’’اتحاد بین المسلمین ‘‘ میں مفتی محمدحسین نعیمی علیہ الرحمۃ کا کردار

ابتدائیہ :
بلند نگاہ ،اعلیٰ کرادار،صاف روشن دل و دماغ، عاجزی و انکساری اور کسب و محنت جس کا شعار،سادگی و بردباری اور عفو درگزر میں فقید المثال ،حق گوئی و بے باکی میں یگانہ روزگار ،معاملہ فہمی و دوراندیشی میں کمال ، مجسمہ اخلاق و اخلاص، پیکر صبر و رضا، عزم و استقلال کا کوہ گراں ، واعتصموابحبل ﷲ جمیعًاولا تفرقوا کا کامل مصداق، اتحاد امت کا صحیح علمبردار، ریاست علم و فن کا شہنشاہ ، گلستان شریعت وطریقت ،جس کا سینہ عشق و محبت رسول سے سرشار، تحقیق و تدقیق میں امام غزالی و امام رازی کی کامل تصویر، زینت مفتیان ، فخر المعلمین ،استاذ العلماء و الفضلاء ، جامع خصائل حمیدہ،یہ ہے وہ ہمہ جہت روشن ہیرا جس کی ضیاء پاشیوں سے ایک جہاں منور و فیضاب ہو رہا ہے ۔ جس کو دنیا ’’ مفتی محمد حسین نعیمی‘‘ نور اﷲ مرقدہ کے نام سے جانتی ہے۔

مفتی محمد حسین نعیمی علیہ الرحمۃ پاکستان کے گنتی کے ان چند علمائے کرام میں سے تھے جو اتحاد بین المسلمین کے نقیب تھے۔ اپنی پوری زندگی اتحاد بین المسلمین کے لیے کام کیا۔ آپ چاہتے تھے کہ پاکستان میں رہنے والے ہر مسلک اور ہر طبقہ فکر کے حامی مل جل کر رہیں۔ مفتی علیہ الرحمہ علمی و تحقیقی مجلہ عرفات کے اداریہ میں لکھتے ہیں کہ
’’ کل مومن اخوۃ ارشاد ربانی سے قوم مسلم پر یہ ذمہ داری ڈال دی گئی۔ مسلمان خواہ عرب و پاکستان میں یا امریکہ، روس، چین خواہ دنیا کے کسی کونہ میں رہائش پذیر یا پیدا ہوا ہو بھائی بھائی ہیں‘‘(ماہنامہ عرفات ستمبر 1964؁ء )

مفتی محمد حسین نعیمی علیہ الرحمہ دیگر مکاتب فکر کی نظر میں:
مفتیان پاکستان کے ان اہل علم میں نمایاں تھے جو علمی اور فقہی طور پر ایک مکتب فکر سے تعلق رکھنے کے باوجود اس مکتب فکر تک محدود نہیں تھے۔ ان کا احترام ہر مذہبی حلقہ میں کیا جاتا تھا۔ ہر مکتب فکر انہیں اپنا سمجھتا تھا۔ اور وہ بھی کسی کو اجنبیت کا احساس نہیں ہونے دیتے تھے۔ وہ سب کے سب کے لیے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کو ہمیشہ اتحاد کا درس دیا۔ اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ رکھنے کی تلقین کرتے رہے۔ اختلافی مسائل پر بات سے گریز کرتے اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے سے منع کرتے۔ ان کا حسن تھا کہ تمام دینی مسالک کے علمائے کرام اور دوسرے لوگ ان کی قدروعزت کرتے تھے۔

