تعلیمی اداروں میں اسلحے کی اجازت نہ دی جائے
(عابد محمود عزام, Karachi)
کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی کا راز تعلیم
میں پنہاں ہوتا ہے۔ دشمن ہمیں تعلیم سے محروم کر کے ترقی سے محروم رکھنا
چاہتا ہے،اسی لیے دشمن نے ہمارے تعلیمی مراکز کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔
پہلے پشاور میں آرمی پبلک اسکول کو نشانہ بنایا، اس کے بعد چارسدہ میں باچا
خان یونیورسٹی سمیت دیگر کئی تعلیمی اداروں پر دہشتگردانہ حملے کیے، جس کے
بعد حکومت کی جانب سے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں حفاظتی انتظامات کے لیے
طلبہ و طالبات اور اساتذہ کو اسلحہ چلانے کی تربیت دی جانے لگی۔ کراچی میں
اساتذہ اور طلبہ و طالبات کو ہتھیار چلانے کی تربیت دی گئی۔ اس سے پہلے
خیبرپختونخوا میں بھی خواتین اساتذہ کو پستول چلانے کی عملی تربیت دی گئی
تھی۔ حالات کی ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کی پہلے اساتذہ اپنے شاگردوں کو
ہتھیار سے دور رہنے کی تاکید کیا کرتے تھے ، لیکن آج ان ہی اساتذہ کے
ہاتھوں میں ہتھیار تھمائے جا رہے ہیں۔کہنے کو تو طلبہ و طالبات کی حفاظت کے
لیے یہ ایک اچھا اقدام ہے، لیکن اس سے نہ صرف تعلیمی اداروں کا تقدس
ملیامیٹ ہوکر رہ جائے گا، بلکہ تعلیمی نظام بھی درہم برہم ہوسکتا ہے۔ قلم
اور اسلحہ دو متضاد چیزیں ہیں، دونوں کی اثرات و نتائج بھی مختلف ہوتے ہیں۔
قلم امن کی نشانی ہے، جبکہ اسلحہ بدامنی کی علامت ہے۔ تعلیمی اداروں میں
اسلحے کی تربیت سے ہم امن کے مراکز میں بدامنی کو جگہ فراہم کر رہے ہیں۔
تعلیمی ادارے صرف تعلیم کے لیے ہی ہوتے ہیں، اگر تعلیم کے ان مراکز میں
اسلحے کی تربیت دی جانے لگے گی تو اس سے مزید مسائل جنم لیں گے۔ تعلیمی
اداروں میں اسلحہ کی نمائش اور اس کے استعمال کی تربیت سے ہمارے طلبہ و
طالبات نفسیاتی مریض بن سکتے ہیں۔
ناپختہ عمر میںبچے جو دیکھتے ہیں، ان کے ذہن کی خالی تختی پر وہی کچھ ثبت
ہوجاتا ہے۔ اگر بچپن سے ہی انھیں اسلحے کا استعمال سکھا دیا جائے گا تو اس
سے ان کی نفسیات بدل جائےں گی۔ جب وہ پستول چلانا سیکھ جائیں گے تو اس بات
کا خدشہ قوی ہوجائے گا کہ جہاں پہلے وہ برداشت اور درگزر سے کام لیتے تھے،
اب وہاں بھی وہ اپنی بات منوانے کے لیے زورآزمائی کرنے لگیں اور اس بات کی
گارنٹی کون دے گا کہ طلبا ایسی تربیت کا استعمال صرف دہشت گردی جیسی غیر
معمولی صورتحال میں ہی کریں گے اور وہ اپنے نجی جھگڑے نمٹانے کے لیے اسلحے
کو استعمال نہیں کریں گے۔ اسلحہ ایسی بری چیز ہے، کسی سے لڑائی جھگڑے کی
صورت میں نہ چاہتے ہوئے بھی انسان غصے میں اس کا استعمال کرلیتا ہے اور پھر
نقصان پہنچنے پر بعد میں پچھتاتا ہے۔ بچوں کو چاہے صرف تربیت ہی دی جائے
اور اسلحہ نہ بھی دیا جائے، تب بھی اسلحہ چلانے کے تجربے سے ان کے لیے
ہتھیار اجنبی نہیں رہیں گے اور اسلحے خوف ان کے دل سے نکل جائے گا اور پھر
