دور اندیشی کا ثبوت

ہندوستان میں مسلمانوں کے ہر جلسے اور سمینار میں یہ باتیں ہوتی ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ حکومت کا رویہ ٹھیک نہیں ہے ۔حکومت مسلمانوں کے ساتھ تعصب کا برتاؤ کرتی ہے جسکی وجہ سے مسلمان پسماندہ ہوتے جا رہے ہیں ۔مسلم نوجوانوں کیلئے سرکار کوئی نوکری دینے کیلئے راضی نہیں ہے جس کی وجہ سے مسلم نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے ۔یہ اور اس طرح کی بہت سی باتیں ہمارے دانشوران اور ہمدرد قوم و ملت کرتے رہتے ہیں اور مسلمانوں کی ترقی کا راز کوئی تعلیم میں بتاتا ہے تو کوئی آخر میں اسلام پر عمل پیرا ہونے کی نصیحت کر کے اپنا فرض ادا کر دیتا ہے ۔لیکن جب یہی خیر خواہ اور دردمند ملت جو کسی ادارے یا کسی سرکاری نیم سرکاری محکمہ میں کسی عہدے پر فائز ہوتے ہیں اور ان سے کوئی کسی مسلم نوجوان کو نوکری دینے یا محکمہ میں کسی بحالی کو لیکر بات کرتا ہے تو یہی بہی خواہ اور دانشور جو سمیناروں اور پروگراموں میں ملت کا درد بیان کرتے ہیں وہی مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن نظر آتے ہیں ۔یہی ہندوستان میں آزادی کے بعد طرہ امتیاز رہا ہے جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا ہے ۔کچھ ادارے تو ایسے تھے جہاں صرف مسلم ہی مسلم تھے اور وہ سب آپس میں اس قدر لڑتے تھے کہ ادارہ کے غیر مسلم ذمہ دار بھی تنگ ہو جایا کرتے ہیں اور پھر دھیرے دھیرے مسلم ریٹائر ہوتے گئے ویسے ویسے غیر مسلم کی بحالی ہوتی گئی ۔لیکن یہ مسلم اپنے کسی بھائی کو برداشت کرنے کو کبھی راضی نہ ہوئے ۔یہی حال بہار مدرسہ بورڈ کا ہے جہاں اگر کوئی ملازم ریٹائر ہوتا ہے تو وہاں سے اس کی کرسی ٹیبل بھی ہٹا لی جاتی ہے تاکہ کوئی یہ نہ پوچھے کہ یہ کرسی کیوں خالی پڑی ہے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ایک کر کے سارے ملازم ریٹائر ہو گئے اور مدرسہ پر تالے لگا دئے گئے ۔تالے لگانا گوارہ ہے لیکن کسی مسلم کو نوکری کرتے دیکھنا گوارہ نہیں ہے ۔یہ اور اس طرح کی بہت ساری مثالیں مل جائیں گی ۔مسلمانوں نے آزادی کے بعد اگر کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا ہے تو یہی دیا ہے کہ اپنے ساتھی کی ملازمت کو کسی طرح خطرے میں ڈالنا اور کسی مسلم ملازم کی بحالی کو ناممکن کرنے کی ہر کوشش کرنا ۔آج بہار اردو لائبریری کی خبر پڑھی جس میں چیئرمین پر الزام ہے کہ جناب والا کی موجودگی میں گزِشتہ پچیس سالوں سے کوئی تقرری نہیں ہوئی اور اور تقریبا پانچ آسامیاں خالی پڑی ہیں ،سرکاری فنڈ پینتس لاکھ روپے ہر سال حکومت کو واپس کر دیا جاتا ہے لیکن کسی مسلم کی تقرری کو ممکن نہیں بنایا جا رہا ہے ۔یہ چیئرمین اکیلے نہیں ہیں جنہوں نے ایسا رویہ اختیار کیا ہے بلکہ ہزاروں لاکھوں مسلم سرکاری اور غیر سرکاری محکمہ میں براجمان ہیں جن کا رویہ ایسا ہی ہوتا ہے ۔