معاشرہ کا بنیادی یونٹ خاندان ہے اور
خاندان مرد و عورت کی یکجائی سے بنتے ہیں۔ خاندان جتنے مضبوط ہوں گے،
معاشرہ بھی اتنا ہی مضبوط ہو گا۔خاندان میں رہنے والے افراد جن صفات کے
حامل ہوں گے ، معاشرہ میں بھی ان صفات کا عکس نظر آئے گا۔ اسلامی معاشرہ
میں خاندان کی بنیاد نکاح سے استوار ہوتی ہے۔ میاں بیوی آنے، بچے اور
خاندان کے بزرگ سب مل کر ایک مکمل خاندان تشکیل دیتے ہیں۔ اگر خاندان کی ہر
اکائی کو اپنے حقوق و فرائض کا شعور ہو اور سب اسے ادا کرنے لگے ہوں تو ایک
متوازن، مکمل اور مضبوط خاندان وجود میں آتا ہے جو افراد کے لئے تحفظ، سکون
اور مسرت کا باعث ہوتا ہے۔ ہر اکائی اپنی جگہ اہم ہے اور کسی ایک اکائی کو
دوسری اکائی پر فوقیت دینے یا غیر متوازن اندا ز میں آگے بڑھانے سے یہ
تناسب منتشر ہو سکتا ہے۔
عالمی پالیسیز کے تحت پاکستان میں بھی گزشتہ دہائی سے کبھی grap اور کبھی
redew کے نام سے جو پالیسیز متعارف کرائی گئیں وہ آہستہ آہستہ اپنے نتائج
سامنے لا رہی ہیں۔ عورتوں کی تعلیم پر توجہ دینا، ان کی معاش کی فکر کرنا۔
انھیں فیصلہ سازی کی قوت دینا سب بہت اہم اور صحیح، لیکن ان سب کو عورت کی
خوشی، سکون اور تحفظ کا حامل ہونا چاہئے۔ اگر عورت اچھی تعلیم حاصل کر لے،
اچھی منصب پر پہنچ جائے، معاشی مضبوطی پا لے لیکن خاندان نہ بنا سکے یا
بنانے کے بعد اسے قائم نہ رکھ سکے تو یہ ساری چیزیں اس کے لئے بے رنگ ہو
جاتی ہیں۔
یہ بات مختلف ریسرچ سے ثابت ہو چکی ہے کہ خاندان رکھنے والی عورتیں زیادہ
مطمئن اور پر سکون زندگی گزارتی ہیں جبکہ خاندان نہ رکھنے والی عورتیں
زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوتی ہیں۔ شوہر اور بچوں کے نہ ہونے سے ان کے اندر
جو احساس محرومی جنم لیتا ہے وہ مختلف طرح کے نفسیاتی عوارض کا سبب بنتا ہے۔
ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہو گا کہ ایسا تو نہیں کہ ہماری پالیسیز ہماری
بچیوں کو اس خوشی اور اطمینان سے محروم کرنے کا باعث بن رہی ہوں؟ جینڈر
ریفارم کے نام سے بننے والی پالیسیز نے جہاں پاکستانی طالبات کو مد مقابل
ہر رکاوٹ کو توڑ کر آگے بڑھنے کا سبق دیا اور اعلی تعلیم و سخت محنت کے بعد
وہ ہر شعبہ زندگی میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے لگیں وہیں طلبہ کو بالکل نظر
انداز کرنے کے باعث وہ اپنی سابقہ پوزیشن سے بھی پیچھے ہٹتے چلے گئے۔
سرکاری میڈیکل کالجز اور جامعات میں موجود طلبہ و طالبات کی تعداد سے اس کا
بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب دونوں عملی
زندگی میں داخل ہوتے ہیں تو ایک مخصوص کوٹہ خواتین کے لئے پہلے ہی موجود
ہوتا ہے ، پھر لڑکوں کی نسبت لڑکیاں کم تنخواہ پر بھی راضی ہو جاتہ ہیں
کیونکہ ان پر پورے گھر کی ذمہ داری نہیں ہوتی لہذا لڑکیوں کو لڑکوں کی نسبت
جلد جاب مل جاتی ہے۔ ابتدائی عمر میں معاشی خود مختاری کی یہ اڑان بہت خوش
