سیری نالا بان سے لیا گیا اقتباس

یہ اوٹے یہ ترپے یہ گلیاں یہ رہگزار کچھ تو پیغام دیتے ہیں. کچے مکان میں کے صحن میں یوں گهوم رہے تھے ماضی تلاش کر رہے ہیں

سیری نالا بان

یہ اوٹے یہ ترپے یہ گلیاں یہ رہگزار کچھ تو پیغام دیتے ہیں.

کچے آنگن میں گھوم پھیر کر شاید ماضی کو واپس لانا چاہتے تھے.

لبوں پر سدا مسکراہٹ رکھنے والے اہل محلہ اور اہل خانہ کو صدیوں کے لیے آہیں اور ہوکے سونپ گے.

براون تھری پیس میں ملبوس ہینڈ سم سب کی نظروں کا محور بنا ہوا تھا.

پوچھنے لگے کیا وہاں گھوڑے دوڑتے ہیں.

دائیں ہاتھ سے سینے کو سہلاتے ہوئے گویا ہوئے.

شریک سفر زندگی کے اس موڑ پر تنہا چھوڑ گئی جہاں اللہ کے بعد اسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے.

قانون دان بیٹا جدائی کا ایسا نشتر چبھو گیا کہ. ... !

مشرق و مغرب سے بلند و بالا پہاڑوں کے دامن میں دلہن کی طرح گھونگھٹ کیے وادی یوں تو سیری ہی کہلاتی ہے لیکن پرت پٹوار میں اور دلسوز شعراء کی زبان میں اسے وادی بناہ بھی کہتے ہیں شمالاً جنوباً ہتھلی کی طرح ہموار چھوٹی چھوٹی ندیاں بان سے یوُں آ کر ملتی ہیں جیسے صدیوں بعد اولاد ماں سے آ ملتی ہو بان ان سب کو اپنے ساتھ لپٹائے کوسوں کا سفر کرتے ہوئے دریا پونچھ سے مل جاتی ہے جیسے برسوں کی گمشدہ بدیع الجمال شاہ بہرام سے مل جاتی ہے.

سیری کا بازار، بازار سے ملحقہ محلہ محلے میں گھوم پھیر کر آپس میں ملنے والی گلیاں نہ جانے نئی پود کو اخوت کا کیا درس دیتی ہیں . یہ گلیاں یہ اوٹے ترپے ہزاروں داستان اپنے اندر رکھتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس سیری میں کبھی کوئی جٹ گجر کشمیری راجہ نائی میانہ نہیں تھا سب ایک آدم کی اولاد تھے سب ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے سانجھی تھے سب کے دکھ سانجھے تھے بڑوں کی عزت وادی کا طرہ امتیاز تھا میاں عبدل جی کی عزت ابراہیم جٹ اور راج درزی بھی اتنی کرتے تھے جتنی ان کے بیٹے نذیر اور پذیر کرتے تھے جیلت، مطلوب، ندیم، اسد کا قتل اور مالک درزی کے بیٹے کا ٹریکٹر نیچے آ کر مر جانا نہ صرف ایک ایک گھر کی موت تھی بلکہ پورے محلے کے لیے ہی ماتم تھا . محمود کا وکیل، رزاق کا جج، مسعود کا انجنیئر، وقار کا پی ار او، مشرف کا ماسٹر، مسعود کا ڈاکٹر، ذوالفقار شیخ کا تھانیدار،ملک شفیق کا لیبارٹری اسسٹنٹ؛ اسلم بٹ، فرید کھوکھر کے بچوں کا حفظ قرآن ہونا اور رضیہ باجی کا ہیڈ مسٹریس بننا نہ صرف متعلقہ گھروں کی خوشی کا موجب تھا بلکہ یہ سب پورے محلے کے لیے باعث عزت و توقیر تھے. پورے محلے کے دکھ سکھ ایک تھے بچیاں بڑوں کے اگے یوں سر رکھتی جیسے کوئی اپنے باپ دادا کے آگے سر رکھ رہی ہو بڑے بھی دست شفقت پھیرتے ہوئے احساس دلاتے کہ واقعی وہ بڑے ہیں بچے محلے بھر کی عورتوں مردوں کو ایک رشتے اور تعلق کا نام دے کر بلاتے کوئی تنہائی میں بھی ماں سے شکایت کرتے ہوئے کسی بڑے کا نام لیتا تو ماں شکایت سننے سے پہلے شکوہ کرتی ہوئی کہتی، بری بات ہے بڑوں کا نام نہیں لیتے بیٹا.