مفتی محمد حسین نعیمی اہل تشیع کی نظر میں:
اہل تشیع مکتبہ فکر کے ایک بڑے رہنماع۔غ کراروی نے مفتی علیہ الرحمہ کے بارے میں کہا کہ مفتی محمد حسین نعیمی علیہ الرحمہ کو اہل سنت کا عالم کہا جاتاہے۔ مگر حقیقت میں وہ پوری امت و ملت اسلامیہ کے عالم تھے۔ کیونکہ اسلام اور دین کے حوالے سے پاکستان پر جب بھی کوئی کڑوا وقت آیاتو آپ نے جامعہ نعیمیہ کے پلیٹ فارم سے آواز دی جس پر تمام مسالک فکر کے علماء اور دانشور ان کی آواز پر لبیک کہتے، جامعہ نعیمیہ میں جمع ہو گئے۔ ( ذکر گلے، ازنعیم ،ص 7 )

جامعۃ المنتظر کے موسیٰ بیگ نجفی نے مفتی علیہ الرحمہ کو ایک عظیم ہستی اور بے بدل کہتے ہوئے کہا کہ شیعہ مسلک کے طلباء اور اہل علم نے ان کے علم سے استفادہ کیا ہے اور مستفید ہو رہے ہیں۔ (ایضاً)

مفتی علیہ الرحمہ کی وفات پر تعزیت نام لکھتے ہوئے ساجد علی نقوی لکھتے ہیں کہ مفتی علیہ الرحمہ کی علمی عظمت، ان کا کردار، ان کا اخلاق معروف و مشہور ہے۔ اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے ان کی خدمات ہم سب کے لیے نمونہ عمل ہیں۔ ( ایضاً، ص ۱۲۲)

جامعہ المنتظر لاہور کے پرنسپل سید ریاض حسین نجفی، جامعہ حسنیہ خوشاب کے پرنسپل ملک اعجاز حسین، تحریک وحدت اسلامی کے جنرل سیکرٹری سید وقار الحسین نقوی نے مشترکہ تعزیت نامہ لکھتے ہو ئے لکھا کہ علم دین کے فروغ، اتحا د امت مسلمہ اور نظام مصطفی کے نفاذ کے سلسلہ میں مفتی صاحب کی گرانقدر خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ( صفحہ 124 ذکراز گلے نعیم )

مفتی محمد حسین نعیمی اہل دیو بند کی نظر میں:
مسلک دیو بند کی درسگاہ جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم و سربراہ مولانا عبد الرحمن اشرفی نے مفتی صاحب کے بارے میں کہا کہ مفتی علیہ الرحمہ ولی اﷲ ہیں اور اولیاء کی طرح بھی زندہ ہیں۔ مفتی صاحب دنیا سے پردہ کر جانے کے بعد بھی ہم میں موجود ہیں۔ اور بتایا کہ مفتی علیہ الرحمہ اتحاد دامت کی علامت تھے۔ (ایضاً ، ص ۷۱)

مولانا عبد الرؤف (خطیب جامع مسجد آسٹریلیا) نے کہا کہ جب تمام مسالک فکر کے علماء کو متحدہ شریعت محاذ پر جمع کرنے کا وقت آیا تو اس محاذ کے چار بڑے داعی تھے ’’ مفتی محمد حسین نعیمی، میاں فضل حق، علامہ زین العابدین اور حکیم عبد الرحیم اشرف‘‘
(ماہنامہ عرفات ، مارچ ۲۰۰۰، صفحہ 177)

مفتی محمد حسین نعیمی اہل حدیث کی نظر میں:
جماعت اہل حدیث پاکستان کے ناظم سیاسیات صاحبزادہ عارف سلمان روپڑی نے مفتی علیہ الرحمہ کے وصال پر تعزیت نامہ لکھتے ہوئے لکھا کہ ملت اسلامیہ کے اتحاد کے علمبردار ہونے کی حیثیت سے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی ۔ (ذکر گلے از نعیم)

مفتی محمد حسین نعیمی جماعت اسلامی کی نظر میں:
مفتی علیہ الرحمہ کے وصال پر ان کی ورثا سے تعزیت کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے کہا کہ مفتی محمد حسین نعیمی ہر مکتب فکر کے لوگوں کے یکساں قابل احترام تھے اور امت کے اتحاد کے سلسلہ میں ان کی مساعی جمیلہ بہت گرانقدر رہیں۔
( ذکر گلے از نعیم ، ص ۱۱۸)

