بنک کا دروازہ کھلااور ایک درمیانی عمر کا
جوان اندر داخل ہوا اس جوان کے ہاتھ میں کالے رنگ کی تسبیح تھی جب کہ چہرے
پر موجود کالی داڑھی اس کی وجاہت میں مزید اضافہ کر رہی تھی ۔ دروازے کے
پاس ہی کھڑے ہوکر اس نے آس پاس ایسے دیکھا جیسے یہ بنک میں پہلی بار آیا
ہو۔چوکیدار نے اس کی گھبراہٹ کو بھانپ لیا اوراس سے کچھ پوچھنے کے بعد ایک
طرف جانے کا اشارہ کیا ۔ اس جوان نے چوکیدار کے بتائے ہوئے راستے پر جاتے
ہوئے کاؤنٹر پر بیٹھے بنک اہلکار کو اپنا مدعا بیان کیا تو بنک اہلکار نے
ایک پرچی پر کچھ لکھ کر اسے تھما دیا ۔ اس پرچی کو لے کر یہ جوان اس لائن
میں کھڑا ہو گیا جہاں پہلے ہی 15افراد کھڑے تھے ۔ لائن میں کھڑے ہوکر نہ اس
نے ٹائم دیکھا اور نہ ہی بے چینی سے ادھر ادھر دیکھ کر اپنا پسینا صاف کیا
بل کہ اس کی انگلیاں مسلسل تسبیح کے دانوں پر چل رہی تھی اور ہونٹ کچھ
پڑھتے ہوئے ہل رہے تھے ۔ اسی اثناء میں یہ آگے جاتا رہا اورلائن میں اس کی
پوزیشن تھوڑا آگے آچکی تھی لیکن پھر بھی اس کی باری آنے میں ابھی آٹھ افراد
کا فاصلہ تھا ۔
بنک کے دروازے پر کھڑے چوکیدار کے پرجوش سلام نے بنک کے اندر برجمان سکوت
کو توڑااور بنک کا دروازے سے ایک کوٹ ٹائی میں ملبوس شخص بنک میں داخل ہوا
اس کے ہاتھ میں بریف کیس تھا جسے دیکھتے ہی بنک مینیجر اپنی سیٹ سے اٹھا
اور آگے بڑھ کر اسے خوش آمدید کہا ۔ اسے اپنے سامنے والی سیٹ پر بٹھا یا
اور چپڑاسی کو پانی لانے کا کہاجسے مینیجر نے خود دیا اور اس فرد کے سامنے
ایسے بیٹھ گیا جیسے کس دور میں طالب علم استاد کے سامنے بیٹھتے تھے ۔
خیر بنک مینیجر نے آن لائن پیسے کروانے والے کاؤنٹر سے پرچی خود اٹھائی اور
اس پرچی کواپنے ہاتھوں سے مکمل کرنے کے بعد بریف کیس میں سے پیسے نکالے جو
اندازاًلاکھوں میں تھے ۔ مینیجر اپنی سیٹ سے اٹھا اور پرچی اور رقم لے کر
آن لائن پیسے جمع کروانے والے کاؤنٹر پر آیا اور آٹھ افراد کی اس لائن کو
خاطر میں نہ لاتے ہوئے سب سے آگے پہنچ گیا ۔ لائن میں گھنٹوں کھڑے کسی شخص
کے منہ سے اس’’ برابری‘‘ پر ایک لفظ نہ نکلا بل کہ لاکھوں روپوں ، مینیجر
اور لحیم شحیم شخص کی وجہ سے ان افراد نے کمپرومائز کرلیا جو گھنٹا یہاں
کھڑے ہوکرکبھی ناگواری سے وقت دیکھتے ، کبھی پسینا صاف کرتے اور کبھی
تھکاوٹ ظاہر کرنے کے لیے ایک سے دوسری ٹانگ اور پھر دوسری سے پہلی ٹانگ پر
کھڑے ہوتے لیکن انھی افراد میں تسبیح اور داڑھی والا وہ شخص جو پہلے نہ بے
چین تھا نہ تھکا تھا اور نہ ہی گرمی سے پسینا صاف کر رہا تھا اب اس’’
برابری ‘‘پر بے چین سا ہوکر مینیجر کو تاڑ رہا تھا ۔ اپنی جگہ سے ہلا اور
سب سے آگے مینیجر کے پاس گیا اور اسے اس کی اس برابری پر یاد دہانی کروائی
اور اپنی اور لائن میں کھڑے افراد کا احساس دلوانے کی کوشش کی۔ مگر مینیجر
نے ایک نہ سنی اور پیسے جمع کروا کر اس لحیم شحیم شخص کو پرچی تھما ئی اور
اس شخص کو دروازے تک رخصت کیا۔مینیجر کی خاموشی سے ملتے جواب کو سن کر وہ
تسبیح اور داڑھی والا شخص دوبارہ اپنی جگہ پر آگیا اور لائن میں کھڑے لوگوں
