انقلاب یا اصلاحات

ہم ایک عجیب کشمکش کا شکار ہجوم ہیں ـ ابھی تک قوم نہیں بن سکے ـ آج بھی ہم ایک دوسرے کے وجود سے انکاری ہیں ـاپنی نسلی قومیت کو پاکستانیت پر ترجیح دیتے ہیں ـ ہماری جغرافیائی وحدت ، مذہبی یکسانیت اور ثقافتی مماثلیت بھی ہمیں قوم نہ بنا سکی ـ اس کے پیچھے بہت سارے محرکات اور وجوہات ہیں ـ جیسے ہماری انانیت ، ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح ، کرسی کی جنگ ، بالا دستی کی جنگ ، قوم پرستی کا ناجائز استعمال ، مذہب اورسیاست کو کرسی کے حصول کے لیے استعمال کرنا ، خود کو مظلوم اور دوسروں کو ظالم ثابت کرنے کے لیے الزام تراشی اور بے بنیاد پروپیگنڈا کرنا ، سیاست کے نام پر فریب ، دھوکہ دہی ، جھوٹ اور شیطانی کہانیوں سے کام لینا ، بیرونی طا لع آزماوں کی پشت پناہی ، اور اپنی نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنےکی روش ـ اس طرح نظام تعلیم کا یکساں نہ ہونا ، معاشی نا ہمواری ، کرپشن اور انصاف کی عدم فراہمی نے اس ملک کو کافی نقصان پہنچایا ـ ایک غیر یقینی ، حبس زدہ اور گھٹن زدہ ما حول کے اندر پاکستانی مایوسی کا شکار نظر آتے ہیں ـ ہمیشہ مسیحا کی تلاش میں رہتے ہیں ـ مسیحا سے لامحدود توقعات رکھتے ہیں لیکن مسیحا کی مدد اپنے خلاف نہیں کرتے جب ہم خود کچھ غلط کرتے ہیں ـ ازخود خود کو ٹھیک کرنے کا نہ ہمارا کوئی ارادہ ہے نہ ہمت ـ کوئی کہتا ہے اگر تعلیم زیادہ جائے تو ہم ٹھیک ہو جائیں گے ـ مجھے اس بات سے اختلاف ہے ـ کیونکہ کرپشن اور اختیارات کا ناجائز استعمال تو تعلیم یافتہ لوگ زیادہ کرتے ہیں ـ صرف تعلیم و تربیت ُُسُدھرنے کے لیے ناکافی ہے ـ یہ بات تو طے ہے کہ ہم خود کبھی ٹھیک نہیں ہونگے ـ جب تک ہمارے سروں کے اُوپر احتساب اور پوچھ گچھ کی تلوارنہ لٹکی ہو ـ جب تک ہمیں یہ ڈر نہ ہو کہ ہم قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتے ـ سزا اور جزاء کا نظام جب تک مضبوط نہ ہوگا ـ جب تک انصاف اصل حالت میں سب کو میسر نہ ہو گی تب تک ہم ازخود ٹھیک ہونے والے نہیں ـ کیونکہ ہمارا ضمیراکثر بستر مرگ پر ہی جاگتا ہے جب اُسکے جاگنے کا فائدہ نہ ہو یا تب جاگتا ہے جب اختیار نہ رہے ـ ہم سب اپنی اپنی جگہ ذمہ دار ہیں ـ لیکن وہ لوگ جن کے پاس اختیار ہے ـ جن کو اختیار دیا گیا ہے ہمیں اور پاکستان کو ٹھیک کرنے کا وہ زیادہ ذمہ دار ہیں ـ ہم سب کئی حیثیتوں میں دوسروں کے لیے ظالم ہیں اور کئی حیثیتوں میں مظلوم ہیں ـ جہاں ہمیں اختیار ہے وہاں ہم ظالم ـ جہاں دوسروں کے پاس اختیار ہے وہاں ہم مظلوم ـ بس ایک دوسرے کو تنگ کرنے ، تکلیف دینے اور روکاوٹ ڈالنے کے عادی ہیں ہم ـ اس ساری بے یقینی میں ہم اکثر دوسروں کے لیےانقلاب کی خواہش بھی کرتے ہیں ـ کہ انقلاب آئے اور ظالم