اسلام کی حقانیت اتحاد قوم سے :
مفتی محمد حسین نعیمی نے اسلام کی حقانیت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اسلام ہمیشہ سر بلند رہا ہے اور یہ سر بلند رہنے کے لیے ہی آیا ہے۔ اور قدرت نے ہر لحاظ سے امت مسلمہ کو ہی ہر دور میں حکمرانی اور قیادت کا اہل بنایا ہے لہذا اسلامی مسلم قوتوں کو ایک بلاک بن کر ایک قوت بن کر ابھرنا چاہیے اور علماء پر زور دیا کہ وہ اپنی زیادہ توجہ قوم کے اتحاد کی طرف دیں تاکہ یہ امت مسلمہ کی بقاو ملکی سالمیت کا سبب بن سکے۔( روزنامہ جسارت 26 مئی 1978 )

سوشلزم کے خلاف علماء کو متحد کرنا:
سو شلسٹوں کے عزائم کے خلاف تمام علماء کو متحد کرنے کے لیے لائل پور میں مفتی محمد حسین نعیمی نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ کلمہ طیبہ قیام پاکستان کی بنیاد تھا اور وہی جنگ ستمبر میں بقائے پاکستان کی بنیاد بنا ۔انہوں نے کہا کہ سو شلزم عذاب الٰہی کی مانند ہے۔ اگر ہم نے متحدہ جدوجہد نہ کی اور خدا کا فضل شامل رہا تو اس فتنہ کی سرکوبی کر دیں گے۔
( روزنامہ جسارت ملتان،۱۲ اپریل ۱۹۷۰ء )

دینیات کی کتاب میں تبدیلی پر شیعہ ، سنی مخالفت اور مفتی صاحب کی اتحاد کی کوشش:
اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن اور جامعہ نعیمیہ کے ناظم مولانا مفتی محمد حسین نعیمی نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان میں اس وقت جو حالت ہے اس کا اولین تقاضا ہے کہ فرقہ ورارانہ فضاء کو ختم کیا جائے اور تمام دین پسند فرقے باہی اتحاد اور رواداری کا ہر مرحلے پر مظاہرہ کریں۔ شیعہ فرقے کی طرف سے دینیات کے جداگانہ نصاب کا مطالبہ درست نہیں ہے۔ اس سے سکولوں، کالجوں میں فرقے کی بنیاد پر گروپ بندی و جماعت بندی انتہائی خطر ناک ثابت ہو سکتی ہے۔ بہتر یہ ہو گا کہ دینیات کی ایک ہی کتاب میں ہر دو فرقے کی دینیات کو شامل کیا جائے۔
( روزنامہ وفاق لاہور ،۱۶ /اکتوبر۱۹۷۸ء )

فرقہ واریت اور علاقائیت کے نعرے نفاذ اسلام کے لیے سم قاتل:
رکن وفاقی مجلس شوری مفتی محمد حسین نعیمی ے کہا کہ ہمیں چاہیے کہ ہم اس بات کی طرف توجہ دیں کہ ظاہر اور باطن میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ امن سلامتی اورسکون صرف اسلام ہی سے ملتا ہے۔ اور فرقہ واریت اور علاقائیت کے نعرے نفاذ اسلام میں ہونے والی پیش رفت کو روکنے کے لیے لگائے جا رہے ہیں۔
( روزنامہ جنگ، لاہور ۲۶ مئی ۱۹۸۴ء)

متحدہ شریعت محاذ اور مفتی محمد حسین نعیمی:
مولانا عبد الرؤف اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ صدر ضیا الحق کے دور میں علماء کو متحد کرنے کا خیال آیا تا کہ اس فوجی حکومت سے کام لیا جائے تو ایک کمیٹی بنائی گئی تا کہ علماء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے تو اس کمیٹی کے 4 بڑے داعی تھے ’’ مفتی محمد حسین نعیمی، میاں فضل حق، علامہ ذین العابدین اور حکیم عبد الرحیم‘‘