ماسی سید بیگماں، مانواں شفیع، پوا دھپری والی، نانا دھپری والے، بو فتح بیگماں، ماسی بسنتا، پہاوی عاشاں، مانواں بیرو، ماسی دانا، ماسی شاہو، ماسی مکھنی، پہاپا مہندی، پہاپا جیج، باپو راجو پہاپو فیجا، بو کلالاں والی، بوھوہ گلو، بوھوہ بالو، بوھوہ جنفر، بوھوہ انور، ماسی اشور(اشرف)، چاچی بجئیر، چاچی عاشاں، ماسی جیرو، ماسی بی او، ماسی مندبی، پہاوی شیدا پہاوی کیجی بوی رضیہ بوی عظمت سب ہی تو ایک رشتے سے بلائے اور بلائی جاتی تھیں. کہیں بھی ماسی جٹی پوا کشمیرن بوا درزائن نہیں کہا جاتا تھا سب رشتے تھے اور لوگ رشتے نبھاتے تھے . یہ کوئی رشتہ ہی تھا جب دھپری والی نیلم میرپور جانے لگی تو قاضیوں کی ثنا بلک بلک کر روتے ہوئے کہنے لگی تم کیوں جا رہی ہو کیا ہمارا ایک ساتھ بیتا بچپن تمہیں رولائے گا نہیں. یہ کوئی تعلق ہی تھا کہ جب بی بی سفید سرحدی کشیدگی کے باعث سیری چھوڑ کر جانے لگیں تو پھاٹے والی شاباں ماسی جی کہتے ہوئے قدموں سے لیپٹ گئی اور بچوں کی طرح بلکتے ہوئے کہنے لگی ہم سب جہاں بھی جائیں گے ایک ساتھ جائیں گے نہیں تو یہی ایک ساتھ رہیں گے گولے پڑتے ہیں تو پڑتے رہیں ہم موت سے پہلے بچھڑیں گے نہیں یہ گلیاں بھی تو آخر اسی سیری کی ہیں ناں اسی لئے تو گھوم پھیر کر آ گلے ملتی ہیں.

ماسٹر فیض محمد جی کے گھر سے بازار کی طرف آئیں تو پہلا گھر جو ہے نا وہ گرداور عبداللہ جی کا ہے . بہت پرانے وقتوں کے پٹواری پھر گرداور ہوئے یہ ان وقتوں کی بات ہے جب رشوت کو حرام سمجھا جاتا تھا تبھی تو رشوت کے جرم میں تحصیلدار جی نے سب پٹواری گرداور اور ہرکاروں کو بلا کر سرزنش کی تھی . گرداور عبداللہ جی کو عبداللہ کہتے ہوئے کسی کو نہیں سنا جس سے بھی سنا بابی ہی سنا اس کا کیا مطلب تھا کسی بھی لغت اللبیان سے اخذ نہ کر سکا تمام محلے دار مرد عورت چھوٹے بڑے آپ کو بابی ہی کہتے تھے گھر کے سارے افراد بھی بابی کہتے تھے. یہ کہاں سے سیری آئے یا ممکن ہے سیری کے ہی مقامی ہوں لیکن ان سب کی بولی سیری والوں سے جدا تھی راجپوت فیملی کا ایک ہی گھر سیری میں تھا اور وہ تھا بابی جی کا. بہت عرصہ سے پڑوسی ہونے کا شرف حاصل رہا لیکن دس گیارہ سال پہلے تک ہم ان کو ماسٹر فیض محمد اور بابا معمہ(امام دین) کابھائی سمجھتے رہے، پوتے جوان ہوئے تو راجہ لکھنا شروع کیا تو ہمیں پتہ چلا بابی راجپوت تھے یوں ہم پر ان کی راجپوتی کا راز کھلا. بابی کو بوا جی کب کا داغ مفارقت دے چکی تھیں اس کا پتہ نہیں البتہ ہم نے جب سے بابی کو دیکھا تن تنہا ہی دیکھا، نفاست پسند بذلہ سنج بابی نہ صرف آڑوس پڑوس کی حد تک ہردلعزیز رہے بلکہ تحصیل اور ضلع کی سطح پر معروف و مقبول بھی رہے . چوہدری برادران ماسٹر فیض محمد اور صوفی بیرولی جی سے نہ صرف محلے داری بلکہ بھائیوں والے سمبند تھے.

