جو جلد خراب ہوتی ہیں مثلاً تازہ سبزی پھل وغیرہ ان کی واپسی کے لئے بھی وقت دیا جاتا ہے ۔بعض اوقات لوگ کپڑے جوتے وغیرہ کئی کئی روز استعمال کرنے کے بعد بھی واپس کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں دیکھا گیا ہے کہ ہم دکاندار سے قیمتوں یا اشیاء کے معیار پر تکرار کرتے ہیں، الجھتے ہیں، لیکن اِسی قیمت اور اِسی معیار کی چیز لے کرچلے جاتے ہیں۔

صارف کے حقوق دراصل آٹھ چیزوں کا مجموعہ ہیں، جس میں اطمینان، حفاظت، انتخاب، معلومات، صحت مند ماحول اور شکایت کی صورت میں شنوائی اور ازالے کا حق شامل ہے۔پاکستان میں اس حوالے سے حالات مخدوش ہیں یہاں صارف اپنے حقوق سے عمومی طور پر ناآشنا ہے۔ روزانہ خریداری کے لیے بازاروں کا رخ کرنے والے کروڑوں صارفین کا قدم قدم پر استحصال ہوتا ہے لیکن لاعلمی کی وجہ سے وہ خاموش رہتے ہیں۔ ملک میں صارفین کے تحفظ کے لیے کنٹریکٹ ایکٹ، سیلز اینڈ گڈز ایکٹ سمیت دیگر قوانین موجود تو ہیں لیکن بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظران میں ایک طرف ترمیم کی اشد ضرورت ہے تو دوسری جانب عملدرآمد کی۔پاکستان کے آئین کے تحت صارفین کے حقوق کا تحفظ کرنا صوبائی حکومتوں کا کام ہے۔پاکستان میں صارفین کے حقوق کے لیے قانون انیس سو پچانوے میں متعارف کروایا گیا تھا۔ تاہم اس وقت اس پر بیوروکریسی کی جانب سے یہ اعتراض کیا گیا کہ وفاقی حکومت صوبائی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے۔ جس کے باعث حکومت نے اسے اسلام آباد اور وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں میں نافذ کردیا اور تمام صوبوں کو اس کا مسودہ بھیج دیا تھا۔اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ صرف پنجاب ایسا صوبہ ہے جہاں صارفین کے تحفظ کا قانون موجود ہے۔ اس کے برعکس بلوچستان میں قانون تو موجود ہے تاہم اس پر بالکل بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔ جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا میں اب تک صرف دس اضلاع میں اس کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا ہے جس میں سے صرف چھ اضلاع میں اس پر عمل درآمد شروع ہو سکا ہے۔سب سے زیادہ دگرگوں صورتِ حال سندھ میں ہے جہاں اب تک اس سلسلے میں تین مرتبہ آرڈینینس تو جاری ہوا ہے مگر اسے قانون نہیں بنایا گیا اور یوں تینوں مرتبہ یہ ختم ہوگیا۔

صوبہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ محمد شہباز شریف کی خصوصی ہدایت پر صارفین کے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لئے اور غیر معیاری ، ناقص اشیائے خوردو نوش و دیگر غیر معیاری ، ناقص مصنوعات اور غیر معیاری خدمات یا سروسز کے متعلق شکایات کے ازالہ کے لئے کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ 2005 نا فذ کیا جا چکا ہے۔خادم اعلیٰ پنجاب کی ہدایت پرحکومت کی جانب سے صارفین کے حقوق و مفادات کے تحفظ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ناقص اشیائے خوردو نوش و دیگر ناقص مصنوعات اور غیر معیاری خدمات یا سروسز کے متعلق شکایات کے ازالہ کے لئے کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ کے تحت پنجاب کے گیارہ اضلاع میں کنزیومر کورٹس بھی قائم کی جا چکی ہیں۔