قیام پاکستان سے آج تک نظام تعلیم کو بہتر
بنانے میں ہم بری طرح ناکام رہے تعلیم اور صحت ملک و قوم کی ترقی مین
بنیادی حیثیت کی حامل ہوتی ہیں۔ہماری بد نصیبی ہے کہ ہم نے اس شعبے کو غیر
اہم جان کراس کے ساتھ سوتیلی اولاد جیسا رویہ رکھا ہے ہو ا ہے ـــ․․،،سب
ٹھیک ہے ،پہلے سے بہتری آئی ہے،، جیسے جملے کہہ کر ہم نا صرف عوام کو بے
وقوف بنا رہے ہین بلکہ اپنی نسلوں کو پستی کی طرف دھکیل رہے ہیں ملک کی
پالیسی مرتب کرنے والے جب دوہری شخصیت کے حامل ہوں اور انکے بچے بیرون ملک
تعلیم حاصل کر رہے ہوں تو قوم کے بچوں کا مستقبل تاریکی میں ڈوب جائے کسی
کو کیا ؟ مغربی ممالک اگر ترقی یافتہ ہیں تو اس کے پیچھے ان کی علم کی
اہمیت سے آگاہی ہے ۔بیرونی نادیدہ طاقتوں کے اشاروں پر ناچنے والے مٹھی بھر
افراد تعلیم کے زوال پذیر ہونے کا سبب ہیں اور یہ اپنے بیرونی آقاوں کی
خوشنودی کے لیئے ملک و قوم کو تباہی کے دہانے پر لے آئے ہیں جب مملکت
پاکستان میں ہر شعبے مین کرپشن عروج پر ہے ایسے میں شعبہ تعلیم و صحت کو سب
سے زیادہ نقصان پہنچا ہے ۔
بد عنوانیاں سرکاری اور نجی اسکول دونوں ہی مین ہیں مگر پرایؤیٹ اسکولز کو
نسبتنا زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔گزشتہ دنوں فیسوں کا معاملہ زبان
زد عام تھانجی اسکول فیسوں مین اضافہ کررہے ہیں نجی اسکول انتظامیہ پر کڑی
تنقید کی گئی مگر یہ معاملہ یک طرفہ نہیں فیسوں میں اضافے کی ذمہ دار اسکول
انتظامیہ ہی نہیں ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اس کا اصل ذمہ دار ہے ڈاریکٹوریٹ کی
اجازت کے بغیرکوئی اسکول نہ فیس مقرر کرسکتا ہے نہ ہی اضافہ کرسکتا
ہے۔اسکول کی رجسٹر یشن ہی سے کرپشن کا آغاز ہو جا تا ہے جب بھاری رشوتوں کے
عوض من چاہے فیس مقر کروالی جاتی ہے ایجوکیشن دیپارٹمنٹ اس کی زمہ دار ہے
وہ چاہے تو اس کرپشن کو روک سکتا ہے با آسانی قابو پا سکتا ہے
ــ،، جو چاہو سو آپ کرو ہو ہم کو عبث بدنام کیا،،
اسکے علاوہ امتحانی مراکز کی تقسیم کا معاملے پر بندر بانٹ معمول بن گیا ہے
گزشتہ دنوں بورڈمیں کئچھ افسران کی ا ٓپس مین تلخ کلامی اور پھر آتشی اسلحے
کے استعمال کی خبرین آیئں تھی وہ جھگڑا بھی غالباً امتحانی مراکز کی تقسیم
پر تھا اخبارات میں خبرین بھی آیئں مگر کوئی ایکشن یا تحقیقات نہیں کروائی
گئی لگتا ہے بد عنوان افسران کو بڑے بڑوں کا آشیر باد حاصل ہے ۔
ہر بات کے لیئے مورد الزام اسکول انتظامیہ کو ٹہرانے کی پالیسی ختم کرنا ہو
گئی اور بہت دیانتداری سے اس نظام کو درست کرنا ہو گاکچھ تجاویز ہیں ہو
سکتا ہے ان پر عمل کرکے ہم نظام تعلیم مین کئچھ بہتری لا سکیں یہ بات درست
ہے کہ راتوں رات سب ٹھیک نہیں ہو گا مگر آغاز تو کریں 1۔۔امتحانی مراکز ان
اسکولز مین قائم کیئے جایں جہاں کمرے نصب ہیں
2۔بذریعہ کیمرہ ان مراکز کو آن لائن کیا جائے جیسے سٹی گورنمٹ مین با قا
عدہ ایک شعبہ ہے اور فعال کردار ادا کررہا ہے۔
3۔ایک کنٹرول روم بنایا جائیے جہاں سے امتحانی مراکز کو کنٹرول کیا جائے۔
4۔ویجیلینس ٹیمو ں میں اضافہ کیا جائے۔
5۔ امتحانی پرچے کے روایتی پیٹرن کو تبدیل کیا جائے۔
6۔اسٹینڈ بائی مراکز ڈسٹرکٹ یا ٹاون کی سطح پر قائم کئے جائیں تا کہ نقل کی
شکایت کی صورت میں ہنگامی طور پر طلباء و طلبات کو وہاں منتقل کیاجاسکے۔
ایک مسئلہ اور توجہ طلب ہے کہ بورڈ سینٹرل میں ہے جبکہ کافی مراکز یہاں سے
خاصے فاصلے پر ہیں پرچہ مراکز تک دیر سے پہنچتاہے اور جو قریب مرکز ہین
وہاں فوراًپہنچ جاتا ہے اس طرح پرچہ آوٹ ہو نے کے خطرات بڑھ جا تے ہین
امتحا نات کے دوران ٹاون یا دسٹرکٹ سطح پر مراکز قائم کیئے جا ئیں کوشش کی
جائے کہ ویجیلینس ٹیمں بھی اسی طرح ڈسٹرکٹ یا ٹاون کی سطح پر رکھی جائیں
تاکہ شکایت کی صورت مین فوری طور پر اقدامات کیئے جا سکیں۔یہ اور اس سے بہت
سے مثبت اقدامات کے زریعے رفتہ رفتہ اس عمل کو شفاش بنانے مین کامیاب ہو
جایئں گے ۔اگر ہم چاہین تو سب ممکن ہے عملی اور ایماندارنہ مثبت اقدامات کر
کے اس عمل کو شفاف بنایا جاسکتا ہے اگر بات محض بیانات کی حد تک رکھنی ہے
تو سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔مگر اب ضرورت اس امر کی ہے کہ بیانات اور
تصوراتی دنیا سے ہاہر نکل کر عملی اقدامات کرنے ہونگے۔ |