کن نظر آتی ہے لیکن یہ اڑان اگر خاندان بنانے میں رکاوٹ بننے لگے تو خوشی
اور امنگوں کے خواب دم توڑنے لگتے ہیں۔
ورکنگ ویمن کے حالات کار کی بہتری کے لئے کام کرنے والی این جی او سے گزشتہ
سولہ سالوں سے وابستگی کے باعث اس مسئلہ کی دن بدن بڑھتی پیچیدگیوں سے
بخوبی واقف ہوں۔ ایک زمانہ تھا کہ لڑکوں کو ابتداء ہی سے یہ سوچ دی جاتی
تھی کہ " خوب محنت کرو ، یہ گھر چلانا تمہاری ذمہ داری ہے ۔" لیکن اب
لڑکیوں کے ساتھ ساتھ لڑکے بھی اس بات کے قائل ہونے لگے ہیں کہ " گھر چلانا
مرد و عورت دونوں کہ ذمہ داری ہے ۔" لہذا ایک طرف ایسی مثالیں ہیں کہ رشتہ
لانے والی لڑکی کی تنخواہ، بونس اور گریجویٹی کا پورا حساب پوچھ کر جاتے
ہیں تو دوسری طرف یہ مثالیں بھی ہیں کہ بہنیں اچھی جاب پر ہیں تو بوڑھے
والدین اور ھر کا زیادہ خرچ وہ اٹھا رہی ہیں۔ بھائی درمیانی جاب پر ہے اس
لئے محض اپنے بیوی بچوں کی ذمہ داری اٹھانے تک محدود ہے اور بہنوں کے رشتوں
کو معمولی نقائص کے سبب مسترد کر دیا جاتا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ ایسے
مجبور والدین بھی ہیں جن کی کفیل محض بیٹی ہے اور اس کے باعث وہ اس کی شادی
میں تاخیر کرتے جا رہے ہیں۔ایسے بڑے دل کے داماد جو ساس سسر کو اپنی ذمہ
داری سمجھیں یا بیوی کی تنخواہ اس کے والدین پر خرچ کے لئے آمادہ ہوں عنقا
ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں لڑکی یا تو گھر والوں کی محبت میں زندگی کے
قیمتی وقت کی قربانی دیتی چلی جائے یا سب سے بغاوت کر کے تنہا اپنی زندگی
کا فیصلہ کرتے ہوئے باغی ہونے کا لقب قبول کرے، دونوں ہی اس کے لئے مشکل
راستے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں جہاں مرد و عورت کا تناسب تقریبا برابر ہے ۔اگر دو لڑکے
اور دو لڑکیاں معاشی میدان میں آئیں تو بہتر یہ ہی ہے کہ پہلے دونوں لڑکوں
کو معاش ملے اور پھر لڑکی کی باری آئے ورنہ اگر دو سیٹیں موجود ہوں اور
دونوں لڑکیوں کو مل جائیں تو دونوں لڑکے بیروزگار رہ جائیں گے۔ اور آئندہ
ایسے ہی بیروزگار لڑکوں سے شادی کرنی پڑی تو ذمہ داری کا ایسا بوجھ لڑکیوں
کو اپنے کاندھے پر اٹھانا پڑے گا جو اس کے کاندھے شل کر دے گا۔لڑکوں پر تو
محض معاش کی ذمہ داری ہوتی ہے جبکہ لڑکی پر تو ایک پوری آئندہ نسل کی ذمہ
داری ہوتی ہے جو خود اس کی مکمل توجہ چاہتی ہے۔ ایسے میں یہ دہرا بوجھ اگر
محض اس کی ذمہ داری بن جائے تو یہ اس کی ترقی نہیں اس پر زیادتی ہے۔
بہتر ہے کہ معاشرے کے دانشور اس مسئلہ پر غور کریں۔ شادی کی کم سے کم عمر
کا تعین کرنے کا شور مچانے والوں کو یہ بھی سوچناچاہئے کہ شادی کی کوئی
زیادہ سے زیادہ عمر بھی تو مقرر ہونی چاہئے۔ ورکنگ ویمن کو معاشی خود
مختاری کا نعرہ پکڑا کر اسے خاندان بنانے کے حق سے محروم نہ کریں اور جینڈر
ریفارم کا نعرہ لگاتے ہوئے کسی ایک اکائی کے بجائے پورے خاندان کو یاد
رکھیں۔ |