علینہ ملک (کراچی)
نجانے کیوں اسے ہماری نفسیاتی کیفیت کہہ لیں یا پھر ہمارے منفی رویے ،جو
ہمارے معاشرے میں بہت تیزی سے سرایت کرتے جارہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہم سچ
کو سچ نہیں کہہ سکتے اور حق کو حق نہیں کہہ سکتے ،اچھائی کو اچھائی کہو تو
برا ہے ور برائی کو برا کہہ دو تب بھی غلط ہے۔ ہم من حیث القوم اس مقام تک
آ پہنچے ہیں کہ ہم میں اتنی اخلاقی جرات بھی نہیں رہی کہ ہم اچھے کو اچھا
کہہ لیں اور جب ہم میں سے ہی کوئی شخص کسی ایسی اخلاقی جرات کا مظاہرہ کر
بیٹھے تو ہم اس کے بھی خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔اور اگر کوئی ہمیں آئینہ
دکھانے کی کوشش کرے تو آئینہ میں اپنا ہی بھیانک عکس دیکھ کر ہم آئینہ ہی
توڑ دینا چاہتے ہیں ۔انا کی غیرت کے نام پر قتل ہمارا ہی نہیں بلکہ ایک
عالمی مسئلہ ہے اور اور دنیا کے بیشتر ممالک میں عورتوں کا قتل ہوتا رہا ہے
اور ہو رہا ہے یہ بھی درست ہے آسکر ایواڑ جیتنے والی شرمین عبید چنائے ہر
بار پاکستان کے بارے میں ایک برا امیج ہی کیوں سامنے لاتیں ہیں،وہ آخر
پاکستان کے کسی روشن اور اچھے پہلو کو دنیا کے سامنے کیوں نہیں لاتیں، مگر
ایسا ہی کیوں ہے کہ ہم دوسروں کی اچھی نیت سے کیے گئے کام اور احسن اقدام
کو سراہنے کے بجائے اس پر تنقیدکرنے کے لئے مختلف زاویے تراش لیتے ہیں۔
دوسروں کی سوچ اور دوسروں کی نیک نیتی یا پھر مثبت سوچ اور نیت پر ہمیشہ ہم
شک ہی کیوں کرتے ہیں ،ہم ہرکام کو خواہ وہ اچھا ہو یا برا اپنی نظر کی عینک
ہی سے کیوں دیکھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ پھر ہر بات کی کڑیاں عالمی سازش سے
ہی کیوں جا ملتی ہیں۔
صرف غیرت کے نام پر قتل ہی نہیں ، بلکہ ونی کی رسم، قرآن سے شادی ،وٹے سٹے
کی صورت میں بنائے گئے بے جوڑ رشتے ،عورتوں پر تشدد یہ سب ہمارے معاشرے کے
ایسے سیاہ پہلو ہیں جس سے نظرے چرانا ناممکن ہے مگر المیہ تو یہ ہے کہ جب
بھی کوئی افسوس ناک واقعہ منظر عام پر آجاتا ہے تو اس وقت تو حکام بالا سے
لیکر عام افراد تک ہر شخص اس کی مذمت کرتا نظر آتا ہے ،الیکٹرانک میڈیا سے
لیکر ایوان بالا تک اس کے بارے میں خوب باتیں ،تقریریں،دعوے اور وعدے کیے
جاتے ہیں مگر پھر آہستہ آہستہ ہر کوئی سب کچھ بھول بھال کر اپنی اپنی زندگی
میں مگن ہو جاتا ہے۔چنانچہ نہ کوئی ڈھنگ کا قانون سامنے آتاہے نہ اس پہ عمل
درآمد ممکن ہو سکتا ہے ۔غیرت کے نام پر ہر سال سینکڑوں عورتوں کو قتل کر
دیا جاتا ہے ،افسوس اور حیرت کا مقام تو یہ بھی ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی
ہم ان فرسودہ رسم ورواج میں جکڑے ہوئے ہیں جو ہمارے ماتھے پر سیاہ داغ کی
طرح ہے ۔اور اس سے بڑا المیہ تو یہ ہے کے بہت سے پڑھے لکھے اور باشعور لوگ
بھی اس فرسودہ رواج کی پیروی کو معیوب نہیں سمجھتے اور آج بھی اپنی بہن
بیٹی کو غیرت کے نام پر قتل کرنا ہی اپنی عزت اور بڑائی سمجھتے ہیں ۔
