انقلاب یا اصلاحات
(Muhammad Shoaib Tanoli, )
ہم ایک عجیب کشمکش کا شکار ہجوم ہیں ـ ابھی
تک قوم نہیں بن سکے ـ آج بھی ہم ایک دوسرے کے وجود سے انکاری ہیں ـاپنی
نسلی قومیت کو پاکستانیت پر ترجیح دیتے ہیں ـ ہماری جغرافیائی وحدت ، مذہبی
یکسانیت اور ثقافتی مماثلیت بھی ہمیں قوم نہ بنا سکی ـ اس کے پیچھے بہت
سارے محرکات اور وجوہات ہیں ـ جیسے ہماری انانیت ، ذاتی مفادات کو قومی
مفادات پر ترجیح ، کرسی کی جنگ ، بالا دستی کی جنگ ، قوم پرستی کا ناجائز
استعمال ، مذہب اورسیاست کو کرسی کے حصول کے لیے استعمال کرنا ، خود کو
مظلوم اور دوسروں کو ظالم ثابت کرنے کے لیے الزام تراشی اور بے بنیاد
پروپیگنڈا کرنا ، سیاست کے نام پر فریب ، دھوکہ دہی ، جھوٹ اور شیطانی
کہانیوں سے کام لینا ، بیرونی طا لع آزماوں کی پشت پناہی ، اور اپنی نظریات
کو دوسروں پر مسلط کرنےکی روش ـ اس طرح نظام تعلیم کا یکساں نہ ہونا ،
معاشی نا ہمواری ، کرپشن اور انصاف کی عدم فراہمی نے اس ملک کو کافی نقصان
پہنچایا ـ ایک غیر یقینی ، حبس زدہ اور گھٹن زدہ ما حول کے اندر پاکستانی
مایوسی کا شکار نظر آتے ہیں ـ ہمیشہ مسیحا کی تلاش میں رہتے ہیں ـ مسیحا سے
لامحدود توقعات رکھتے ہیں لیکن مسیحا کی مدد اپنے خلاف نہیں کرتے جب ہم خود
کچھ غلط کرتے ہیں ـ ازخود خود کو ٹھیک کرنے کا نہ ہمارا کوئی ارادہ ہے نہ
ہمت ـ کوئی کہتا ہے اگر تعلیم زیادہ جائے تو ہم ٹھیک ہو جائیں گے ـ مجھے اس
بات سے اختلاف ہے ـ کیونکہ کرپشن اور اختیارات کا ناجائز استعمال تو تعلیم
یافتہ لوگ زیادہ کرتے ہیں ـ صرف تعلیم و تربیت ُُسُدھرنے کے لیے ناکافی ہے
ـ یہ بات تو طے ہے کہ ہم خود کبھی ٹھیک نہیں ہونگے ـ جب تک ہمارے سروں کے
اُوپر احتساب اور پوچھ گچھ کی تلوارنہ لٹکی ہو ـ جب تک ہمیں یہ ڈر نہ ہو کہ
ہم قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتے ـ سزا اور جزاء کا نظام جب تک مضبوط نہ
ہوگا ـ جب تک انصاف اصل حالت میں سب کو میسر نہ ہو گی تب تک ہم ازخود ٹھیک
ہونے والے نہیں ـ کیونکہ ہمارا ضمیراکثر بستر مرگ پر ہی جاگتا ہے جب اُسکے
جاگنے کا فائدہ نہ ہو یا تب جاگتا ہے جب اختیار نہ رہے ـ ہم سب اپنی اپنی
جگہ ذمہ دار ہیں ـ لیکن وہ لوگ جن کے پاس اختیار ہے ـ جن کو اختیار دیا گیا
ہے ہمیں اور پاکستان کو ٹھیک کرنے کا وہ زیادہ ذمہ دار ہیں ـ ہم سب کئی
حیثیتوں میں دوسروں کے لیے ظالم ہیں اور کئی حیثیتوں میں مظلوم ہیں ـ جہاں
ہمیں اختیار ہے وہاں ہم ظالم ـ جہاں دوسروں کے پاس اختیار ہے وہاں ہم مظلوم
ـ بس ایک دوسرے کو تنگ کرنے ، تکلیف دینے اور روکاوٹ ڈالنے کے عادی ہیں ہم
