ایمان اور اسلام
(Dr shaikh wali khan almuzaffar, Karachi)
|
سوال :ایمان اور اسلام ایک ہی ہیں یادونوں
میں کوئی فرق ہے؟ بشیر بابر،لیاری ،کراچی۔
جواب:ایمان عربی زبان کا لفظ ہے، اس کا مادہ ’’ا ۔ م ۔ ن‘‘ (امن) باب سَمِعَ
سے مشتق ہے۔ لغت کی رو سے کسی خوف سے محفوظ ہو جانے، دل کے مطمئن ہو جانے
اور انسان کے خیر و عافیت سے ہمکنار ہونے کو امن کہتے ہیں۔ایمان کا لفظ
بطور فعل لازم استعمال ہو ،تو اس کا معنی ہوتا ہے ’’امن پانا‘‘، اور جب یہ
(باب افعال سے)فعل متعدی کے طور پر آئے، تو اس کا معنی ہوتا ہے ’’امن
دینا‘‘۔کسی پر ایمان لانے سے مراد اس کی تصدیق کرنا اور اس پر یقین رکھنا
ہے،گویا لفظ ایمان اپنے اصل معنی اور مفہوم کے اعتبار سے امن، امان اور
بھروسے پر دلالت کرتا ہے، شرعی معنوں میں دل سے یقین، زبان سے اظہار،
جسمانی طور پر عمل کا نا م ایمان ہے جبکہ بعض حضرات کے یہاں اطاعت سے ایمان
میں اضافہ اور نافرفانی سے کمی واقع ہوتی ہے،امانت استئمان اور تأمین بھی
اسی سے ہیں۔
ایمان شریعت اسلامی کی ایک اہم اصطلاح ہے،اس کے لغوی معنی تصدیق کرنے (سچا
ماننا) کوکہتے ہیں،ایمان کا دوسرا لغوی معنیٰ ہیں: امن دینا، جبکہ ا اصطلاح
شریتل میں ایمان سے مراد سچے دل سے ان سب باتوں کی تصدیق کرناہے جو ضروریاتِ
دین میں سے ہیں،ایمان کا الٹ کُفر ہے ۔
ایمان کے سات ارکان ہیں۔ جبریل کے ایک سوال کے جواب میں آپ ﷺنے فرمایا:یہ
کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، روز
قیامت پر اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لاؤ (صحیح مسلم)۔ نیز مرنے کے
بعد دوبارہ اٹھائے جانا جیسا کہ ایمان مفصل میں ہے:( آمنت باللہ وملائکتہ
وکتبہ ورسلہ والیوم الآخر والقدر خیر وشرہ من اللہ تعالیٰ والبعث بعد الموت)۔
ایمانیات و عقائد کے اصول و ذرائع قرآن وسنت ہیں، اس باب میں قیاس اور
اندازوں کی گنجائش نہیں ہوتی، کسی بھی بات کو ایمانیات و عقائد کا حصہ
بنانے کےلئے ضروری ہے کہ وہ بات اللہ اور اس کے رسول سے منقول ہو، اور قرآن
و سنت میں مذکور ہو، اس طرح سے کہ قرآن و سنت نے اس کو ماننے کا مطالبہ کیا
ہو، یا قرآن و سنت نے اس کو ماننے کی نسبت اللہ کی جانب کی ہو، یا قرآن و
سنت نے اس بات کے ماننے کی نسبت انبیا٫ و رسل اور ان کے پیرکاروں کی جانب
کی ہو۔
اسلام لغوی اعتبار سے سلم(باب سَمِعَ) سے ماخوذ ہے، جس کے معنی اطاعت اور
امن ، دونوں کے ہوتے ہیں۔ ایسا فی الحقیقت عربی زبان میں اعراب کے نہایت
حساس استعمال کی وجہ سے ہوتا ہے جس میں کہ اردو و فارسی کے برعکس اعراب کے
معمولی رد و بدل سے معنی میں نہایت فرق آجاتا ہے۔ اصل لفظ جس سے اسلام کا
لفظ ماخوذ ہے ، یعنی سلم ( س) پر زبر اور یا پھر زیر لگا کر دو انداز میں
پڑھا جاتا ہے۔
• سَلم (salm) ----- جس کے معنی امن و سلامتی کے آتے ہیں۔
• سِلم (silm) ----- جس کے معنی اطاعت، داخل ہوجانے اور بندگی کے آتے ہیں۔
اسلام کا ماخذ سلم (salm) امن و صلح کے معنوں میں قرآن کی سورت الانفال کی
آیت 61 میں ان الفاظ میں آیا ہے: (وَإِن جَنَحُواْ لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ
لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (ترجمہ:
