محبت کی کئی صورتیں ہیں جن میں
ماں باپ، بہن بھائی، دوست احباب یا وہ افراد جن سے اگرچہ کوئی خونی رشتہ و
تعلق یا قرابت داری نہیں ہوتی لیکن محض بحیثیت انسان کے انسان کی انسان سے
محبت بھی محبت کی ایک قسم ہوتی ہے لیکن ان سب محبتوں میں ایک محبت وہ ہے جو
ان سب پر برتر ہے جو ان سب پر فوقیت رکھتی، حاوی ہے یا سب سے مقدم ہے-
بلکہ ہر قسم کی محبت کا منبع و مآخذ بھی یہی ایک محبت ہے اور وہ محبت ہے
اپنے خالق سے محبت اپنے رب سے محبت اپنے پروردگار سے محبت اسی محبت سے ہر
قسم کی محبت کے چشمے پھوٹتے ہیں یہی ہے اصل محبت کا سرچشمہ یہی وہ محبت ہے
جو ازل سے انسان کے وجود میں انسان کی فطرت میں انسان کی روح میں رچی بسی
ہے اور اسی محبت کی طلب و جستجو انسان کو قرار نہیں لینے دیتی بلکہ مسلسل
بے قرار و متحرک رکھتی ہے-
یہی تحریک یہی جستجو اور اسی محبت تک رسائی کی لگن دنیا میں انسان سے ایسے
کارنامے سرانجام دلواتی ہے جن کے بارے میں کر گزرنے سے پہلے انسان کے گمان
میں بھی نہیں ہوتا کہ وہ یہ سب کر بھی رہا ہے کہ یہ محبت انسان کو بےگمانی
کی کیفیت سے گمان میں اور پھر گمان سے یقین کے راستے پر لاتی ہے اور پھر
یہی یقین و ایمان کی دولت انسان کی محبت کو پایہء تکمیل تک پہنچاتی ہے-
ہر انسان اپنے پیدا کرنے والے سے محبت ضرور کرتا ہے لیکن ہر ایک کا اپنے
خالق سے محبت کے اظہار کا طریقہ یا صورت مختلف ہوتی ہے اسی محبت کے نتیجے
کے بیشتر مذہبی رسوم مختلف زمانوں سے دنیا کے مختلف خطوں اور ممالک میں
رواج پاتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ غالباً آج بھی جاری ہے جو کہ انسان کی اپنے
بنانے والے اپنے پیدا کرنے والے سے محبت اور تعلق کو ظاہر کرتی ہیں-
لیکن اس کے باوجود بد قسمتی سے انسان کے ساتھ ایسا معاملہ بھی ہے کہ انہی
انسانوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو خالق سے محبت کرتے ہوئے بھی اس محبت کا
حق ادا نہیں کر پاتے ان کے دل میں امین آسمان اور یہ کائنات تخلیق کرنے
والے رب کا خوف، محبت، ہیبت، جلال، قدرت اور اختیار سے انکاری نہ ہونے کے
باوجود بھی اپنے رب سے محبت نہیں کر پاتے-
وہ کون ہیں جو اپنے خالق و مالک سے محبت نہیں کر پاتے محبت کا حق ادا نہیں
کر پاتے ۔۔۔ ؟
یقیناً یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو شیطان کی پیروی کر کے رب کے نافرمان بندوں کے
گروہ میں شامل ہو جاتے ہیں تو جب وہ ایسا کرتے ہیں تو رب بھی ان کیطرف سے
بے نیاز ہے وہ ان کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے کہ پھر کوئی ہدایت کوئی
رہنمائی اور کوئی نصیحت ان کے لئے کارگر ثابت نہیں ہو پاتی محبت تو شیطان
بھی اللہ سے کرتا تھا کہ اس سے زیادہ رب کا عبادت گزار کوئی اور نہ تھا
لیکن غرور و تکبر کے باعث اللہ کے ایک فرمان سے انکاری ہونے کے باعث اسے
ہمیشہ کے لئے ملعون قرار دیا گیا اس جرم کی پاداش میں راندہ درگاہ ہونے سے
لیکر قیامت تک پھٹکار کا سزاوار ٹھہرا دیا گیا ہے اسی آگ اور حسد کی جلن
میں وہ شیطان آج تک انسان کا ازلی دشمن ہے جو حیلوں اور بہانوں سے انسان کو
راہ راست سے بھٹکانے کی سعی کرتا رہتا ہے کہ انسانوں کو بہکا سکے ایسے ہی
لوگ جو اپنے نفس پر قابو نہیں رکھتے وہ بڑی آسانی سے شیطان کے بہکاوے میں آ
کر بدی کا وہ راستہ اختیار کر لیتے ہیں جو خالق کی ناراضگی اور شیطان کی
خوشی کا ذریعہ بن جاتے ہیں کہ شیطان کسی انسان کو بہکا کر خود کو اپنے مشن
میں کامیاب سمجھتا ہے لیکن رب نے کبھی انسان کو تنہا نہیں چھوڑا اور اپنے
بندوں کو راہ راست پر لانے کے لئے اپنی حکمت و اختیار سے کوئی نہ کوئی سبب،
کوئی نہ کوئی وسیلہ کوئی نہ کوئی ذریعہ انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے ہر
