دنیا کی ہر قوم اپنی زبان ، ادب، ثقافت و
تہذیب سے پہچانی جاتی ہے اور کوئی بھی ادب کسی قوم سے منسوب اور اس قوم کی
تاریخ، ثقافت و تہذیب کا آئینہ دار اور ترجمان ہوتا ہے۔ اسی طرح بلوچی ادب
بلوچ قوم کی روایات، تہذیب و ثقافت کا امین اور آئینہ دار ہے۔ حالات کتنے
کٹھن اور مشکل کیو ں نہ ہوں مگر حق اور مظلوم کی ترجمانی ساتھ دینے اور
ظالم و باطل طاقتوں کی مذمت اور اس کے خلاف جہاد میں بلوچی زبان و ادب پیش
پیش رہے ہیں اور بلوچ قوم کو روزِ اول سے تادم تحریر اپنی تاریخ، ثقافت اور
اپنی زبان و ثقافت ، اقدار و روایات سے کٹ کر قباحتوں پسماندگی اور زوال سے
متعلق جتنی معلومات حاصل ہوتی ہیں وہ سب کی سب بلوچی زبان و ادب کے مرہونِ
منّت ہے بلوچ قوم کے ہر فرد کو اس معاملے میں غور سے سوچنا چاہےے کہ اگر
دنیا میں اپنی شناخت اور بقاءکو برقرار رکھنا ہے تو وہ صرف اور صرف اپنی
زبان و ادب اور تہذیب و ثقافت کے سہارے ممکن ہے ہر سال 2 مارچ کو پاکستان
بھر میں بلوچی ثقافت کا دن بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے اس دن کی مناسبت
سے لوگ بلوچی پھگڑی ،کپڑے اور دیگر ملبوسات زیب تن کرتے ہیں۔ مختلف قسم کی
تقاریب منعقد کی جاتیں ہیں ان تقاریب میں مخصوص خیمے بھی لگائے جاتے ہیں
جسے بلوچی اور براہوی زبانوں میں گدان کہا جاتا ہے۔ان گدانوں میں وہ تمام
چیزیں بھی آویزاں کی جاتی ہیں جو بلوچی ثقافت کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس کے
علاوہ مخصوص بلوچی جوتوں اور کپڑوں کے سٹالز بھی لگا کرتے ہیں۔بلوچی ثقافت
کو اجاگر کرنے کیلئے سبی میں میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے اس سال ہونے والے
میلے کے اختتام پر صوبائی وزیر اعلیٰ ثنااللہ زہری نے کہا کہ ثقافت ہماری
پہچان ہے۔ ہزاروں سالوں پر محیط تاریخ کو زندہ رکھنے کے لیے ہمیں مل کر
اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ یہاں بسنے والی تمام قومیں اپنی بہادری، مہمان
نوازی، چادر اور چار دیواری کے احترام اور خواتین کواعلیٰ مقام دینے جیسی
مثبت روایات کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ مقامی زبانوں کی ترویج و
ترقی کے لیے موجودہ حکومت ترجیحی اقدامات کر رہی ہے۔ ایسی تقریبات اس بات
کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ہم اپنی روایات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ نواب
ثنااللہ زہری نے مزید کہا، مجھے بےحد خوشی ہے کہ ہم اپنی ثقافت کو فروغ دے
رہے ہیں۔ جو قومیں اپنی ثقافت، زبان اور مثبت روایات کو اہمیت نہیں دیتیں،
ہمیشہ مستقبل کے مسائل سے دوچار رہتی ہیں۔ جن قوموں نے اپنی زبان، تہذیب،
ثقافت اور مثبت روایات کو اولیت نہیں دی، آج ان کے نام و نشان تک مٹ چکے
ہیں۔
بلوچستان کے ایک معروف مؤرخ حقداد بلوچ نےسبی نے سبی کے عظیم میلے پر بات
کرتے ہوئے کہا کہ ایسی تقاریب کے نعقاد سے بلوچستان کے عوام اپنی پہچان اور
مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔ حقداد بلوچ نے کہا کہ ایسی ثقافتی سرگرمیوں
سے امن کو فروغ ملتا ہے-
واضح رہے کہ سبی کا میلہ بلوچی تاریخ کا اہم حصہ ہے۔ بنیادی طور پر اس میلے
کا آغاز معروف بلوچ حکمران میر چاکر خان رند کے دور میں 1487ءمیں ہوا تھا۔
میلے میں شرکت کے لیے ملک کے دیگر حصوں سے بھی لوگ بڑی تعداد میں یہاں آتے
ہیں۔ ماضی میں یہاں اہم ترین قبائلی جرگے بھی منعقد ہوتے تھے، جن میں قبائل
کے دیرینہ تنازعات کے حل نکالے جاتے تھے۔بلوچ ثقافتی میلے کے موقع پر کوئٹہ
میں ہونے والی ایک تقریب کے دوران روایتی بلوچ لباس تن کرتے ہیں اور
اسکولوں کی طالبات نے قومی نغمے پیش کرتے ہیں اس کے علاوہ جانوروں کی
نمائشی پریڈ، گھوڑا ناچ، علاقائی رقص، نیزہ بازی ، گھڑدوڑ، رسہ کشی اور
ملاکڑہ کی پرفامنس ہوتی ہے جس کو شائقین نے بےحد پسند کرتے ہیں۔پگڑی،
روایتی چپل، خواتین کے رنگ برنگے کڑھائی والے ملبوسات اور بلوچ نوجوانوں کا
خصوصی رقص، بلوچ ثقافت کے عکاس ہیں۔پاکستان کا سب سے کم ترقی یافتہ صوبہ
بلوچستان کبھی ترقی و ثقافت کا گہوارہ رہا ہے اور بلوچستان کی قدیم تاریخ
پر تحقیق میں مصروف ایک جرمن محقق اوتے فرانکے کہتی ہیں کہ وادیِ سندھ کی
تہذیب بھی بلوچستان ہی کی مرہون منت رہی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں بھی بلوچ
کلچر ڈے کے حوالے سے تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں مجھے بھی فیصل بلوچ کی
خاص دعوت پر شرکت کرنے کا موقع ملا۔ اس تقریب میں بلوچستان اور گلگت
بلتستان تعلق رکھنے والے طلباءنے پھر پور حصہ لیا اور بہترین پرفامنس کا
مظاہرہ کیا۔ بلوچی تہذیب سے تعلق رکھنے ہر چیز کے سٹال لگائے گئے تھے۔
پاکستان کیلئے خوشی کی بات یہ ہے کہ اس رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے اور
آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹے صوبہ بلوچستان میں سال 2015ءسیاسی ماحول میں
خوشگوار تبدیلی اور استحکام کا سال ثابت ہوا ۔اسی طرح اگر ہم قومی اتحادو
یگانگت کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنے تمام قومی و مقامی تہوار منائے تو کیا
مجال کہ دشمن ہماری طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے اور ہم جلد ہی جناح کے حقیقی
پاکستان میں ہو گے۔
|