علماء کو متحد کرنے کے سلسلہ میں مفتی علیہ الرحمہ نے باقی تین داعیوں سے کافی اجلاس کیے جن میں یہ طے پایا کہ تمام علماء کو جمع کیا جائے۔لہذا ملک بھر سے 200 علماء کرام کو جامعہ اسلامیہ کشمیر روڈ راولپنڈی میں جمع کیا گیا۔ ان میں سے 40 علماء کو ضیا الحق سے ملاقات کے لیے منتخب کیا گیا‘‘ ( ماہنا عرفات مارچ ۲۰۰۰ء ، ص ۱۷۷)

شریعت بل اور مفتی محمد حسین نعیمی:
مولانا ملک عبد الرؤف لکھتے ہیں کہ ’’ متحدہ شریعت محاذ چلتا رہا اور آخر کار شریعت بل پاس ہو گیا۔ جس کے پاس ہونے سے قبل اس بل کی مخالفت کی گئی اور اس شریعت بل کو شرارت بل کہا گیا۔ حکومت پر دباؤ ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن علماء متحد نہ ہوئے۔ پھر مفتی علیہ الرحمہ نے علماء کو متحد کرنے کے لیے انہیں متحد شریعت محاذ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا اور اس تحریک کے پہلے سینئر نائب صدر مقرر ہوئے۔ اس تحریک کے پیش نظر علماء شریعت بل کے پاس ہونے پر راضی ہو گئے۔ اس تحریک کی پہلی کمیٹی درج ذیل افراد پر مشتمل تھی۔

خواجہ حمیدالدین سیالوی(صدر) مفتی محمدحسین نعیمی(سینئر نائب صدر)مولانا عبدالستار نیازی صاحب (نائب صدر) سمیع الحق (دیوبندی) جنرل سیکرٹری۔
( ماہنامہ عرفات مارچ ۲۰۰۰ء ، ص۱۷۸)

متحدہ اسلامی محا ذ :
متحدہ اسلامی محاذ کے قیام کے بعد اس کی غرض و غایت کو بیان کرنے کے لیے 25 ستمبر 1970 کو آٹھ اسلامی و دینی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے ایک مشترکہ اخباری بیان میں بتایا کہ اس محاذ کا قیام دستور سازی کے کام کو بطریق احسن انجام دینے اور انتقال اقتدار کی صورت میں اسلامی نظام عدل کو نافذ کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ رہنماؤں میں سے مفتی محمد حسین نعیمی چوہدری رحمت اﷲ( جماعت اسلامی ) فضل حق جمعیت اہل حدیث ) عبد القادر روپڑی ( جماعت اہل حدیث) وغیر ہم شریک تھے۔( روزنامہ کوہستان ،لاہور ۲۶ ستمبر ۱۹۷۰)

جمیعت علماء پاکستان کو متحدہ اسلامی محاذ میں شمولیت کا مشورہ:
10 اکتوبر 1970 کو سنی تنظیم کے صدر اور اسلامی متحدہ محاذ کے سرگرم رکن مفتی محمدحسین نعیمی نے ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ملک کے حالات کا تقاضا اور اسلام سے مخلصانہ وار فتگی کا مظاہر اس وقت تمام اسلام پسند جماعتوں کے متحد ہونے میں مضمر ہے۔ اور جمیعت علماء پاکستان کو چاہیے وہ اسلامی محاذ میں شامل ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ انفرادی مفادات کی بجائے ۔ملکی مفادات کو ترجیح دی جائے۔ کیونکہ موجودہ حالت میں اسلام پسند جماعتوں کا آپس میں مقابلہ ملک وملت کے لیے سخت مضر ہے۔
( روزنامہ جسارت، کراچی ،۱۲/ اکتوبر ۱۹۷۰ ء )

