ا ستاد نے بھری کلاس میں سوال کیا کہ
!کیا برائی کا وجود ہے؟تو ایک طالب علم نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا کہ جناب میں
آپ کے سوال کا جواب دے سکتا ہوں لیکن پہلے آپکو میرے سوالوں کا جواب دینا
ہو گا!! استاد نے اثبات میں سر ہلایا تو شاگرد نے سوال کیا کہ جناب کیا
ٹھنڈ کا وجود ہے؟استاد نے کہا ہاں !طالبعلم نے کہا نہیں ہے بلکہ ٹھنڈ حرارت
کی عدم موجودگی کی ایک شکل ہے ۔طالبعلم نے پھر سے سوال کیا کہ کیا اندھیرے
کا وجود ہے؟استاد نے کہا ہاں ہے! لیکن شاگرد نے اس کے بر عکس جواب دیتے
ہوئے کہا کہ اندھیرا روشنی کی عدم دستیابی ہے کیوں کہ ہم فزکس میں حرارت
اور روشنی کے بارے میں پڑھتے ہیں نہ کہ اندھیرے اور ٹھنڈ کے بارے میں اسی
طرح برائی کا بھی کوئی وجود نہیں یہ ہمارے ایمان کی کمزوری اور اللہ تعالیٰ
پر نا پختہ یقینی ہے۔یہ طالبعلم البیرونی تھے جنہوں نے سائنس کی دنیا میں
ایک نام پیدا کیا ہے کہ جسے کبھی بھی بھلایا نہیں جا سکتا ۔بالکل البیرونی
نے ٹھیک کہا تھا کہ برائی ہمارے ایمان کی کمزوری کی نشانی ہے ۔ عورت معاشرے
اور عام زندگی میں نمایاں اہمیت کی حامل ہے لیکن یہ پاکیزہ وجود حوس کے
بہکاوے کا شکار ہو گیا ۔ہابیل نے قابیل کو اس لئے قتل کیا کیونکہ وہ اس کے
ساتھ شادی کرنا چاہتا تھا جس کے ساتھ قابیل کی شادی ہونی تھی اور ایک دن
ایک انسان کا قتل ہو گیا اسکے بعد یہ برائی چلتی رہی ایک وقت گزرنے کے بعد
اس برائی میں ایک نیا اضافہ ہو گیا جو کہ زمین کی صورت میں سامنے آیا کہ جب
آبادی بڑھ گئی تو رہنے کیلئے لوگوں کو زمین چاہئے تھی اور عورت کے سا تھ
ساتھ پھر زمین کی وجہ سے برائی نے جنم لیا ۔اور اب ایک وقت ہے کہ برائی ایک
اور تیسری انتہائی خطرناک صورت اختیار کر چکی ہے جو کہ عورت اور زمین کے
ساتھ طاقت کی بے جا بھوک ہے اور دنیا میں قتل و غارت گری عام ہو گئی ۔ایک
وقت تھا کہ کہیں کوئی خبر ملتی فلاں جگہ ایک شخص قتل ہو گیا ہے اور اس کے
بعد تھوڑی ہی دیر میں لال سرخ اندھیری آیا کرتی تھی اور لوگ ڈر جاتے تھے اس
لال سرخ اندھیری کو دیکھ کر جن لوگوں کو نہیں پتہ ہوتا تھا وہ بھی کہتے کہ
لگتا ہے کہیں کوئی قتل ہو گیا ہے لیکن اب روزانہ کی بنیاد پر انسان قتل ہو
رہے ہیں کوئی مذہب کے نا م پر تو کوئی زبان کی وجہ سے ،کوئی دولت کی وجہ سے
تو کہیں کاروکاری کے الزام میں غرض ہر شعبے میں ایسی برائیوں نے جنم لے لیا
ہے کہ کوئی انکاازالہ کرنا ہی نہیں چاہتا ۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں
فرماتے ہیں کہ بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے ۔آج جیسے ہی انسانوں نے
اللہ کے بتائے ہوئے راستوں کو چھوڑ کر شیطان کے راستے پر چلنا شروع کیا ہے
اسی طرح برائی بھی زبان زد عام ہو گئی ہے ۔ہمارے نبی کریم ﷺ کی تمام زندگی
اسوہ حسنہ ہے اور ہمارے لیئے مشعل راہ ہے۔انکی زندگی میں درگزر کے سوا کچھ
نہیں اور انہوں نے اسی درگزر سے تمام انبیا ء کرام سے انتہائی مختصر عرصہ
میں لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور دین اسلام کو اس طرح پھیلایا ہے کہ
رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔کفار اور مسلمان سب ہی آپ پر بھروسہ کرتے تھے اور
امانتیں آپ کے پاس رکھتے ۔لیکن ہم نے اس در گزر کرنے والی ہدایت کو چھوڑ کر
مادیت والے برے راستے کو چن لیا ہے اور اس کا پھل آج ہم سب کے سامنے
ہے۔عاجزی و انکساری مسلمان کی پہچان اور شیوہ ہے لیکن آج ہم بھی انا پرستی