بابی آخری ایام میں سیری کو الوداع کہہ کر بڑے بیٹے پٹواری اکرم کے پاس میرپور چلے گے جہاں زندگی کی باقی سانسیں پوری کرنے لگے . سیری والا گھر بلکل اجاڑ سا لگنے لگا کہیں بار ماسٹر فیض محمد جی کو اس کچے سے صحن میں گومتے دیکھا جہاں بابی چارپائی بچھا کر بیھٹا کرتے تھے شاید ماسٹر جی ماضی کو واپس لانا چاہتے تھے لیکن ایسا ہو نہ سکا اور ایک دن ماسٹر مہندی جی نے مسجد کے صور نما لوڈ اسپیکر میں یہ اعلان کر دیا کہ بابی سودے (یہ ماسٹر مہندی جی کا تکیہ کلام تھا ، وہ اذان کے بعد بھی یہی کہتے تھے آو مومنو سودے بنا لو . یا عام بات میں بھی کہتے سودے ادھ وچ رہ گے یعنی بات ادھوری رہ گئی. دو سال پہلے میں نے پوچھا کہ آپ مسجد میں کم نظر آتے ہیں تو کہنے لگے زیادہ وقت پھلنی کی طرف گزرتا ہے اس لیے آپ کو نظر نہیں آتا عرض کیا ادھر کیوں جاتے ہیں کہنے لگے زبیر "بیٹے" کے سودے بنانے کا سوچ رہا ہوں یعنی شادی کا، تو یہ سودے یعنی سامان کا ذکر ان کی زبان پر حقیقت میں اس بات کی ترجمانی کرتا ہے کہ اپنے اعمال آخرت کے لیے اگھٹے کر لو، اللہ آپ کو صحت و تندرستی عطا فرمائے آپ اب بھی پانچگانہ نماز تکبیر اولی کے ساتھ ادا کرتے ہیں). سمٹ کر راہی عدم ہو گئے ہیں. چند ماہ کے لیے جانے والے بابی اپنی فطری مسکراہٹ کے ساتھ اہل محلہ اور اہل خانہ کو صدیوں کے لیے آہیں سونپ گے.

محبتوں بھری سیری میں آج بھی بابی کو ہر جگہ ہر بات میں بطور ضرب المثل یاد کیا جاتا ہے . ان کے چھوٹے چھوٹے الفاظ جن میں بہت راز و نیاز پنہاں ہوتے تھے وقتی یہ چھوٹی چھوٹی باتیں تو مزاح لگتی لیکن ان میں تقویٰ اول درجے کا پنہاں ہوتا .

