اطلاع معزز عدالت اور وزیراعلیٰ پنجاب کمپلینٹ سیل کیلئے اور انسانی حقوق کے نمائندوں کیلئے

اگر ایک بڑی سی دیگ میں پڑی کھیر کا ذائقہ جاننا ہو تو ایک چھوٹے سے چمچ میں کھیر لے کر اسے چکھ کر ساری دیگ کا ذائقہ جانا جا سکتا ہے۔ ساری دیگ چکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور اگر صرف یہ دیکھنا ہو کہ پکا کیا ہے تو پھر بھی ایک چمچ ہی کافی ہے۔ یو فون پاکستان کی ایک بڑی موبائل کمپنی ہے۔ اسے ایک دیگ جانئے اور اب آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ دیگ کے اندر کیا ہے۔ لاہور میں 299 کے بلاک، سبزہ زار (ایل ڈی ای کی رہائشی کالونی) میں ایک بڑے پلاٹ میں یو فون کا ایک بلند و بالا ٹاور لگا ہوا ہے اور ٹاور سے متعلقہ انتہائی مہنگی مشینری اور مشینری کو ٹھنڈا کرنے کیلئے جو ایر کنڈیشنر لگائے گئے ہیں، یہ سب لگا کر اس بڑے پلاٹ کی کافی جگہ خالی بچ گئی ہے۔ مشینری کی حفاظت کیلئے ایک گارڈ موجود ہے اور گارڈ چونکہ ایک غریب آدمی ہوتا ہے۔۔۔ اس لئے اس گارڈ کو جانور کا درجہ دیا گیا ہے۔ گارڈ چوبیس گھنٹے یہیں رہتا ہے لیکن اس کے لئے اس بڑے سے پلاٹ میں کوئی واش روم نہیں ہے اور واش روم نہیں ہے تو استنجا خانہ بھی نہیں ہے۔ ذرا سوچئے کہ یہ جیتا جاگتا انسان کسطرح وقت گزارتا ہوگا۔ اگر یہ کوئی افسر ہوتا تو اس کیلئے واش روم تو کیا، ایک چھوٹا سے کچن بھی بن جانا تھا۔ یہ انسانی حقوق کی پاسداری(یو فون کے نزدیک) کی ایک اعلیٰ مثال ہے جو کہ یو فون کی دیگ سے ایک چھوٹا چمچ ہے۔

پیارے قارئین آئیے اب لاہور شہر کے ایک محکمے واسا کو بھی ایک بڑی دیگ سمجھ کر اس کا بھی ایک چمچ لے کر دیکھ لیں۔ یہ جو 299 کے بلاک، سبزہ زار جہاں ایک انسان کو جانور کا رتبہ دیا گیا ہے اس کے بلکل سامنے ایک پارک ہے اور پارک میں واسا کا ایک ٹیوب ویل لگا ہوا ہے۔ اس ٹیوب ویل پر بھی ہر وقت ایک انسان کی ڈیوٹی ہوتی ہے اور چونکہ یہ انسان بھی ایک غریب انسان ہے کوئی افسر نہیں ہے اسلئے اس کے لئے بھی کوئی استنجا خانہ، واش روم بنانا ضروری نہیں سمجھا گیا۔ چنانچہ اس دیگ سے بھی جو ڈش نظر آ رہی ہے وہ جانور کا درجہ پانے والا انسان ہی ہے۔

نوٹ : حسن ظن، بلکہ یقین یہی ہے کہ شہریوں کی فلاح کیلئے کام کرتا لاہور میں موجود وزیر اعلیٰ کا کمپلینٹ سیل اس بارے میں لاعلم ہے۔ لیکن اب علم ہونے کے بعد ان دو انسانوں کو انسان کی حیثیت دلانا تو ان کی ذمہ داری ہونی چاہئے۔

قارئین یہ لاھور شہر ایک دیگ کی طرح سمجھا جائے ۔ تو دیگ یا شہر کے اندر ایسی داستانیں اور بھی ھیں جن کا ذکر کرنا کوئی ضروری نہیں کیونکہ ایک دیگ سے ایک چمچ ہی سب کچھ بتا دیتا ہے۔ صبح سے لے کر رات تک بارہ گھنٹے ڈیوٹی کرنے اور کم و بیش چار ہزار تنخواہ لینے اور چھٹی تو بہت مشکل سے لینے والوں سیکورٹی گارڈوں، چند بڑے ہوٹلوں کے علاوہ دوسرے ہوٹلوں پر معمولی تنخواہ پر کام کرنے والوں، کلینکس، دوکانوں کے سیلز مینوں، پرائیویٹ سکولوں کی اکثریت کے بیچارے اساتذہ، ٹریول ایجنسیوں کے ملازمین، گھریلو ملازمین، ڈرائیوروں اور پرائیویٹ ملازمین کی اکثریت کے حالات یہ دو چمچ ہی بتا رہے ہیں کہ بڑی بڑی کمپنیوں اور اداروں کے غریب اور چھوٹے ملازمین کی حیثیت ایک جانور کی سے ہے۔ جب ان کو ایک استنجا خانے کی سہولت دینا مناسب نہیں سمجھا گیا تو تنخواہوں اور دوسری سہولیات کے بارے میں ان سے کیا سلوک کیا جاتا ہوگا۔ ان کے کام کے اوقات کیا ہوں گے۔ ان سے دفاتر میں بات کیسے کی جاتی ہو گی۔ ان کو چھٹی کتنی ملتی ہوگی۔ جہاں غریب ملازمین کو استنجا خانوں کی سہولت میسر ہے وہ بھی اس لئے کے ان کی ڈیوٹی ان دفاتر یا عمارات میں ہے جہاں بڑے افسران بھی بیٹھتے ہیں۔

یہ ایک پیغام ہے عدالت عالیہ کے نام۔ بہت سارے لوگ، کنٹریکٹ ملازمین عدالت کی مہربانی سے پکے ہو چکے ہیں۔ بہت سارے خوش قسمت ملازمین کی تنخواہیں بڑھ چکی ہیں لیکن پرائیویٹ اور غریب ملازمین کی اکثریت کی تنخواہیں مذاق کی حد تک کم ہی ہیں۔ یہ لوگ بھی اسی ملک کے شہری ہیں۔ ان کے بھی حقوق ہیں۔ عدالت عالیہ سے درخواست ہے کہ کوئی کمیشن ان کے بارے میں بھی بنا دیں۔ جس کے رکن بڑے بڑے افسر نہیں بلکہ غریبوں کا احساس کرنے والے، درد مند، انسان دوست لوگ ہوں۔۔ ان کی تنخواہوں اور کام کے اوقات کے بارے میں بھی کوئی حکم جاری کر دیں۔ کوئی سوموٹو ایکشن ان کے لئے بھی لیا جائے۔ ایک سرکاری استاد کم و بیش 30000 روپے تنخواہ لے اور پرائیویٹ اساتذہ کی اکثریت 3000 سے 6000 روپے تک تنخواہ لے، یہ کوئی انصاف تو نہیں۔ سرکاری ملازم اور پرائیویٹ ملازم سے نوکری کے دوران اور نوکری ختم ہونے کے وقت ایک جیسا سلوک ہونا چاہئے۔ انصاف کا تقاضا یہی ہے ۔۔ وقت کی آواز بھی یہی ہے۔۔ آخر دونوں اس ملک کے شہری ہیں۔
Mohammad Owais Sherazi
About the Author: Mohammad Owais Sherazi Read More Articles by Mohammad Owais Sherazi: 52 Articles with 117132 views My Pain is My Pen and Pen works with the ink of Facts......It's me.... View More