حیرت تو تب ہو جاتی ہے جب کسی مسلم تنظیم کے تحت نکلنے والے قدیم اردو اخبارکے چیف اڈیٹر کا بھی کچھ یہی حال ہے ۔وہ بھی سن لیجئے ۔دہلی سے نکلنے والے معروف و مشہور سہ روزہ اخبار کے مدیر اعلی کے پاس جب ایک چپراسی کی درخواست مستقل کرنے کی آئی تو انہوں نے اپنی مرضی سے ہی اس پر یہ نوٹ لکھ دیا کہ ٹرسٹ نے اب کسی ملازم کو مستقل نہ کرنے کا جو فیصلہ لیا ہے وہ بہت ہی دور اندیشی کا ثبوت دیا ہے ۔اب بتائیں جس نے نصف صدی گزاردی قوم مسلم کے حق میں لکھتے لکھتے اس شخص کے معاشی پہلو پر اتنے بھیانک خیالات ہیں گویا وہ دور اندیشی کا ثبوت دے رہے ہیں کہ اب کسی کو نوکری نہ دو اور نہ مستقل کرو ۔اپنی کرسی بچانے کیلئے اداروں کو برباد کرنے والے ایسے حاسدین ہمارے معاشرے کے لئے ناسور بن گئے ہیں جو قوم کی تربیت کرتے ہیں لیکن خود ان کی تربیت میں کمی ہے ۔معاش سے کسی مسلم کو روکنے کا عمل تو بنی اسرائیل اور برما میں بودھشٹ کا سنتے آئے ہیں لیکن مسلمانوں میں اتنے بڑے قوم و ملت کے دشمن چھپے بیٹھے ہیں ۔یہی حال ہر جگہ ہے اگر کسی مسلم ادارے کی بات کی جائے جہاں قوم و ملت کے پیسے سے ہی سارا کاروبار چلتا ہے وہاں بھی یہی حال ہے ۔مساوات ،انصاف ،ہمدردی ،انسانیت ،بھائی چارہ جیسے جذبات کی اب کوئی قدر نہیں رہی یہ سب صرف تقریروں اور بعض و نصیحت تک محدود ہو گئی ہیں عملی زندگی میں ان کا خاتمہ کرنے والے یہی رہبر قوم و ملت ہی ہیں جو آستین کے سانپ کی طرح ملت کے نوجوانوں کومعاشی اعتبار سے ڈسنے کا کام کر رہے ہیں ۔یہی حال کسی معروف ماہنامہ کا ہے جہاں کے ملازم سے یہ سوال کیا کہ آپ کی تنخواہ کیا ہے اور اسکی ادائیگی وقت پر ہوتی ہے کہ نہیں تو اس ملازم نے درد آہ بھر کر کہا رہنے دیجئے مت پوچھئے نہیں آپ ہمارے چیف اڈیٹر سے بدظن ہو جائیں گے ۔جب کہ جس ماہنامہ کے وہ ملازم ہیں اس کے ایڈیٹر بڑے بڑے مسلم اداروں کے کئی کئی عہدے دار ہیں کسی محکمہ کے صدر ہیں تو کسی کے سکریٹری اور کسی کے ممبر یہاں تک کہ مسلم پرسنل لا کے ممبر وہ بھی ترجمان کی حیثیت سے جن کا دل ہمیشہ قوم و ملت کے لئے دھڑکتا ہے ۔جب ان جیسے لوگوں کا یہ حال ہے تو دنیا کی کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو ہندستان میں مسلمانوں کو ترقی سے ہمکنار کر سکے ۔اگر کسی نے چاہا بھی تو ہمارے خود ساختہ رہبران اسے کسی بھی حال میں ممکن نہیں بنا سکتے ہیں ۔یہ ایک حقیقت ہے جس کا اظہار ہونا بہت ضروری ہے چونکہ قوم تو یہ سوچ کر نظر انداز کر دیتی ہے کہ بدنامی ہوگی لیکن یہ بات سامنے آنی چاہئے کہ جو مسلمانوں کی نیک نامی نہیں چاہتا اس کی بدنامی کیا معنی رکھتی ہے ۔
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 112458 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.