چوہدری نیامت ایک دن ان کی بات بتاتے ہوئے کہنے لگے کہ بابی نے ساری زندگی گوشت کے سوا کو سالن یا ترکاری نہیں کھائی اور اگر جیب میں پیسے بھی نہ ہوتے اور گھر میں لسی اچار کے سوا کچھ بھی نہ ہوتا تو چادر اوڑھ کر کے لیٹ جاتے اور کہتے جب گوشت آئے گا تو اسی وقت کھاوں گا ورنہ نہیں . واقعی گوشت کسی نہ کسی بہانے سے کہیں سے آجاتا تو بابی کھانا کھا لیتے . چوہدری جی کہنے لگے ایک دن میں برآمدے میں بیٹھا کھانا کھا رہا تھا کہ بابی صحن سے گذرے میں نے کھانے کی دعوت دی تو پوچھنے لگے کیا پکا ہوا میں نے کہا دال مسکراتے ہوئے کہنے لگے کھاو، میں نے مذید اصرار کیا کہ بڑی ذائقہ دار بنی ہوئی ہے چھکو تو سہی کہنے لگے نہیں یار اگر چھک لی ناں تو گوشت دینے والے کو پتہ چل جائے گا کہ یہ دال وی کھا لیندا اے. بابی ساری زندگی توکل اللہ رہے تو اللہ نے بھی کبھی انہیں مایوس نہیں کیا، شاعر کشمیر مہجور مترگامی کا ایک مصرعہ برجستہ یاد آیا شاید موقع محل کے حساب سے مناسب ہے" مانہ ہوت درویش کامل آسہ ہک نے حلقی دار" مہجور کے اس مصرعے کا مفہوم ہے کہ، اگر وہ پیشہ سے پٹواری نہ ہوتا تو اپنے آپ کو کامل فقیر خدا تسلیم کرنے میں دیر نہ لگاتا.

بابی کے گھر سے بازار کی طرف جاتے ہوئے چودھری برادران کے دو گھروں کا ذکر ہو چکا ہے انہی گھروں میں ایک تیسرا گھر بھی تھا جہاں شادیانے بج رہے تھے لڑکیاں تھالی یا پرات بجابجا کر شادی کے گیت گائے جا رہی تھی شاید تیل مہندی کی رات تھی تبھی تو کچھ لڑکیاں جاوید کے ہاتھوں پر ہلکی ہلکی سی مہندی لگا رہی تھیں لڑکیوں کے پیچھے کھڑی ماسی مندبی کہہ رہی تھی بس کرو مڑے معراجے کی ایویں نشانی نے طور پر لائی نا تساں رنگن لغیاں او، ماس کےکہنے پر لڑکیاں مہندی والی رکابی اٹھا کر برآمدے میں چلی گئیں. معراج موجود تھا ساری برادری اگھٹی تھی لیکن سب کے نظروں سے لگتا تھا کہ ابھی کوئی باقی ہے جس کا انتظار سبھی کو ہے اتنی دیر میں کسی کی آواز آئی گیس (پیٹرومکس) گلی کی طرف رکھو وہ آ گئے ہیں ، وہ کون ... الیاس سے کسی نے پوچھا، چچا، الیاس نے جواب دیا لیکن تم تو کہتے تھے والد صاحب آنے والے ہیں، ہاں وہی آئے ہیں الیاس گیس لے کر چلتا بنا لیکن پوچھنے والا ماتھا مسلتا رہ گیا . دریں ثنا اجمل خان کی آنکھوں قوی خان کی آواز اور جتندر کی سی باڈی والا براون تھری پیس میں ملبوس ہینڈ سم سب کی نظروں کا محور بنا ہوا سبھی کے گلے مل رہے تھا بوڑھیاں سر ماتھا چوم چوم کر جدائی کا غم مٹا رہی تھیں دوست یار گلے ملتے نہ تھکتے تھے کہ ایک شائستگی پیدا کرتی ہوئی آواز آئی محمد حسین کی آمد مثال کے طور پر بیدو کی شادی تھکاوٹ بھی بہت چونکہ طویل سفر صبح روانگی بارات ممکنہ حد تک بارش کا امکان واپسی اندھیرا کچھ مسائل پرانی لاریاں پرسوں صبح کے ٹائم میل(ولیمہ) بالا شیخ بروقت اطلاع بابت پانی صلاحو چیر کل شام وی کھانا مختصر ریسٹ لازمی محمد حسین صبح اٹھنا بھی ہے. مطلب یہ کہ انہوں نے سمندر کو کوزے میں بند کرتے ہوئے تما معاملات سمجھا دیے مختصر سی ہدایات پر دوہڑے ماہیے ٹپے بند، لوگوں نے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی تو پتہ چلا کہ آنے والے محمد حسین ہیں اور چوہدری شیر محمد صاحب کے اخوان ثالث ہیں.