متحدہ علماء کو نسل پاکستان اور مفتی اعظم پاکستان:
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد حسین نعیمی علیہ الرحمہ نے متحدہ علماء کونسل پاکستان کی سپریم کونسل کا اجلاس جامعہ نعیمیہ میں طلب کیا ۔جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء کو جمع کیا گیا۔ ان میں دیوبند مسلک کے مولانا سمیع الحق و مولانا عبد الرؤف ملک، مسلک اہل سنت کے خواجہ حمید الدین سیالوی، حاجی فضل کریم، مسلک اہل حدیث کے مولانا سلمان روپڑی اور اسرار الحق حقانی نے شرکت کی۔ ( نوائے وقت، لاہور۲۵ مارچ۱۹۸۹ء)

نظام مصطفی ﷺ کے لیے علماء کو جمع کرنے میں مفتی صاحب کا کردارـ:
نظام مصطفی ﷺ کے نفاذ کے لیے مفتی علیہ الرحمہ نے تمام مکاتب فکر کے علماء کو جمع کیااور اعلان کیا کہا نظام مصطفیٰ ﷺ کے نفاذ کو مکمل کرنے کے لیے عام انتخابات کو ملتوی کیا جائے۔ جس پر مختلف مکاتب فکر کے پندہ 15 علماء متفق ہوئے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔

مفتی محمد حسین نعیمی ( سنی) عبد الرحمن اشرفی ( دیوبندی) عبد القادر آزاد (خطیب بادشاہی مسجد) علی اصغر ( اہل حدیث) وغیر ہم۔ ( روزنامہ مشرق، لاہور یکم جون ۱۹۷۹ء )

جمعیت العلماء پاکستان میں گروہ بندی اور مفتی محمد حسین نعیمی:
23 جنوری 1970 ء کو دارالعلوم جامعہ نعیمیہ کے ناظم مفتی محمد حسین نعیمی نے جمعیت علماء پاکستان میں گروہ بندی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ علما اہل سنت کا مختلف گرہوں میں بٹ جانا کوئی اچھی علامت نہیں۔

جمعیت علماء پاکستان کے چاروں گروہوں کے اتحاد پر زور دیا اور کہا کہ علما بھی اقتدار کو مقدم سمجھتے ہیں۔ اور ان میں قربانی کا جذبہ نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ اتحاد کی کوشش تو ہر طرف سے ہور ہی ہے البتہ قربانی دینے کے لیے کوئی تیار نظر نہیں آتا۔ مزید فرمایا کہ کیا ہی اچھا ہو اگر جمعیت کے موجودہ تمام رہنما ملکی حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ذاتی مفاد کو ملی مفاد پر قربان کر دیں۔ ( روزنامہ سعادت ،لاہور۲۵ جنوری ۱۹۷۰ء )

مسالک کے اختلاف کم کرنے کی کوششیں:
مفتی محمد حسین نعیمی کی کوشش رہی کہ مسالک کے اختلافات کم کرنے کی کوششیں کی جائیں۔ اس سلسلہ میں آپ نے کئی تجاویز پیش کیں۔ جس میں سے ایک تجویز یہ بھی تھی کہ اگر اختلافی عبارتوں کو کتابوں سے نکال دیا جائے تو کوئی اختلاف باقی نہیں رہے گا۔ اس سلسلہ میں بریلوی علماء اور علماء دیوبند کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ بریلوی علماء میں مفتی محمد حسین نعیمی، مفتی عبدالقیوم ہزاروی، مولانا غلام سرور قادری اور دیوبند کی طرف سے مولانا عبدالرحمن اشرفی اور مولانا عبدالرؤف شامل تھے۔ اس معاہدہ پر بعد میں علماء دیوبند میں سے مولانا تقی عثمانی، مولانا رفیع عثمانی، مولانا ارشد (دیوبند انڈیا) نے دستخط کیے۔(ماہنامہ عرفات ، مارچ ۲۰۰۰ء ص ۱۸۰)