جب بھی وہ ہتھے چڑھے اسے استعمال کر سکتا ہے اور اس طرح وہ دوسروں کو بھی
نقصان پہنچا سکتا ہے۔ نوبت یہاں تک بھی پہنچ سکتی ہے کہ کتابوں، کاپیوں کے
ساتھ ساتھ طالب علم کے بستے میں پستول بھی ہوگی، جو اسکول میں کسی سے
معمولی لڑائی کی صورت میں بھی استعمال ہوسکتی ہے۔
اگر اسکول کے بچوں کو ہم خود اسلحہ چلانے کی مشق کرائیں اور وہ بھی ایسے
معاشرے میں جہاں پہلے ہی اسلحے کی فراوانی ہے، تو وہاں ایسی ترغیبات جلتی
پر تیل کا کام کر سکتی ہیں۔ آج کے مہذب دور میں ہمیں ”اسلحے سے پاک معاشرہ“
قائم کرنا چاہیے۔ جہالت کا مقابلہ علم و شعور اور دہشت گردی کا مقابلہ قلم
اور کتاب سے کیا جاتا ہے۔ اسلحہ کا مقابلہ اسلحے کے ذریعے کرنا سپاہیوں کی
ذمہ داری تو ہے، لیکن طلبہ و طالبات کو اسلحے کا مقابلہ قلم اور کتاب کے
ذریعے ہی کرنا ہے۔ دہشتگردی کو صرف اور صرف تعلیم کو فروغ دے کر ہی شکست دی
جاسکتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس جہالت کے خلاف تعلیم کے محاذ سے روشنیاں
پھیلانے کا ہی فریضہ اور زیادہ وسیع پیمانے پر ادا کریں۔ اگر تعلیمی ادارے
بھی ہتھیاروں کو استعمال کرنے لگیں تو اس طرح ہمارے ہاتھوں میں اسلحہ تھما
کر دہشت گرد اپنے ناپاک عزائم میں کام یاب ہوجائیں گے۔ اساتذہ اور طلباءکے
ہاتھ قلم کے لیے ہوتے ہیں، بندوق کے لیے نہیں ہوتے۔ تعلیمی مراکز دہشتگردوں
کا مقابلہ کرنے کے لیے نہیں ہوتے، بلکہ تعلیم دینے کے لیے ہوتے ہیں، لیکن
اگر تعلیمی اداروں کو دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بنادیا جائے تو اس
سے براہ راست تعلیمی کارکردگی متاثر ہوگی۔
اس حقیقت سے بھی انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ اسکول کے بچے اور اساتذہ ان
تربیت یافتہ دہشت گردوں کا مقابلہ کس طرح کرسکتے ہیں، جو کئی حساس اور اہم
سیکورٹی کے مقامات پر کامیابی سے حملے کرچکے ہیں؟ دہشت گرد بتا کر نہیں
آتے، بلکہ وہ اچانک اور پوری تیاری کے ساتھ حملہ آور ہوتے ہیں۔یہ کیسے ممکن
ہے کہ اساتذہ بلٹ پروف لباس میں ملبوس، کاندھوں پر اسلحہ لٹکائے، کمر پر
کارتوس بندھے اور ہاتھ میں قلم ہو اور نگاہیں کلاس روم کے دروازے پر لگی
ہوں اور طالبا و طالبات بھی اسی طرح اسلحے سے لیس ہوں اور ساتھ تعلیم بھی
حاصل کر رہے ہوں، یہ ناممکن ہے۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ دہشت گرد
بازاروں، چوراہوں اور مذہبی اجتماعات سے ہوتے ہوئے اب درسگاہوں میں داخل
ہوچکے ہیں، جن کو شکست دینا انتہائی ضروری ہے، لیکن اس کا حل یہ نہیں کہ ان
سے مقابلے کے لیے ہم اپنے بچوں کے ہاتھ میں اسلحہ تھما دیں۔ تعلیم دینے اور
لینے والوں کو ایسی سرگرمیوں میں الجھانے کی بجائے سیکورٹی کا مناسب انتظام
ہونا چاہیے۔ شہریوں کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اپنی حفاظت کے لیے خود
ہی اسلحہ اٹھا کر میدان میں آجانا ہرگز مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔ |
|