اخوان ثالث چوہدری محمد حسین اللہ تندرستی فرمائے چاک و چوبند جسم کے مالک ہیں کہیں جوانی میں بلکہ چار پانچ بچوں کے باپ تھے جب پیرس چلے گے اللہ جانے اس وقت کیا سبب بنا کہ وہ پیرس گے ان کے بعد میں نے نہیں سنا کہ کوئی پیرس گیا ہو یا جو گیا ہو پھر وہ واپس آیا ہو تاہم جب واپس آئے تو بالوں میں چاندنی چمک رہی تھی واپسی بھی اس وقت ہوئی جب گھر میں ایوب مغل توتڑی پر گانا گا رہا تھا آئے موسم رنگیلے سہانے ........تو چھٹی لے کے آ......... گھر میں خوشی کا سماں تھا بڑے بیٹے کی شادی کی تقریب جاری تھی یہ پتہ نہیں کتنے عرصے بعد آئے لیکن جب آئے تو پھر واپس نہیں گے. محلے کے بزرگوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے سیاسی بصیرت حاصل ہے لیکن زمیندارہ نظام سے زیادہ دلچسپی ہے گھڑ سواری اور نیزہ بازی آپ کا طرہ امتیاز ہے مرزا جٹ دیکھا تو نہیں لیکن تاریخی شواہد سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ سی جسامت ہی رکھتا ہوا ہو گا. میلہ بیساکھی آپ کی نیزہ بازی کے بغیر ادھورا سا لگتا ہے، آپ بھی نہیں چاہتے کہ میلہ کہیں آپ سے چھوٹ جائے بہووں اور بیٹوں کے اصرار پر امریکہ اور لندن کی سیر کو گے تو جلد ہی واپس لوٹ آئے جب جلدی آنے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے اوتھے جائی تے یاد آئی اگلے مہینے میلا وی اے اس واسطے مڑی آئیاں آں جن لوگوں نے لندن امریکہ دیکھے یا سن رکھے تھے انہوں نے کہا میلے وہاں بھی ہوتے ہیں آپ انہی میں شامل ہو جاتے بھاری سی آواز میں کہنے لگے اوتھے کہیڑے میلے، او جی ایسٹر، گڈ فرائی ڈے، کرسمس اور ویلینٹائین ڈے وغیرہ، پوچھنے لگے ان میں گھوڑے دوڑتے ہیں؟ کسی نے کہا نہیں، تو کہنے لگے فیر چولہے نی سجی ہویا میلہ . واقعی جٹ میلوں سے اور میلے جاٹوں سے ہی سجتے ہیں .