تمام مکاتب فکر کے شانہ بشانہ چلنے کیلئے تیار ہوں:
روزنامہ جنگ کو انٹرویو دیتے ہوئے مفتی محمد حسین نعیمی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ فرقہ وارانہ رجحانات کو ختم کرنے کے لیے میں تیار ہوں۔ میں تمام مکاتب فکر کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرنے اور اتحاد بین المسلمین کیلئے شریک کار ہونے کیلئے تیار ہوں۔

مفتی محمد حسین نعیمی علیہ الرحمہ کا علماء کیلئے مرتب ضابطہ اخلاق:
28 ستمبر 1991ء بروز ہفتہ گورنر ہاؤس پنجاب لاہور میں وزارت مذہبی امور اسلام آباد کے زیر انتظام پاکستان بھر کے تمام مکاتب فکر کے جید علماء ومشائخ عظام اور دینی جماعتوں کے رہنماؤں کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں مفتی علیہ الرحمۃ نے ایک ضابطہ اخلاق برائے علماء عظام پیش کیا۔ اس کی چند نکات درج ذیل ہیں:۔
٭ مختلف مکاتب فکر کے درمیان صلح، محبت، رواداری کی فضا کا قیام، اور خلوص نیت سے اس پر عمل کرنا۔
٭ ایسے بیانات سے احتراز کرنا جن سے دوسروں کی دل آزادی ہوتی ہو۔
٭ قوم وفعل میں ہم آہنگی اور مطابقت پیدا کرنے کیلئے مل جل کر کام کرنا۔
٭ وقتاً فوقتاً تمام مکاتب فکر کے علماء کا مجتمع ہو کر اپنی کارکردگی کا جائزہ لینا اور آئندہ کیلئے نئے اقدامات تجویز کرنا ۔(ماہنامہ عرفات، مارچ ۲۰۰۵ء ،ص ۱۱۰)

جماعت اسلامی کے جلسہ پر غنڈہ گردی:
1970ء میں ڈھاکہ میں جماعت اسلامی کے جلسہ عام میں غنڈہ گردی کی گئی جس پر اتحاد بین المسلمین کے داعی مفتی محمد حسین نعیمی نے اس حملہ کی پرزور مذمت کی اور کہا کہ غنڈوں نے جس دیدہ دلیری سے جماعت اسلامی کے پرامن جلسہ کو درھم برھم کیا ہے۔ وہ صرف قابل مزمت ہی نہیں بلکہ قابل گرفت بھی ہے۔ مگر حکومت کے رویہ نے اس کی بے بسی کی نشاندہی کی ہے۔
(روزنامہ نوائے ملت، لاہور ۲۳ جولائی ۱۹۷۰ء

الغرض:
بانی جامعہ نعیمیہ تدریس، تبلیغ، تقریر، تفکر، تدبر، سیاست ،اتحاد بین المسلمین، انتظامی امور ،برجستہ گوئی، حاضر جوابی، موقع شناسی، عفوودرگذر، قناعت، انکساری، عجز، سادگی، فتویٰ نویسی، فصاحت وبلاغت محنت، جہد مسلسل، ثابت قدمی، مصلحت ایسے ہر میدان عمل میں ید طولی رکھتے تھے۔مفتی صاحب ساری عمر حق وصداقت کی شمشیر‘ برہنہ ہاتھ میں لئے شیطانی قوتوں، ابلیسی لشکروں اور اسلام دشمنوں، فرقہ وارمتعصبوں کا تعاقب کرتے رہے۔

اتحاد بین المسلمین کا عظیم داعی 6 مارچ 1998ء کو اس دنیا فانی کو خیر آباد کہہ کر دنیا حقیقی کو چلا گیا۔ علامہ اقبال کے ان اشعار کا صحیح مصداق مفتی محمد حسین نعیمی کی شخصیت میں نظر آتا ہے۔
بتان ورنگ خون کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اﷲ تعالیٰ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ وما توفیقی الا باﷲ
abdul rehman jalalpuri
About the Author: abdul rehman jalalpuri Read More Articles by abdul rehman jalalpuri: 22 Articles with 26440 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.