مانا کے پہلے کی نسبت اس کی شرح میں کمی ضرور آئی ہے مگر بعض قبائلی آج بھی
اس فرسودہ رواج میں پہلے ہی کی طرح جکڑے ہوئے ہیں ۔عام خیال یہ ہے کہ غیرت
کے نام پر قتل اس لئے کیا جاتا ہے کہ دو نامحرم لڑکا لڑ کی ایک دوسرے کے
ساتھ ناجائز تعلقات استوار کر تے ہیں چنانچہ خاندان والے اپنی عزت بچانے کی
خاطر انہیں قتل کر دیتے ہیں خاص طور پر لڑ کی کواس روایت کی بھینٹ چڑھا دیا
جاتا ہے۔ جب کہ مردوں کو تو سب کچھ معاف ہے شاید اور اسے وہ عام قتل نہیں
بلکہ غیرت کے نام پر کیا جانے والا قتل گردانتے ہیں۔ سندھ میں اس کو کارو
کاری ،پنجاب میں کالا کالی، سرحد میں طور طورہ اور بلو چستان میں سیاہ کاری
کا نام دیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ ان میں سے زیادہ تر قتل صرف شک کی
بنیاد پر اور بعض صرف اس وجہ سے کیے جاتے ہیں کہ بیٹی یا بہن کسی سے محبت
کرنے کا سنگین جرم کر بیٹھتی ہے۔
ظلم تو یہ ہے کہ بعض صرف شک کی بنیاد پر اپنی بہن بیٹی کو قتل کر دیتے ہیں
۔غیرت کے نام پر قتل کے خلاف آواز تو کئی برسوں سے اٹھائی جارہی ہے اور
اسمبلی میں بل بھی منظور کروائے گئے مگر عملی طور پر کچھ ہونا ،ممکن نہ ہو
سکا ۔سارا مسئلہ تو یہ ہے کہ 90فیصد قتل جو غیرت کے نام پر کیے جاتے ہیں ان
میں سزاؤں کی شرح لگ بھگ صفر کے قریب ہے کیونکہ بیشتر مقدمات میں ملزمان
اسی خاندان کے فرد ہوتے ہیں جنھیں مقتول کے ورثاء معاف کردیتے ہیں۔ افسوس
کی بات تو یہ ہے کہ عزت کے نام پر قتل عورتوں کے بارے میں منفی رویوں کے
علاوہ اس لئے بھی جاری ہیں کے اس سلسلے میں موثر قانون موجود نہیں ہے اور
جو قانون بنائے بھی گئے ہیں نہ تو ان تک عام اور کمزور شہری کی رسائی ممکن
ہے اور نہ ہی انھیں آج تک صحیح معنوں میں نافذ کیا جا سکا ۔
اگر معاشرے میں موجود برائیوں کو چھپا کر رکھا جائے اور ان کی پردہ پو شی
کی جاتی رہے تو پھر اس کی روک تھام کیونکر ممکن ہو گی اور عوام میں شعور کو
کیسے اجاگر کیا جا سکے گا۔ یہ بات کیوں سوچی جاتی ہے کہ اپنی کسی خامی کو
اگر ہم دنیا کے سامنے لے آئیں گے تو اس سے ہمارا امیج دنیا کی نظر میں خراب
ہو جائے ،جو سچائی ہے اور جو حقیقت ہے وہ تو ساری دنیا کو ویسے بھی معلوم
ہے ،ہم اس بات کی کوشش کیوں نہیں کرتے کہ اپنے معاشرے کے ان کمزور اور
تاریک پہلوؤں کو جڑ سے ہمیشہ کے لئے اکھاڑ پھینکے اور اس کے لئے سب سے پہلا
قدم یہی اٹھانا ضروری ہے کہ ہماری عوام باشعور ہو علم کی جس کمی اور جہالت
کی جس زیادتی کی وجہ سے یہ خامی آج تک ہم میں پنپ رہی ہے اس کو تدبیر اور
تدبر سے ہی مٹایا جاسکتا ہے اور بحیثیت مسلمان بھی ہم جانتے ہیں کے ہمارے
دین میں ایسے کسی قتل کی گنجائش موجود نہیں ہے اﷲ نے اپنی آخری کتاب قرآن
میں واضع ہدایات نافذ کر دیں ہیں ،کمی صرف اور صرف اس شعور اور آگاہی کی ہے
جو ہمیں ہمارے رب کے بنائے ہوئے قوانین کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے
کی توفیق دے سکے ۔ |