چوہدری محمد حسین دبلی اور لچک دار جسامت کے ساتھ ساتھ قریباً چھ فٹ کی ہائیٹ کے مالک ہیں سفید لباس اور سفید پرنہ آپ کا پسندیدہ لباس ہے لیکن نیزہ بازی کے دوران شملے والی پگ باندھتے ہیں. گھڑ سواروں میں آپ سے بڑی عمر کا شہسوار کوئی کم ہی ہوتا ہے. گاہے گاہے دھوتی باندھ لیتے ہیں اکثر شلوار قمیض ہی پہنتے ہیں پورا دن کام کاج کر لینے کے بعد بھی فریش دکھائی دیتے ہیں پانچ وقت نماز کی ادائیگی باجماعت فرماتے ہیں گرمیوں میں بعد نماز فجر منڈے پر بیٹھ کر تلاوت قرآن پاک کرتے تو آپ کی تلاوت سن کر ہم بیدار ہوتے پرانی طرز کی تلاوت کانوں کو بڑی بھلی لگتی اور آپ کا قاریانہ انداز میں جھوم جھوم کر پڑھنا ہم منٹوں کھڑے دیکھتے رہتے . آس پاس کے گھروں میں اگر کوئی مرد نماز کے لیے نہ اٹھتا تو گھر والے کہتے آٹھ جاو اب تو پہاپا حسین تلاوت بھی ختم کر چکے ہیں تم کب نماز پڑھو گے مطلب یہ تھا کہ تلاوت کے آغاز سے یہ معلوم ہو جاتا تھا کہ مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کے بعد نمازی گھروں کو جا چکے ہیں اور اختتام تلاوت سے پتہ چلتا کہ اب سورج طلوع ہونے والا ہے اس لیے انہوں نے قرآن پاک پڑھنا بند کر دیا ہے.

آپ پہلے پہل تو اپنے بڑے بھائی کے ساتھ ہی رہتے تھے بعد میں پڑوس سے بکتا مکان خرید کر اسی میں رہنے لگے لیکن یہ جگہ تریہہ کونی سی تھی کچھ بھلی نہ لگی تو سڑک کنارے طیفے مندر والے کے سامنے چوبارہ نما مکان بنا لیا لیکن اتفاق کہہ لیں یہ جگہ بھی مربہ شکل میں نہ تھی ساتھ ہی ایک دکان بنائی وہ بھی مثلثات کی بہن ہی بنی.

بازار کے بیچ دکانوں سے جڑا گھر کچھ شان شایان نہ لگا تو بابی جی سے خریدی اراضی پر کوٹھی بنا لی اور یوں یہ اخوان ثالث مع چار پانچ نفوس کے سیری کی مثلثات سے چھٹکارا پا کر عید گاہ کے قریب سکونت پذیر ہوئے . لیکن پھر بھی اگر علم پٹوار کی روح سے دیکھا جائے تو مثلث ابھی قائم ہی ہے .وہ یوں کہ اگر بڑے چوہدری جی کے گھر سے پھاٹہ زبیر ہاوس، زبیر ہاوس سے اس کوٹھی تک اور پھر یہاں سے بڑے چوہدری جی تک خط کھینچا جائے تو پھر مثلث بن جائے گی اس مثلثیات کا کیا راز ہے اللہ ہی جانے .

چوہدری محمد حسین دنیا دار انسان ہیں لوگوں سے میل ملاپ آپ کا خاصہ ہے زمانہ شناسی اپ کے علم ابجد کا کھیل رہا . شاید شاعر ان ہی کے لیے قلمطراز ہے < وہ راس مثلث موالید ----وہ قاعدہ دان بزم.

