کیا کبھی آپ نے سجے سجائے اور ذائقہ دار
چکن کڑاہی پر نمک مرچ چھڑکنے کی کوشش کی ہے؟یقینا نہیں۔ کبھی ڈیزائنر سے
سوٹ لے کر اس پر خود پھول بوٹے بنانے کا سوچا آپ نے؟ یا کبھی ایک مکمل
کہانی ، ناول یا کتاب پر اضافی پرچی لگا کر اسے مزید پرکشش بنانے کا خیال
ذہن میں آیا؟ آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ یہ کیا بے وقوفانہ سوال لے کر بیٹھ
گئی ہوں ۔ مگر یہ تمہید باندھنا ضروری تھی۔ باور یہ کروانا چاہتی ہوں کہ ہم
کبھی بھی مکمل چیز جسے انسان نے بنایا ہو اس میں ردو بدل کا نہیں سوچتے مگر
ہماری مجال دیکھئے کہ ہم وہ شے جسے رب کائنات اپنے محبوب ﷺ لے لئے پسند
فرما کر قرآن میں تصدیق کرتا ہے کہ ’’یہ مکمل اور کامل دین ہے‘‘ ہم اس مکمل
اور کامل دین پر اضافی نوٹ چسپاں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جی با لکل!
میرا اشارہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اک صوبے میں پاس ہونے والے حقوق
نسواں بل کی طرف ہی ہے۔ اس بل کے منظور ہونے سے قبل ایک دفعہ ’’509‘‘ بھی
اسلامی ریاست کی دفعات میں شامل کی گئی جس میں عورتوں کی حرمت اور تحفظ کے
قانون واضح کیے گئے تھے۔ مگر میرا سوال یہ ہے کہ اک ریاست جس کا مذہب
حقیقتاََ جمہوری اقدار کا بانی ہو اور اس مذہب نے عورتوں کو اول دن سے
معاشرے کے ہر ہر پہلوں میں نمایاں مقام بخشا ہو اس ریاست میں عورتوں کے
حقوق ااور ان کی حفاظت کے لئے ایسے بل لانے کی کیا تُک؟ دو ہی باتیں ممکنات
میں سے ہیں۔ یا تو یہ ریاست اسلامی نہیں یا منتخب کردہ نمائندگان اسلامی
نہیں۔ یہ موضوع بہت پہلے زیر بحث لانا چاہ رہی تھی مگر اس بل پر اپنے کسی
رد عمل سے پہلے کچھ مولوی حضرات اور چند اسلامی تحاریک کے رہنماؤں کے اس بل
پر ردعمل کی منتظر تھی۔ چند ہی گھنٹوں میں میرا انتظار بر آیا۔ اور ایک
صاحب نے فوراََ پنجاب اسمبلی کو زن مرید کا ایوارڈ دیتے ہوئے حقوق شوہراں
کی تحریک چلانے کا فیصلہ کردیا۔ اسلام کے اس مولانا سے مجھے امید تو یہ تھی
کہ وہ کہیں گے یہ بل اسلامی اقدار سے متصادم ہے اور ہم اسے مسترد کرتے ہیں
مگر میری اس امید کو چار چاند ایک دن بعد بخشے گئے مگر وہ اسے مکمل مسترد
کرنے کی بجائے حقوق شوہراں بل کے قیام پر بضد رہے یہ بل کس اسمبلی نے پاس
کیا یہ بحث صرف وقت کا ضیاع ہے۔ مگر جس طرح ہمارے میڈیا اور معاشرے کے
افراد نے اس بل پر ردعمل ظاہر کیا وہ ورطہء حیرت میں ڈالنے کو بہت کافی تھا
اس بل کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کا جواب بہت سے سیاسی رہنما ، مولوی حضرات
، مذہبی سکالراورمختلف سماجی شخصیات اپنے تئیں دے چکے مگر حیرت کی معراج یہ
تھی کہ ان میں سے کوئی بھی اصل حقیقت کو بیاں کرنے کی جسارت نہ کر سکا۔
شکایات تو مجھے ان اینکرز حضرات سے بھی ہے جو فقط اس بل کی ضرورت اور اس کے
