ہر پھول کی قسمت میں کہاں نازِ عروساں
کچھ پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کے لیے بھی
پاکستان میں تین کروڑ سے زائد لڑکیاں مناسب رشتے نہ ملنے کی وجہ سے بوڑھی
ہو رہی ہیں اور تین لاکھ سے زیادہ دوشیزائیں شادی کی عمر گزار چکیں ہیں۔
ویسے بھی عورتیں 52 فیصد اور آدمی 48 فیصد ہیں۔ اس جدید دور میں مناسب
رشتوں کے انتظار میں لڑکیاں خود یا ان کے سربراہان بذریعہ انٹرنیٹ اور سوشل
میڈیا اپنے رشتے تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔ لہٰذا اس طریقے سے اکثریت اپنے
شریک حیات تلاش کر تو لیتے ہیں لیکن ان کے ساتھ مکمل تعارف نہ ہونے کی وجہ
سے بعد میں کئی ایک مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بیشتر جرائم پیشہ لوگ
لڑکیوں کو سہانے سپنے دکھاتے ہوئے زمین و آسمان کے قلابے ملا کر انہیں ذہنی
طور پر اپنے جال میں پھنساتے ہیں پھر انہیں جائز و ناجائز کاموں میں بھی
استعمال کرتے ہیں جس کے بہت بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اس مجبوری کا
فائدہ اٹھاتے ہوئے رشتے کروانے والوں نے بھی مختلف طریقے اپنا رکھے ہیں، جن
میں اکثریت ایسے ہیں جو صرف طرفین دیہاڑیاں لگانے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ غیر
شادی شدہ لڑکیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور مناسب رشتوں کی قلت ہمارے معاشرے
کا ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جانا ایک فطری
معاملہ ہے جس سے دو خاندان بنتے ہیں مگر ہم نے خود ہی اپنے لیے مشکلات میں
اضافہ کر لیا ہے۔ سن بلوغت کے دس، پندرہ، بیس سال بعد تک بھی ہم اپنے
اسٹیٹس اور سماج کی بے جا رسموں و رواج کو شادی پر فوقیت دیتے ہیں، ملازمت،
اچھا کاروبار، مکان، گاڑی اور دیگر جائیداد بنانے کے بعد شادی کر لینے کو
ترجیح دیتے ہیں مگر تب تک جوانی ڈھلنا شروع ہو چکی ہوتی ہے اور جو آئیڈیل،
میڈیا، فلموں اور ڈراموں نے اذہان و قلوب پر نقش کر دیے ہوتے ہیں اس طرح کے
رشتے تلاش کرنا جُوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ عام طور پر ہمارے سیانے، جوان
لڑکوں کی شادیوں کو موخر کر کے ان بیٹیوں، بہنوں کی شادیوں کو ترجیح دیتے
ہیں جو عمر میں اپنے بھائیوں سے چھوٹی ہوتی ہیں۔ یہ جو نامناسب سا پروگرام
ہے کہ کسی کی بیٹی کو فی الحال اپنے گھر بہو بنا کر نہیں لے کر آنا مگر جلد
از جلد اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے میں پہل کرنا، اس وجہ سے بھی تو رشتوں
میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ جب اﷲ اﷲ کر کے رشتہ ازدواج کو پروان چڑھانے کا
موقع آ ہی جائے تو طرفین کے بے جا مطالبات والا سانپ پٹاری سے باہر آ کر
ڈسنے کی تیاری کر لیتا ہے جس سے غریب اور متوسط طبقے کے خاندان ٹھیک ٹھاک
متاثر ہوتے ہیں بلکہ بقیہ زندگی قرض کی ادائیگی میں مشغول رہتی ہے۔ برادری
ازم، ذات پات جیسے جاہلانہ تصورات کو فروغ دینا بھی رشتوں میں کمی کا سبب
بنتا ہے کہ ہم تو اپنے خاندان، برادری یا مسلک کے علاوہ کسی دوسروں میں
رشتے کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ برادری ازم کو نہ چھوڑنا تو سراسر زیادتی
ہے مگر جہاں تک مسلک کا مسئلہ ہے تو اس ضمن میں کوئی دو رائے ہونی ہی نہیں
چاہیے کیونکہ ہم سب مسلمانوں پر قرآن مجید اورصحیح حدیث جیسی عظیم نعمتیں
موجود ہیں ان کے علاوہ کسی کی باتوں پر دھیان ہی نہ دیا جائے جبکہ رشتے
جیسے حساس مسئلے کے لیے دین اسلام کو مد نظر رکھتے ہوئے قرآن مجید اورصحیح
احادیث کو ہی زندگی میں شامل کرنا چاہیے۔ چھوٹی عمر کی شادی اور تعلیم کا
بے تکا سا بہانہ بھی آڑے آ جاتا ہے کہ ابھی شادی کا کوئی ارادہ نہیں ہے
کیونکہ موصوف یا موصوفہ تو ابھی زیر تعلیم ہے۔ دور حاضر میں ایف۔ اے، بی۔
اے یا اس کے مساوی ڈگری تک تو شادی کا سوچنا بھی نامناسب ہے۔ غور طلب بات
ہے کہ بلوغت کے دس پندرہ سال بعد تک بھی اگر بیٹے یا بیٹی کو رشتہ ازدواج
سے منسلک نہ کیا جائے اس کی ازدواجی زندگی شروع نہ کروائی جائے جبکہ دنیاوی
تعلیم و ڈگریاں حاصل کرنے کے لیے مخلوط تعلیم کے مواقع بھی میسر ہوں، جاب و
ملازمت کے مقامات پر بھی مرد و زن قلیق ہیں، سوشل میڈیا آزاد ہونے کے ساتھ
ساتھ ہم نے اپنے بیٹے یا بیٹی کو بھی آزادی فراہم کر دی ہو، عشق و محبت
والے ڈرامے گھروں میں بڑوں و چھوٹوں کی موجودگی میں دیکھنا جدیدیت تصور کیا
جانے لگے، گھروں میں فلمیں دیکھنے کے لیے ٹی۔ وی، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور سب
سے سہل اور آسانی سے جس مشین میں فلمیں، گانے و ڈرامے دیکھے جا سکتے ہیں وہ
ہے اسمارٹ فونز، اور اکثر ماہانہ رسالے جو سراسر عشق و محبت پر مبنی ہوتے
ہیں یا گھریلو لڑائیاں کروانے کے نت نئے طریقے اور نئی نئی خواہشات کو
ابھارنے والے ہوتے ہیں اس طرح کی سہولیات ہم نے خود ہی پیدا کر کے دی ہوں،
تو پھر کسی بھی قسم کی خرافات پیدا ہو جائیں، کوئی بھی ناخوشگوار واقعات
نمودار ہو جائیں تو بیٹے یا بیٹی سے زیادہ ہم خود گناہگار ہیں۔ کیونکہ درج
بالا سہولیات ہم خود ہی لائے ہیں۔ لہٰذا ان چند سطروں کا حاصل یہ ہوا کہ
صحیح عمر میں نوجوانوں کی شادی کردینے میں ہی عافیت ہوتی ہے۔ اور جملہ
خرابیوں کی بیخ کنی بھی ہو جاتی ہے جن کا ہم نے چیدہ چیدہ ذکر کیا ہے۔
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مردِ ناداں پر کلام نرم و نازک بے
اثر |