بڑے چوہدری جی کی علالت کے دوران جب مسجد کمیٹی کی صدارت کے فرائض آپ کو سونپے گے تو آپ بعد نماز عشاء بندہ خاکسار کی ہٹی پر آئے کچھ دیر چہل قدمی کرنے کے بعد قیام کیا دو تین لمبی لمبی پھونکیں مارنے کے بعد کہنے لگے تساں کول کوئی حساب کتاب لکھنے الا رجسٹر ہوسی، میں نے کہا وہ تو ہے لیکن آپ اس کو کیا کریں گے. سینے کو دائیں ہاتھ سے سہلاتے ہوئے گویا ہوئے دراصل بڑے پہاپا بیمار ہو گئے ہیں اور کمیٹی والوں نے بڑی پہاری ذمہ داری سونپ دی ہے سوچتا ہوں نبھا سکوں گا کہ نہیں . آپ کو فکر مند تو ہونا چاہیے لیکن پریشان نہ ہوں فکر مندی کا اس لیے کہا کہ فکر ہی مومن کو فرائض کی ادائیگی پر مستحکم کرتا ہے. آپ سے بڑھ کر کون اس ذمہ داری کو نبھا سکتا ہے. اس چھوٹے سے جواب پر یوں گردن ہلائی جسے کہہ رہے ہوں شاید.....! رجسٹر لے کر چلے گے لیکن ان کی وہ ادا کافی عرصہ. .... بلکہ آج بھی یاد ہے. کچھ ہی عرصہ بعد آپ نے یہ فرائض منصبی اپنے بیٹے محمود کو تفویض کر دیے جو پیشے کے لحاظ سے وکیل بھی تھے .

آپ ہنس مکھ اور مجلسی طبیعت کے مالک ہیں محلے کی ہر خوشی غمی میں اپنی شراکت کو یقینی بناتے ہیں . بیلوں کی دوڑ کشتی کبڈی کے اکھاڑے اور بھینسوں کا بیوپار آپ کے پسندیدہ مشاغل میں سے ہیں. حافظہ ماشاءاللہ کیا پایا کہ لوڑوکا، صاباں ناں پیل،اور راجوری سے وابستہ قصے کہانیاں سنا کر آج بھی محفلین کو محذوز کرتے ہیں. سکھوں کی کئی بانیاں نہ صرف آپ کو یاد ہیں بلکہ آدھی سے زیادہ آپ کے بیٹے الیاس کو بھی یاد ہیں. آپ دونوں میاں بیوی کو حج کی سعادت بھی حاصل ہے. دو سال قبل آپ کو یکے بعد دیگرے دو ایسے صدمات سے دو چار ہونا پڑا جن کا اثر آپ کی ہنستی مسکراتی زندگی کی تمام بہاریں لے گیا .

شریک سفر زندگی کے اس موڑ پر تنہا چھوڑ گئی جہاں اللہ کے بعد اسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے ابھی سال بھی مکمل نہ ہوا تھا کہ جوان اور قانون دان بیٹا جدائی کا ایسا نشتر چبھو گیا کہ جس کی پیڑ صبح وشام ٹیس بن کر اٹھتی ہے. ان دونوں صدمات کا بہت گہرا اثر آپ کے بعد آپ کی بڑی بیٹی پر بھی ہوا یہاں تک کہ وہ کسی کو کچھ بھی نہ بتائے تو اس کی خاموشی بھری آنکھیں دل کے سارے دکھ لا کر سامنے رکھ دیتی ہیں . اللہ باپ بیٹی کے دکھ درد کو خوشیوں میں بدل دے. بیشک دکھوں کا مداوا کرنے والا وہی ہے.

چوہدری محمد حسین کا شمار علاقے کے معززین میں ہوتا ہے پنچایت وغیرہ میں سرپینچی آپ ہی کو زیبا ہے . آپ علاقے کی پہچان ہیں . آپ کا چھوٹا بیٹا وقار آپ ہی کا پرتو ہے اللہ تعالیٰ نے اس میں کافی خوبیاں آپ والی رکھی ہیں. کھلی جگہ میں بنی بڑی ساری مستطیل کوٹھی آپ کو وہ سکون دینے میں ناکام رہی جو مثلثات نے دے رکھی تھیں. سیری نالا بان اپنے ساتھ بیشمار یادوں کو بہائے جانے کہاں لے جاتی ہے پانیوں کے کھدلے رنگ اور
موسموں کے تغیر سیری کی خوبصورتی کو ماند نہیں کر سکتے کیونکہ ابھی بزرگوں کی شفقتیں باقی ہیں.
Gulzaib Anjum
About the Author: Gulzaib Anjum Read More Articles by Gulzaib Anjum: 61 Articles with 56101 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.