اور دکھاوے والی جھوٹی شان کیلئے فخر ،غرور و تکبر کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے
کہ آج پوری دنیا میں مسلمان عبرت کا نشان بن گئے ہیں کہ پوری دنیا میں جہاں
نظر جاتی ہے وہیں مسلمان ذلیل ہو رہا ہے،برما ،صومالیا ، افغانستان،مراکش ،تیونس،عراق
اور پاکستان میں اندونی و بیرونی سازشوں کی وجہ سے ہم دن بدن کفار کے سامنے
کمتر ہوتے جا رہے ہیں ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس قوم میں خیانت کا بازار گرم
ہو گا اس قوم میں اللہ تعالیٰ دشمن کا خوف اور دہشت پھیلائے گا ،جس معاشرے
میں زنا کی وبا عام ہو گی وہ فنا کے گھاٹ اتر کر رہے گا ،جس قوم میں ناپ
تول میں بد دیانتی کا رواج عام ہو گا وہ رزق کی برکت سے محروم ہو جائے
گی،جہاں ناحق فیصلے ہوں گے وہاں خوں ریزی ہو کر رہے گی ،اور جو قوم بد عہدی
کرے گی اس پر دشمن کا تسلط ہو کر رہے گا(بحوالہ مسلم شریف)۔ایک وقت تھا جب
مسلمانوں نے پوری دنیا پر ایک ہزار سال حکومت کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی
زمینوں کو ہر قدرتی نعمت سے نوازا لیکن یہ لوگ نا شکر گزار ہوتے گئے اور
اسلام کی بتائی ہوئیں حدود کو پار کرتے گئے ،انکی عیاشی اور اللہ سے دوری
انکی تباہی کی وجہ بنی اور یہی وجہ ہے کہ آج تک ہمیں تذلیل اور مصیبتوں کا
سامنا ہے کیونکہ ہم نے کبھی خود کو بدلنے کی کوشش نہیں کی ۔جھوٹ ایک ایسی
برائی ہے جو انسان جانتے ہوئے بھی کرتا ہے اور جھوٹ اسکی عزت اور مرتبہ کو
کھا جاتا ہے ۔جھوٹ کی وجہ سے عارضی طور پر لوگ دل کو سکون تو دے لیتے ہیں
لیکن اس کے بات ساری زندگی اس ایک جھوٹ کو چھپانے کیلئے ایک نیا جھوٹ بولنا
پڑتا ہے ۔کاروبار میں انسان جھوٹ بول کر کافی پیسہ کما لیتا ہے لیکن وہ
پیسہ کتنے دن کھا لے گا؟خود لوگوں کے سامنے اپنی جھوٹی بڑائی پیش کرتا ہے
لیکن پھر بھی وہ کسی کام کی نہیں رہتی ! حقیقت یہ ہے کہ یہ برائی ہمارے
درمیان رچ بس گئی ہے اور کوئی بھی اسے خود سے علیحدہ نہیں کرنا چاہتا۔مادیت
کی حوس نے انسان کو اندھا بنا دیا ہے انسان ہی انسان کا دشمن بن گیا ہے ہر
کوئی چاہتا ہے کہ میرے پاس طاقت ہو اور اس کیلئے چاہے مجھے کتنوں کے ہی سر
کچلنا پڑیں میں کچل جاؤں لیکن انسان اس بات کو بھول جاتا ہے کہ ہر زوال کو
عروج اور عروج کو زوال ہے جو کام اس نے شروع کیا ہے ایک دن اسے بھی اسکا
سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو بیج وہ بو نے جا رہا ہے ایک دن اسی کو کاٹے گا
اور خود ہی کھائے گا۔انسان کا کیا کبھی نہ کبھی اس کے سامنے آ جاتا ہے لیکن
افسوس کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور شعور رکھنے کے
با وجود وہ اس بات کو سوچنے سے قاصر رہتا ہے ۔ہمیں خود کی اصلاح کی ضرورت
ہے دوسرے غلط نہیں ہیں ہم خود غلط ہیں کیونکہ کسی بھی معاشرے کی بنیادی
اکائی فرد ہوتا ہے اور معاشرہ غلط ہو تو وہ معاشرے کی برائی نہیں بلکہ اس
کے افراد کی برائی ہے ۔ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ برائی کا خاتمہ اچھائی کو
عام کرنے سے ہی ممکن ہے ۔ہمیں حلال اور حرام ،جھوٹ اور سچ ،اچھائی اور
برائی میں تمیز کرنا سیکھنا چاہئے ہمیں انسان بننے کی ضرورت ہے کیونکہ
انسانیت کا مطلب یہی ہے کہ ہمیشہ برائی سے اپنے دامن کو صاف رکھا جائے اور
یہ اسلامی تعلیمات کے بغیر ممکن نہیں ۔
نوٹ:۔ یہ تحریر میری ملکیت ہے ۔کوئی بھی اسے چرانے یا اس میں ہیرا پھیری
کرنے کی کوشش کرے تو اس کے خلاف میں قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ رکھتا
ہوں۔۔۔ احقر:۔ شفقت اللہ |