لوگوں کو سزا ملے ـآپکے ظالم کسی اور کے مظلوم ہیں ـ اور آپ خود کو تو معمولی ناانصافی کے بعد مظلوم سمجھ کر انقلاب کی خواہش کرتے ہیں ـ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ آپ اپنی حیثیت میں کتنے لوگوں کے لیے ظالم ہیں ـ آپ کا غلط عمل دوسروں کو انقلاب کے لیے اُکسا سکتا ہے ـ تو کیا انقلاب سب کے لیے ہوگا یا پھر Selective ہوگا ـ انقلاب عموماً جنگل کی آگ کی طرح پھیلتا ہے جس میں پھر ظالم اور مظلوم کی تمیز نہیں رہتی ـ میں ذاتی طور پر انقلاب کے حق میں نہیں ـ خون بہانے سے لوگوں کو قتل کرنے سے عارضی سکون تو مل سکتا ہے لیکن مستقل نہیں ـ انقلاب سےنفرتیں دب تو سکتی ہیں لیکن ختم نہیں ـ اس لیے اصلاحات انقلاب سے بہتر ہیں ـ اصلاحات لے کر آئیں ـ نظام کو مضبوط کریں ـ سب سے بڑی اور اہم بات سزا وجزاء کا نظام مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ـ اصلاحات کے زریعے جو تبدیلی آتی ہے وہ پائیدار اور دیرپاء ہوتی ہے ـ اگرچہ ہر عروج کو زوال ہوتا ہے اس لیے زوال شروع ہونے سے پہلے اصلاحات کریں ـ اصلاحات کا مطلب ہے عوام کی فلاخ وبہبود کے لیے نئے قوانین متعارف کرانا ـ لوگوں کو آسانیاں اور آزادیاں فراہم کرنے کے لیے پالیسیاں بنانا ـ جانبداری ، کرپشن ، اقربا پروری ، اور تمام ناانصافیوں کا خاتمہ بذریعہ مضبوط نظام ِ عدل کرناجسمیں انصاف ہواورانصاف ہوتا ہوا نظر آئے ـ جس میں طاقتور کا بھی مواخذہ ہو ـ جس طرح حضرت محمد ؐ نے فرمایا تھا کہ اگر فاطمہ بنتِ محمدؐ بھی چوری کرے گی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹے جائیں گے ـ ایسا نظام عدل جسمیں لوگوں کو اُس کی غیرجانبداری پر یقین ہو کہ انصاف ملے گا او ر خود بندوق اُٹھانے کی ضرورت نہیں ہوگی ـ اس لیے اصلاحات بہتر اور مضبوط نظام عدل کے لیے ضروری ہیں ـ جب کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہوگی تو پاکستانیت کا جذبہ بڑھے گا ـ حب الوطنی بڑھے گی ـ جب انصاف نہیں ہوگا تو انقلاب کی راہ ہموار ہوگی ـ خون ریزی ہوگی ـ انسانوں کا قتل عام ہوگا ـلیکن اب تو ہم خود کو مہذہب کہتے ہیں ـ اپنے ہاتھوں پر انسانی خون رنگنے کے بجائے نظام میں اصلاحات لانے والوں اور انصاف کے نظام کو بہتر کرنے والوں کا ساتھ دیں ـپورا پاکستان بے ضمیر نہیں ـ ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو کہ ازخود اچھے ہیں ـ اپنے ضمیر اور خوف الہیٰ کی وجہ سے ـ انکا ساتھ دیں ـ انکو اختیار دیں ـ آہستہ اور مستقل سعی اور کوشش سے ضرور تبدیلی آئے گی ـ
Muhammad Shoaib Tanoli
About the Author: Muhammad Shoaib Tanoli Read More Articles by Muhammad Shoaib Tanoli: 67 Articles with 115242 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.