فوائد و ثمرات پر گفت و شنید کرتے رہے ان کا اک سوال یہ بھی ہونا چاہیے تھا
کہ ’’جس ملک میں قریباََ نصف بچے اسلامی ممالک میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور
واضح رہے کہ اسلامی مدارس میں تعلیم کا مقصد اسلام کی ہر ہر گہرائی سے
روشنائی ہے ان مدارس میں اﷲ کی کتا ب اور اس کے رسول ﷺکی سنت و سیرت پڑھائی
جاتی ہے تو کیوں ہمارے معاشرے میں عورتوں کے ساتھ اتنی بد سلوکی برتی جاتی
ہے؟ کیوں عورتیں معاشرے میں حسد و جلن اور دشمنی کی بھینٹ چڑھتی ہیں؟ کیوں
عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کرنا عام ہے؟ اور پھر اس سب پر شعور کی بجائے
یہ حقوق نسواں بل؟ چلیں مان لیا کہ یہ وقت کی ضرورت تھامگر اس با ت کی کیا
گارنٹی کہ جن لوگوں نے خدا اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کو پس پشت ڈال دیاان کے
لیے یہ بل کیا اہمیت رکھتا ہے؟ بقول شاعرـ:
ہم تو وہ ہیں جو خدا کو بھول گئے
تم میری جان کس گمان میں ہو
ہمارے حکمران کیا امید لگائے بیٹھے ہیں کہ جس قوم نے عورتوں کے معاملے میں
اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم پس پشت ڈال دیا، جن لوگوں کو نہ جنت کی گل
یاشیاں نہ مرغوب کر پائیں نہ دوزخ کی تباہیاں اب وہ تھانے کی پھینٹیوں سے
ڈریں گے ؟ ہرگز نہیں ۔۔۔۔۔
میں یہ نہیں کہتی اس ملک میں یہ مسائل موجو د نہیں ہیں مگر ہم جو حل نکال
رہے ہیں وہ بھی ان کا حل نہیں ہے۔ نجانے کیوں مگر ہم کسی معاملے کی تہہ تک
پہنچنا ہیں نہیں چاہتے ؟ ہم کیوں نہیں مانتے کہ ہمیں ایسے بلوں کی نہیں
بلکہ شعور کی ضرورت ہے۔
ہم کیوں بحیثیت مسلم سیرت رسول ﷺ کو اپنا شیوہ نہیں بناتے؟ صحاح ستہ کی
کتابو ں میں لکھا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالی عنھا حضور اکرم ﷺ سے ناراض
بھی ہوا کرتی تھیں اور کائنات کے تاجدار محبوب رب کائنات ﷺ اپنی زوجہ کو
بہت دلجمعی سے منایا کرتے تھے ۔ مولوی حضرات کیوں اس لاعلم عوام کو نہیں
بتاتے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا’’ بیوی کے منہ میں اپنے ہاتھ سے نوالہ بھی
ڈالوتو یہ نیکی ہے‘‘۔ ہمار ے مولوی حضرات اور مذہبی جماعتوں کے سربراہ شاید
اسی کو زن مریدی کہتے ہیں ۔ اب اس کا قصور میڈیا، انڈین ڈراموں اور فلموں
پر تھوپنے کی بجائے اپنے گریبانوں میں جھانکئے۔ ذرا سوچئے کہ ہم میں سے
کتنے والدین اپنی بیٹیوں کو سکھاتے ہیں کہ شوہر کو بادشاہ بناؤ گی تو رانی
کہلاؤ گی اور اگر غلام بناؤ گی تو تمہیں غلام کی بیوی ہی کہا جائے گا ۔ صد
افسوس! حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ذاتی تعصبات اور برتریوں کے چکر میں اسلام کا
چہرہ مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔
خدارا! اس قو م کو ’’بل ‘‘ اور ’’بلوں‘‘ سے مت نوازو ہوسکے تو ’’شعور ‘‘ دے
دو تھوڑا سا۔
|