معاملہ مَردوں کے کڑے پہننے کا!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
خواتین کو تحفظ دیئے جانے کے نئے بل
پر تُو تُو مَیں مَیں جاری ہے، عمل ہونا تو بعد کی بات ہے، معاملہ کسی حد
تک مذاق کی نذر ہو چکا ہے۔ سب سے پہلے تو مولانا فضل الرحمن نے ممبرانِ
پنجاب اسمبلی کو مشورہ دیا کہ وہ گلے میں ’’زن مرید‘‘ کا کارڈ لٹکا لیں۔
ابھی موصوف کے بیان کی باز گشت سنائی دے ہی رہی تھی کہ آزادی خواتین کے
ہمنواؤں نے زورِ قلم آزمانا شروع کردیا، ابھی ان کے دلائل جاری ہی تھے کہ
رانا ثناء اﷲ ،جو کہ بل مذکور کے محرک ہیں، نے حسبِ روایت ایک بیان داغا کہ
عمران خان بھی اس قانون کی زد میں آسکتے تھے اور انہیں بھی کڑا پہنایا
جاسکتا تھا، (گویا وہ خوش قسمت ٹھہرے کہ یہ نوبت نہیں آئی)۔ چوہدری شجاعت
اور پرویز الہٰی نے بھی کچھ تاخیر سے ہی سہی یہ بیان جاری کر کے ثوابِ
دارین حاصل کرنے کی کوشش کرلی ہے، اور وزیراعلیٰ کے بارے میں یوں گویا ہوئے
ہیں کہ’’ شہباز شریف کو قانون بنانے سے قبل اتنا سوچ لینا چاہئیے تھا کہ ان
کے دونوں ہاتھوں میں کڑے پڑسکتے ہیں‘‘۔ اُدھر شہباز شریف نے مولانا فضل
الرحمن کو فون کرکے اس قانون میں ترمیم کا اشارہ دیا ہے، جواب میں مولانا
صاحب نے بتایا ہے کہ بات شہباز شریف سے آگے بڑھ چکی ہے۔ تاہم وزیراعلیٰ
پنجاب نے کہا ہے کہ میں ’’خادم‘‘ ہوں مذہبی جماعتوں کو منا لوں گا۔
عام خاتون کی بات تو اور ہے ، اپنے ہاں بیوی کے نام پر بھی بھر پور مذاق
کیا جاتا ہے، بہت سے لکھنے والے ایسے ہیں، جو ہمیشہ خود کو ’جورو کا غلام‘
ہی ظاہر کرتے ہیں۔ ضمیر جعفری کا قول ہے کہ’ بیوی کی ہر بات سن لو، مگر
مرضی اپنی کرو‘۔ کرنل محمد خان ہوں یا ابنِ انشاء یا پھر مشتاق احمد یوسفی
، مزاح نگاروں نے خود کو خاتونِ خانہ کے رعب میں ہی ظاہر کیا ہے، اس کا ذکر
احترام سے کیا ہے، اس کے ہر حکم کی تعمیل کا اشارہ دیا ہے۔ یوں جانئے کہ
اگر کوئی خود کو سب سے زیادہ ’زن مرید‘ ظاہر کرتا ہے تو وہ ہمارا مزاح نگار
ہے۔ اس سے ایک باریک نکتہ یہ بھی برآمد ہوتا ہے، کہ وہ لوگ جہاں لوگوں کو
خوش کرنے کے لئے الفاظ کو مزاح میں ڈھالتے ہیں، وہاں وہ خود کو مذاق کے لئے
پیش کرکے دوسروں کے مذاق کا نشانہ بھی بنتے ہیں، تاہم باریک بین قاری ایسے
مصنفین کی نکتہ آفرینیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اپنے ہاں یہ روایت بھی
پائی جاتی ہے کہ اگر کسی نے باتوں ہی باتوں میں خاتونِ خانہ کے حق میں کوئی
بات کردی تو یار لوگوں نے اس کے گلے میں رن مریدی کا طوق ڈالنے میں ایک
لمحہ کی تاخیر سے بھی کام نہ لیا۔ جب بات مذاق میں نہ ہور ہی ہو تو عام
حالات میں رن مریدی ایک بہت طعنہ ہے۔ عورت کے بِنا تو کائنات ادھوری ہے،
مگر ہم لوگ اس سے بہت حد تک امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ بعض لوگ اب بھی بیٹی کی
پیدائش سے پریشان ہوجاتے ہیں، خاص طور پر جب صرف بیٹیاں ہی ہوں یا زیادہ
بیٹیاں ہوجائیں، تو گھر میں لڑائی کے آثار نمایاں ہوجاتے ہیں۔ اگر خاندان
زیادہ غریب ہو اور بدقسمتی سے جہالت کا عمل دخل بھی ہو تو یہی بیٹیاں جن کو
اﷲ تعالیٰ نے رحمت قرار دیا ہے اور ان کی صحیح پرورش کرنے پر انہیں جنت کی
نوید سنائی ہے، ان کی وجہ سے گھریلو لڑائی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ معاملہ
خود کشی یا پھر علیحدگی وغیرہ تک پہنچ جاتا ہے۔ بہت سے بدقسمت (بدبخت) لوگ
بیٹیوں اور بہنوں کو ان کا وراثتی حق بھی نہیں دیتے، وہ دنیا کی لالچ میں
نہ صرف اپنی بیٹی یا بہن کا حق مارتے ہیں اور اپنی عاقبت خراب کرلیتے ہیں۔
مگر یہاں معاملہ کچھ گڑ بڑ سا ہے۔ رانا ثناء اﷲ کا اندازہ ہے کہ اگر یہ
قانون ریحام بیگم کے ہوتے بن جاتا تو عمران خان کو کڑے پہننے پڑتے۔ اس میں
کسی اور کا نہیں ، رانا صاحب کا قصور ہے، وہ قانونی طریقے سے عمران خان کو
قابو نہ کر سکے۔ مگر معاملہ اس سے بھی بڑھ کر یہ ہوا کہ اب چوہدری پرویز
الٰہی بھی میدان میں آگئے اور بتایا کہ شہباز شریف کو سوچ لینا چاہئے تھے
کہ ان کے دونوں ہاتھوں میں کڑے پڑ سکتے ہیں۔ چوہدری صاحب کی یہ بات قابلِ
غور ہے ، کیونکہ چوہدری صاحب میاں شہباز شریف کو بہت پرانا جانتے ہیں، بہت
حد تک گھر کے بھیدی بھی ہیں، یقینا شہباز شریف نے نئے حالات کو مدنظر رکھ
کر ہی قانون بنوایا ہوگا، ورنہ اپنے پاؤں پر خود کون کلہاڑی مارتا ہے۔ |
|