زمانے میں پیدا کرتا رہا ہے-
وہ لوگ جو اللہ سے محبت رکھتے ہیں انہیں ہی سب سے زیادہ یہ شیطان ورغلانے
اور بہکانے کے حیلے تلاش کرتا رہتا ہے تاکہ اللہ کے بندوں کو اللہ کے نزدیک
نا پسندیدہ بنا سکے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ رب تعالیٰ اپنے بندوں سے بہت
محبت کرتا ہے بہت پیار کرتا ہے اور اسی رب نے انسان کو محبت جیسی نعمت سے
بھی نوازا ہے-
انسانی زندگی میں محبت کا کس قدر عمل دخل ہے محبت انسان کی تربیت کرتی ہے
ایک ڈھال کی صورت انسان کی حفاظت کرتی ہے ماں کی طرح انسان کی پرورش کرتی
ہے ایسی پرورش جو کسی انسان کو اس قابل بنانے میں مدد دیتی ہے محبت انسان
میں بزرگی و بڑائی پیدا کرتی ہے محبت کرنے والے انسان کو قابل تعریف و
تحسین بناتی ہے انسان کی تکمیل محبت ایک نعمت ہے ضرورت ہے محبت انسان کی
بہترین تربیت کرتے ہوئے انسان کی تکمیل تک انسان کا ساتھ نبھاتی ہے-
اب یہ محبت کس طرح انسان کی تکمیل تک مددگار بنتی ہے اور کس طرح ساتھ دیتی
ہے تو اس کے لئے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ محبت اصل میں ہے کیا شے- محبت ایک
انتہائی خوبصورت جذبہ ہے رب کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے جو
قدرتی طور پر انسان میں موجود ہے ضرورت صرف اس جذبے کو محسوس کرنے کی ہے
محبت کا تعلق دل سے ہے کہ یہ جذبہ دل میں بیدار ہوتا ہے یعنی انسان میں یہ
جذبہ موجود ہے لیکن خفتہ ہے سویا ہوا ہوتا ہے لیکن نیند بھی آخر کب تک طاری
رہتی ہے کچھ لوگ اس جذبے کو جلد محسوس کر لیتے ہیں اور بعض ذرا تاخیر سے
دراصل دیکھا جائے تو یہ جذبہ تو انسانی زندگی میں مختلف صورتوں میں انسان
کے ساتھ ساتھ ہی چلتا ہے اور اس جذبے کی کارفرمائی انسان کے روز مرہ امور
میں شامل رہتی ہے لیکن ہمیں پتہ نہیں چلتا یا ہم جذبہ محبت کی کارفرمائی کو
محسوس نہیں کر پاتے کہ محبت تو خود ہمارے اندر رہتی ہوئی ہمارے ساتھ ساتھ
چلتی ہے اور ہم جانتے بھی نہیں-
رب نے انسان کے لئے ہدایت و رہنمائی کے راستے وا کئے ہوئے ہیں بدی کی
نشاندہی بھی کر دی ہے انسان کی تکمیل کے لئے اپنے پاک کلام قرآن مجید فرقان
حمید کے ذریعے جو کہ اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر
نازل کر کے انسان پر جو احسان کیا ہے اس کا حق یہی ہے کہ انساں اس سرچشمہ
ہدایت سے فیض یاب رہے اس پر عمل کرے کہ سیرت نبوی حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی پیروی اور کلام پاکی کی تعلیمات پر سچے ایقان و ایمان اور
خلوص عمل سے ہی اپنے رب سے محبت کی تکمیل کر سکتے ہیں شیطان کو اس کی چال
اور سازشوں میں ناکام کرتے ہوئے تکمیل انسانیت کی منزل تک رسائی ممکن بنا
سکتے ہیں-
انسان اپنی اس محبت کا حق اپنے نفس پر اختیار حاصل کرنے کے بعد ہی حاصل کر
سکتا ہے اگرچہ نفس پر قابو پانا بظاہر نہایت مشکل امر ہے لیکن انسان کے لئے
کچھ بھی ناممکن نہیں ضرورت صرف سچی لگن ارادے اور خلوص عمل کی ہے جو لوگ
نفس پر اختیار پا لیتے ہیں پھر کوئی شیطان اسے ورغلا نہیں سکتا بلکہ شیطان
تو خود نفس پر قابو پا کر پرہیز گاری پر قائم رہتے ہیں ان کے پہلو بچاتا
اور کتراتا ہے یہی وہ انسان ہوتے ہیں جو رب سے محبت میں رب کے بندوں سے رب
کی مخلوق سے محبت رکھتے ہیں محبت بانٹتے ہیں مجازی محبتوں کے راستے سے
گزرتے گزرتے حقیقی محبت کی تکمیل تک محبت کا سفر کرتے کرتے عشق کی اس انتہا
تک پہنچ جاتے ہیں جو انسان کی زندگی کا حاصل ہے انسان کی زندگی کا مقصد ہے
سو محبت کرتے رہیں محبت بانٹتے رہیں نفرت کے کانٹے چھانٹتے رہیں محبت کے
پھولوں کی بہار سے دنیا کے خارزار کو گل و گلزار بناتے رہیں-
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو (آمین)- |