ـ اس ساری بے یقینی میں ہم اکثر دوسروں کے لیےانقلاب کی خواہش بھی کرتے ہیں
ـ کہ انقلاب آئے اور ظالم لوگوں کو سزا ملے ـآپکے ظالم کسی اور کے مظلوم
ہیں ـ اور آپ خود کو تو معمولی ناانصافی کے بعد مظلوم سمجھ کر انقلاب کی
خواہش کرتے ہیں ـ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ آپ اپنی حیثیت میں کتنے لوگوں کے
لیے ظالم ہیں ـ آپ کا غلط عمل دوسروں کو انقلاب کے لیے اُکسا سکتا ہے ـ تو
کیا انقلاب سب کے لیے ہوگا یا پھر Selective ہوگا ـ انقلاب عموماً جنگل کی
آگ کی طرح پھیلتا ہے جس میں پھر ظالم اور مظلوم کی تمیز نہیں رہتی ـ میں
ذاتی طور پر انقلاب کے حق میں نہیں ـ خون بہانے سے لوگوں کو قتل کرنے سے
عارضی سکون تو مل سکتا ہے لیکن مستقل نہیں ـ انقلاب سےنفرتیں دب تو سکتی
ہیں لیکن ختم نہیں ـ اس لیے اصلاحات انقلاب سے بہتر ہیں ـ اصلاحات لے کر
آئیں ـ نظام کو مضبوط کریں ـ سب سے بڑی اور اہم بات سزا وجزاء کا نظام
مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ـ اصلاحات کے زریعے جو تبدیلی آتی ہے وہ پائیدار
اور دیرپاء ہوتی ہے ـ اگرچہ ہر عروج کو زوال ہوتا ہے اس لیے زوال شروع ہونے
سے پہلے اصلاحات کریں ـ اصلاحات کا مطلب ہے عوام کی فلاخ وبہبود کے لیے نئے
قوانین متعارف کرانا ـ لوگوں کو آسانیاں اور آزادیاں فراہم کرنے کے لیے
پالیسیاں بنانا ـ جانبداری ، کرپشن ، اقربا پروری ، اور تمام ناانصافیوں کا
خاتمہ بذریعہ مضبوط نظام ِ عدل کرناجسمیں انصاف ہواورانصاف ہوتا ہوا نظر
آئے ـ جس میں طاقتور کا بھی مواخذہ ہو ـ جس طرح حضرت محمد ؐ نے فرمایا تھا
کہ اگر فاطمہ بنتِ محمدؐ بھی چوری کرے گی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹے جائیں گے
ـ ایسا نظام عدل جسمیں لوگوں کو اُس کی غیرجانبداری پر یقین ہو کہ انصاف
ملے گا او ر خود بندوق اُٹھانے کی ضرورت نہیں ہوگی ـ اس لیے اصلاحات بہتر
اور مضبوط نظام عدل کے لیے ضروری ہیں ـ جب کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہوگی تو
پاکستانیت کا جذبہ بڑھے گا ـ حب الوطنی بڑھے گی ـ جب انصاف نہیں ہوگا تو
انقلاب کی راہ ہموار ہوگی ـ خون ریزی ہوگی ـ انسانوں کا قتل عام ہوگا ـلیکن
اب تو ہم خود کو مہذہب کہتے ہیں ـ اپنے ہاتھوں پر انسانی خون رنگنے کے
بجائے نظام میں اصلاحات لانے والوں اور انصاف کے نظام کو بہتر کرنے والوں
کا ساتھ دیں ـپورا پاکستان بے ضمیر نہیں ـ ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی
ہے جو کہ ازخود اچھے ہیں ـ اپنے ضمیر اور خوف الہیٰ کی وجہ سے ـ انکا ساتھ
دیں ـ انکو اختیار دیں ـ آہستہ اور مستقل سعی اور کوشش سے ضرور تبدیلی آئے
گی ـ |
|