صارفین کے حقوق کا عالمی دن اور آگاہی مہم

دُنیا بھر میں 15 مارچ کو صارفین کے حقوق کا عالمی دن منایا گیا جس کا مقصد صارف کو اپنے بنیادی حقوق کے متعلق آگاہی فراہم کرنا تھا جو کہ 1962 ء سے امریکی صدر جان ایف کینڈی کی کوششوں کا نتیجہ ہے جس کے سلسلے میں 15مارچ1983 سے اس دن کو ہر سال باقاعدگی کے ساتھ منایا جاتا ہے اور حکومتی سطح پر سیمینار منعقد کئے جاتے ہیں مگر افسوس ہے کہ پاکستان میں حکومتی سطح پر کوئی قابل ذکر سیمینار یا آگاہی مہم نہیں چلائی گئی اس کے ساتھ ساتھ خواتین کے عالمی دن اور ویلنٹائن ڈے کے موقع پر دن رات واویلا کرنے والا میڈیا بھی خاموش رہا جیسے کہ اس دن کی کوئی اہمیت ہی نہیں یوں پاکستان میں یہ دن خاموشی سے آیا اور خاموشی سے چلا گیاویسے تو پاکستان میں کنزیومر رائٹس کمیشن آف پاکستان اور صارف عدالتیں موجود ہیں مگر صارف کو اس کا جائز حق پہنچانے میں یکسر ناکام ہیں جس کی بنیادی وجہ پاکستان میں شرح خواندگی کی کمی ہے جس کی بدولت آج بھی لوگ اپنے آپ کو وڈیرہ شاہی کے غلام گردانتے ہیں اور اپنے حقوق کے لئے لڑنے سے قاصر ہیں اس سلسلے میں حکومت کو چاہئے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر صارفین کے حقوق کی حفاظت کے لئے گھر گھر آگاہی مہم کا آغازکرے اور لوگوں کو اپنے حقوق کے متعلق معلومات دی جائے تا کہ پاکستان میں موجود گراں فروشوں اور ذخیرہ اندوزوں کی بیخ کنی ہو ، مارکیٹ کمیٹی کو پوری طرح فعال کیا جائے ، ڈی سی اوز اور سپیشل مجسٹریٹس کو مکمل اختیار دیے جائیں جس کی بدولت وہ جرم کی نوعیت کی بدولت موقع پر جرمانے اور سزائیں دے سکے کسی وزیر یا مشیر کا عمل دخل نہ ہو اس کے ساتھ ساتھ چھاپہ مار ٹیم کے اُوپر بھی ایک ٹیم بنائی جائے جو خفیہ طور پر اُن کی نگرانی کرے کہ کہیں کوئی رشوت ستانی کا مرتکب تو نہیں ہو رہا کسی کو بھی رعایت نہ برتی جائے مگر یہ صرف اور صرف اُسی صورت ممکن ہے جب حکومت اور عوام دونوں مل کر یہ عائدہ کریں کہ ملاوٹ ، ذخیرہ اندوزی، گراں فروشی، حق تلفی سے گریز کریں گے لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا کیونکہ حکومت او ر مافیا چاہتے ہی نہیں کہ پاکستانی صارف کو اپنے حقوق کا علم ہو ہر فرد لُوٹ کھسُوٹ کا بازار گرم کر کے بیٹھا ہوا ہے ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ دوسرے کا حق مار لے ، میٹر ریڈر ریڈنگ غلط لیتا ہے، دکاندار پورے پیسے لے کر کم تولتا ہے، پھل فروش صحیح پیسے لے کر گلے سڑے پھل دیتا ہے، درزی اپنے لئے کپڑا بچانے کی خاطر گاہک کا کپڑا خراب کر دیتا ہے، پیٹرول والا کم مقدار میں پیٹرول ڈال دیتا ہے، بسوں ، ویگنوں، رکشوں والے من مانا کرایہ وصول کرتے ہیں یعنی کے پورا آوے کا آوے ہی بگڑا ہوا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں جہاں اس قدر صارفین کا حق مارا جارہا ہو وہاں کس منہ سے صارفین کے حقوق کے تحفظ کے دن کو منایا جا سکتا ہے؟ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور دنیا نے 1962 میں صارف کے حقوق کی بات کی ہے مگر اسلام نے 14 سو سال قبل صارفین کے حقوق کی بات کر دی تھی قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ ’’اور جب کوئی چیز ناپ کر دینے لگو تو پیمانہ پورا بھرا کرو اور جب تول کر دو تو ترازو سیدھی رکھ کر تولا کرو، یہ بہت اچھی بات اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت بہتر ہے (الِاسراء- 35 )‘‘ مگر ہم مسلمانوں خاص کر پاکستانیوں نے قرآن سے دوری اختیار کی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہمیں دوسروں کے بنائے ہوئے قانون پر عمل کرنا پڑتا ہے وہ بھی اُس صورت میں کہ اگر عمل کرنے والے کا اپنا مفاد شامل ہو اس لئے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عوام پر بھی ذمہ داری لاگو ہوتی ہے کہ وہ اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے احکامات پر عمل در آمد کریں تا کہ ایسے کسی قانون کی بھی ضرورت محسوس ہی نہ ہو ***
M.Irfan Chaudhary
About the Author: M.Irfan Chaudhary Read More Articles by M.Irfan Chaudhary: 63 Articles with 59489 views I Started write about some serious issues and with the help of your feed back I hope I will raise your voice at the world's platform.. View More