کو اس زیادتی پر احتجاج کرنے کوکہا، مینیجر کی برابری کا قصہ ان کو سنایا
جو سب کچھ دیکھنے کے باوجود آنکھیں بند کیے ہوئے تھے ۔ مگر ان آٹھ افراد
میں سے کوئی بھی نہ بولاجب کہ ایک دو نے طنزاً مسکرا کر اسے آنکھوں ہی
آنکھوں میں پاگل کا لقب دے دیا۔
خیر بنک میں ایک بار پھر سکوت طاری ہو گیا اور مہروں کی ٹھک ٹھک کی آوازوں
نے بنک کو اپنے حصار میں لے لیا۔ اسی دوران آٹھ بندوں میں سے ایک بندا اپنی
رقم جمع کروا کر جیسے ہی لائن سے نکلا یہ داڑھی اور تسبیح والا نوجوان آگے
بڑھا اور کیشئر کو اپنی پرچی بڑھا کر رقم بھی دی ۔ لائن میں کھڑے سب افراد
ایک دم حیران رہ گئے ان کے بولنے سے پہلے ہی کیشیئر نے اس فرد کو برابری
اور نظم و ضبط کا درس دیااور نسبتاًکرخت لہجے سے اپنی باری کا انتظار کرنے
اور اپنی باری پر آنے کا کہاجس پر اس شخص نے مسکراتے ہوئے ایک منٹ پہلے
ہونے والے واقعہ کی طرف اشارہ کیا اور رقم کیشئیر کو تھما دی ۔ اس پر کیشیر
کیا بولتا کیا اعتراض کر تا کیوں کہ وہ خود نظم و ضبط ایک منٹ پہلے توڑ چکا
تھااور یہ کس منہ سے اس فرد کو اپنی باری پر آنے کا کہتا یہ تو ایک منٹ
پہلے پروٹوکول میں باری والا قانون توڑ چکا تھا، ہاں اگر یہ بات گھنٹوں
پہلے ہوتی تو وہ بھی بھول چکا ہوتا اور آس پاس کے لوگ بھی ۔ویسے بھی بے حسی
جب حد سے تجاوز کرجائے تو انگلیاں دوسروں پر ہی اٹھتی ہیں ۔خیر کیشیر نے
ناگواری سے اس داڑھی اور تسبیح والے فرد کو دیکھا اور پھر کھسیانی نگاہوں
سے مینیجر کی طرف دیکھا مگر مینیجر کی طرف سے کسی قسم کا کوئی اشارہ نہ پا
یا اور مینیجر نے ایسا ظاہر کیا کہ جیسے وہ سب کچھ دیکھے لاعلم ہو ۔ سب کچھ
دیکھ کر لاعلم ہونا بھی اب ہماری رگوں میں اتنا سرایت کر گیا ہے کہ اب غلط
کام پرچند منٹ کا افسوس یا آہ بھی نہیں ہو سکتا ہے ،شاید کہ ہم اپنی اصلاح
نہیں چاہتے ہیں یا شاید ہم اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ ہم زیادتی دیکھ کر صرف
چند منٹ کی آہ بھی اب نہیں کر پا رہے ۔
خیر کیشیر نے اس داڑھی اور تسبیح والے جوان کے پیسے جمع کیے رسیدوں پر
مہریں لگائیں کچھ اپنے پاس رکھی اور کچھ رسیدیں اس فرد کو دے دیں۔اس جوان
نے رسیدیں جیب میں ڈالی اور سلام کرکے بنک کے دروازے سے باہر نکل گیا مگر
اس بار اس فرد کے جانے کے بعد نہ چوکیدار چپ رہا نہ مینیجر نہ کیشیر اور نہ
ہی لائن میں کھڑے سات افراد ۔۔۔۔۔دیکھو اسے شرم بھی نہیں آتی ہے ۔۔۔ یہ ہم
مسلمانوں کا حال ہے۔۔۔ملک میں آفتیں نہ آئے تو اور کیا آئیں۔۔۔ اسے احساس
ہی نہیں ہم گھنٹا سے اس لائن میں کھڑے ہوئے ہیں ۔۔۔یہ نا انصافی ہے ، یہ
زیادتی ہے ، احساس نام کا نہیں رہا ۔۔۔ہاتھ میں تسبیح ایسے پکڑی ہوئی ہے
جیسے بہت بڑا پارسا ہو۔۔۔داڑھی تو دیکھتے نا ذرا۔۔۔اس سے تو بہتر ہم ہیں کہ
ہمارے ہاتھ میں نہ تسبیح ہے نہ چہرے پر داڑھی ہے مگر کم از کم ہم اتنے بے
ایمان نہیں کہ سات بندوں کا حق مار یں۔۔۔
کرنے والے کر گئے ،بولنے والے بول کر چپ ہوگئے سننے والے سن کر بہل گئے مگر
یہ ہے کہ ان بولنے والوں نے تو بول لیا سننے والوں نے تو سن لیا مگر بدنام
اسلام ، داڑھی اور تسبیح ہی ہوئی ۔ |