دنیا کی تاریخ بتاتی ہے اگر آپ اسے پڑھنے
کی زحمت کرو تو۔۔۔۔۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ کوئی جاہل شخص کبھی قانون کی
پرواہ نہیں کرتا ۔۔۔۔۔ قانون نافذلعمل تب ہوتا ہے جس پر نافذ کیا جائے وہ
خود پہلے سے باشعور ہو۔ اور باشعور ہونے کے لئے اچھی تعلیم کی فراہمی بھت
ضروری ہے ورنہ کوئی بھی قانون بن تو جائے گا اور لوگوں کو اسکے مطابق
سزائیں بھی ہوں گی لیکن لوگ اسے من و عن اپنے اوپر نافذ نہیں کریں جب تک
قوم یا افراد بہترین تعلیم کے ذریعے باشعور نہیں ہوں گے۔۔ اگر تعلیم کے
بغیر قوانین کا نفاذ اتنا ہی آسان ہوتا تو محسنٍ انسانیت ہمارے نبی کریم
حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کبھی یہ نہ کہتے کہ علم حاصل کرو خواہ
اس کے لئے تمھیں چین بھی جانا پڑے۔۔۔ لوگوں کو دوسروں پر تشدد سے جبری طور
پر روکنا اس لئے نا ممکن ہے کیونکہ جن لوگوں کا وہ سرپرست ہوتا ہے وہ انہیں
اپنے دائرہ اختیار باہر جانے کی اجازت نہیں دیتا یعنی کہ وہ اپنے اختیارات
سے دستبردار نہیں ہونا چاہتا۔ اسکا واحد حل یہی ہے کہ اسے ماں کی گود سے
قبر کی گور تک اسے ایسی تعلیم اور علم سے آراستہ کیا جائے جس وہ اپنی
انفرادی زندگی میں تشدد کو باہر نکال دے۔۔۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ تعلیم
انسان کا زیور ہے اور جس کے پاس یہ زیور نہیں وہ انسان نہیں۔۔۔۔۔ اگر ریاست
قوم یا عوام کو اعلی تعلیم اور بہترین طبی سہولیات بہترین طریقے سے مہیا
کردے تو افراد اور معاشرے کو سماجی ، معاشرتی اور معاشی طور پر کوئی خطرات
لاحق نہیں ہوں گے۔۔ بلکہ تعلیم یافتہ افراد اپنے رویوں سے ہی دوسرے افراد
کو تحفظ فراہم کریں گے۔۔۔۔ اسطرح ریاست کی زمہ داریاں بھی کم ہوں گی جس سے
ریاست اپنی توجہ اور طاقت دوسرے فلاحی اور معاشی منصوبوں پر اچھی طرح صرف
کرے گی۔۔۔۔۔ مختصراً یہ کہ خواتین تحفظ بل کبھی بھی غیر تعلیم یافتہ اور
بیمار ذہن معاشرے پر لاگو کیا ھی نہیں جاسکتا جب تک کہ اس معاشرے کو تعلیم
یافتہ ، باشعور اور صحت مند معاشرہ نہیں بنایا جاتا----
میری کتاب سے ازخود احسن نواز |