اور اگر جھکیں وہ صلح (امن) کی طرف تو تم بھی جھک جاؤ اس کی طرف اور بھروسہ
کرو اللہ پر۔ بے شک وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
سلم (silm) کا لفظ اطاعت کے معنوں میں قرآن کی سورۃ البقرہ کی آیت 208 میں
ان الفاظ میں آیا ہے: (یَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِي
السِّلْمِ كَآفَّةً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ
لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ (ترجمہ: اے ایمان والو! داخل ہوجاؤ اسلام میں پورے
پورے اور نہ چلو شیطان کے نقشِ قدم پر بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے)۔
اسلام ایک توحیدی (monotheistic) مذہب ہے جو کہ اللہ کی طرف سے اس کے آخری
رسول ﷺکے ذریعےانسانوں تک پہنچائی گئی، آخري الہامي کتاب قرآن مجيد کی صورت
میں موجودہے۔ یعنی دنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی اسلام (اور
مسلم نظریئے کے مطابق گذشتہ ادیان کی اصلاح) کا آغاز، 610ء تا 632ء تک 23
سال پر محیط عرصے میں محمد ﷺپر اللہ کی طرف سے اترنے والے الہام(قرآن) سے
ہوتا ہے۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا،اسی زبان میں دنیا کی کل آبادی کا
کوئی 24% حصہ یعنی لگ بھگ 1.6 تا 1.8 ارب افراد اس کو پڑھتے ہیں؛ ان میں (مختلف
ذرائع کے مطابق) قریباً 20 تا 30 کروڑ ہی وہ ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے،
جبکہ 70 تا 80کروڑ ، غیر عرب یا عجمی ہیں جن کی مادری زبان عربی کے سوا
کوئی اور ہوتی ہے۔ متعدد شخصی ماخذ سے اپنی موجودہ شکل میں آنے والی دیگر
الہامی کتابوں کے برعکس ، بوسیلۂ وحی ، فردِ واحد (محمدﷺ)کے مبارک منہ سے
ادا ہوکر لکھی جانے والی کتاب اور اس کتاب پر عمل پیرا ہونے کی راہنمائی
فراہم کرنے والی سیرت دو ایسے وسائل ہیں جن کو اسلام کی معلومات کا منبع
قرار دیا جاتا ہے۔
گویااسلام ظاہری قانون کا نام ہے ،جس نے کلمہ شہادت زبان پر جاری کرلیا وہ
مسلمانوں کے دائرہ میں داخل ہوگیا، اور اسلامی احکامات اس پر نافذ ہوں
گے۔لیکن ایمان ایک باطنی امر ہے، جس کا مقام انسان کا دل ہے نہ کہ اس کی
زبان اور اس کا ظاہری چہرہ۔”اسلام“ کے لئے انسان کے ذہن میں بہت سے مقاصد
ہو سکتے ہیں، یہاں تک کہ مادی اور ذاتی منافع کے لئے انسان مسلمان ہوسکتا
ہے، لیکن ”ایمان“ میں معنوی مقصد ہوتا ہے جس کا سر چشمہ علم و بصیرت ہیں،
اور جس کاحیات بخش ثمرہ یعنی تقویٰ اسی کی شاخوں پر ظاہر ہوتا ہے۔یہ وہی
چیز ہے جس کے لئے پیغمبر اکرم (ص) نے واضح طور پر ارشاد فرمایا
ہے:(الإسْلَامُ عَلَانِیَةَ ،وَالإیْمَانُ فِي الْقَلْبِ)اسلام ایک ظاہری
چیز ہے اور ایمان کی جگہ انسان کا دل ہے“۔ ایمان اور اسلام دراصل ایک حقیقت
کے دو رخ ہیں، ان میں فرق صرف یہ ہے کہ جن حقائق کی تصدیق ایمان کے درجہ
میں دل اور زبان سے کی جاتی ہے، اسلام کے درجہ میں ان کی تصدیق عملاً ہونی
ضروری ہو جاتی ہے۔ گویا ایمان ضروریات دین کو دل سے سچا ماننے اور زبان سے
ان کا اقرار کرنے کا نام ہے جبکہ اسلام اطاعت، فرمانبرداری اور عمل کرنے کا
نام ہے۔ واللہ أعلم وعلمہ أتم۔ |
|