خادم اعلیٰ کی ذاتی دلچسپی کے باعث صوبہ کے عوام کو اب یہ حق حاصل ہے کہ اگر کوئی غیر معیاری اشیائے خوردونوش اوردیگر ناقص مصنوعات مثلاً غیر معیاری مشروبات ، ادویات ، ٹیکسٹائل، ہوزری، الیکٹرانک مصنوعات اورکاسمیٹکس وغیرہ سے پریشان ہے تو کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ اسے تحفظ فراہم کرتا ہے۔اگر مینو فیکچرر خطرناک مصنوعات حفاظتی اقدامات واضح کئے بغیر تیار کر رہا ہو یا جس سے صارف کو نقصان کا اندیشہ ہو تو اس کے خلاف کنزیومر کورٹ میں درخواست دی جا سکتی ہے۔ صارف کو شکایت ہو کہ پیک شدہ اشیا واضح قیمت یا اندرونی جزئیات ظاہر کئے بغیر تیار کی جا رہی ہیں یا ظاہر کردہ جزئیات سے چیز مطابقت نہیں رکھتی تو بھی صارف کنزیومر کورٹ کے دروازے پر دستک دے سکتا ہے۔ مینو فیکچرر یا تاجر ایسی چیز تیار یا فروخت کر رہا ہو جس پر چیز کی تاریخ تیاری اور تنسیخ کی تاریخ درج نہ ہو تو بھی کنزیومر کورٹ سے مدد طلب کی جا سکتی ہے۔ صارف کو خرید کردہ مصنوعات پر فراہم کردہ وارنٹی سے متعلق کوئی شکایت ہو، تاجر یا دوکاندار صارف کو خریداری کی رسید دینے سے انکار کرے،رسید پرمتعلقہ چیز کی ساخت ، مقدار ، وزن ، قیمت ، تاریخ اور بیچنے والے دوکاندار کے نام اور پتہ کا ذکر نہ کیا گیا ہو،مصنوعات کی ریٹ لسٹ اپنے بزنس پوائنٹ پر واضح آویزاں نہ کرتا ہو تو بھی کنزیومر کورٹ مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ اگرمینو فیکچررز تاجر یا سروس دہندہ جھوٹ ، فریب، دھوکہ دہی اور غلط بیانی سے مصنوعات خریدنے کی ترغیب دینے کے لئے اشتہار بازی کر رہا ہو تو ایسے میں بھی کنزیومر کورٹ صارف کو مکمل انصاف فراہم کرتی ہے۔شکایت کی صورت میں صارفین کنزیومر پروٹیکشن کونسل کے نام بمعہ حلفیہ بیان بغیر کسی کورٹ فیس اور وکیل کے درخواست دے سکتے ہیں۔اگر صارف اپنے کیس کو عدالت لے جانا چاہتا ہو تومتعلقہ ادارے کو 14 دن کا نوٹس دینے کے بعد کنزیومر کورٹ کے دروازے پر دستک دی جا سکتی ہے۔حکومت کے عوام کے لئے کئے جانے والے منصوبوں کی تعریف ضرور ہونی چاہئے مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ اس میں کاسہ لیس کا عنصر شامل نہ ہو پائے۔ مسائل کے حل کے لئے کی جانے والی تعریف سے جہاں کسی سوسائٹی کا معیار زندگی بلند ہوتا ہے وہاں حکومتی اداروں کو بھی مزید پنپنے اور مستحکم ہونے کے مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔پنجاب حکومت کے صارفین کے حقوق کے تحفظ کیلئے کئے گئے اقدامات بلا شبہ لائق تحسین ہیں ۔پنجاب حکومت صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لئے تمام ضروری اقدامات کر رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ صارف کو بھی اپنے حقوق و فرائض سے شناسائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک صارف باشعور نہیں ہو گا وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خلاف موثر طریقے سے آواز بلند نہیں کر سکے گا۔
Faisal Javed
About the Author: Faisal Javed Read More Articles by Faisal Javed: 23 Articles with 17309 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.