عالمی یومِ آب۔۲۲مارچ

دنیا میں آج کل سالانہ طور پر مختلف دن منانے کا رواج مستحکم ہو چکا ہے۔ یہ دن منانے کی اصل وجہ انسان کی ترقی یافتہ زمانے میں احد سے بڑھی ہوئی مصروفیت ہے جس میں اسے اپنی مصروفیت کی چاردیواری میں ایس بہت سی باتوں کا احساس بھول جاتا ہے جو اس کے لئے یاد رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اس شاخسانے کی دوسری وجہ بہت سی چیزوں اور قدروں کا تیزی سے ہونے والا انحطاط ہے جو سوچنے والوں کو فکر میں مبتلا کرتا ہے کہ آنے والے کل کا سامنا کیسے کیا کرے گا۔ کل کا انسان آج کے انسان کو کن الفاظ سے یاد کرے گا۔ اس رویئے کے پیچھے تیسری بات یہ ہے کہ دنیا ایک گلوبل ولج کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے اس لئے ساری دنیا کے پاس سال گزارنے کا ایک ایجنڈا ہونا مناسب لگتا ہے ۔ جس طرح کسی گاؤں یا چھوٹے شہر میں لوگوں کا پورے سال کا ایک پروگرام اپنے میلوں ٹھیلوں اور مذہبی یا علاقائی انداز کے فنکشنوں کا ہوتا ہے اسی تناظر میں دنیا کے پاس بھی تو کوئی سالانہ چارٹر ہونا چاہیئے جو اسے ہر دن اور ہر ہفتے اورہر مہینے کوگزارنے کا انداز سمجھائے تا کہ وہ ہر روز کسی نہ کسی احساس کو اپنے اندر فروغ دیتا رہے۔

ان دنوں کے منانے کا مقصد صرف ایک دن یاایک ہفتہ منانا نہیں ہوتا ۔ بلکہ ان کا مقصد تو پورا سال اس ایک بات کو پلے باندھے رکھنا ہوتا ہے جو شخص کو سال کے کسی ایک لمحے میں یاد کروا دی جاتی ہے تا کہ ایک بھولا ہوا سبق پھر سے تازہ ہو جائے اور انسان اس اہم چیز کی افادیت پورا سال اپنی توجہ کا مرکز بنائے رکھے۔ لیکن دیکھنے میں یہ حقیقت آتی ہے کہ دن منانے کا یہ وطیرہ ہمارے اندر مستحکم اور پائیدار رویئے پیدا کرنے میں ناکام ہو رہا ہے۔ہم ایک د ن منا کر یہ گمان کر لیتے ہیں کہ پورے سال کا کفارہ ادا ہو گیا۔ مثلا صفائی کا ہفتہ منایا گیا لیکن پورا سال صفائی کا مفہوم یاد نہ رہا، والدین کاا یک دن منایا گیا لیکن باقی سال کے تین سو چوہتر دن ان کی یاد ہی نہ آئی۔ نسلی تفاخرات کے خاتمے کا دن یا ہفتہ منایا گیا لیکن باقی سینتالیس ہفتے نسلی تفاخر کے جھنڈے لہراتے رہے۔

ہر بات اپنے ساتھ کچھ مثبت اور کچھ منفی رکھتی ہے لہٰذا عالمی دن مانے کے بھی متضاد نتا ئج ہو سکتے ہیں ۔ لیکن کسی چیز کا مثبت ہی مدِ نظر رکھنا زیادہ مناسب ہے۔ اسی تناظر میں ہم اس تحریر میں پانی کی اہمیت و افادیت پر اپنے خیالاتِ پریشاں آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

پانی انسان بلکہ ہر جاندا ر کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنی کی خود زندگی۔زندگی کا آغا بھی پانی ہی سے ہوا اور پانی اس کی بقا اور سلامتی کے لئے ضروری بھی ہے۔ ہوا کی اہمیت پانی سے بھی زیادہ ہے کہ چند منٹ میسر نہ ہونے سے انسان کی زندگی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ لیکن ہوا انسان کے پاس خود پہنچ جاتی ہے انسان کو ہوا اپنے پاس لانی نہیں پڑتی، جبکہ پانی کے انداز مختلف ہیں۔ ایک انداز میں پانی انسان کے پاس پہنچتا ہے جیسے دریا ، سیلاب، بارش وغیرہ دوسرے انداز میں انسان کو پانی تک رسائی حاصل کرنی پڑتی ہے۔ جیسا کہ کنواں کھود کر، پانی کا نل لگا کر، ٹیوب ول لگا کر یا اس کی کوئی تبدیل شدہ شکل ۔

انسانی معمولات میں بھی پانی کی ضرورت نا گزیر ہے۔ مٹی کے برتن بنانے سے لے کر جدید ترین فیکٹریوں اور کارخانوں تک، ہر جا پانی کا اطلاق لازم ہے۔ یہاں تک کہ پانی کے بغیر تو عمارت بھی نہیں بنائی جا سکتی۔اس میں بھی گارابنانے ، اور اینٹوں ، کنکریٹ وغیرہ کی تیاری اور ترائی کے لئے پانی کی ضرورت اولین حیثیت کی حامل ہے۔

فصلوں سے پیداوار لینے کے لئے پانی کی ضرورت کسی بحث کی محتاج نہیں ۔ چاول جیسی فصل تو ہر وقت پانی کا ساتھ مانگتی ہے ورنہ سوکھ جاتی ہے۔ کھانا پکانے میں پانی کا ستعمال ہر کسی پر عیاں ہے۔ پانی کے بغیر نہ سبزی دھوئی جا سکتی ہے اور نہ گوشت۔ جسم اور کپڑوں کی صفائی اور پاکیزگی بھی پانی کی محتاج ہے ۔ پھلوں کے باغات بھی پانی کی نظر کرم مانگتے نظر آتے ہیں۔

دینِ اسلام میں تو پانچ وقت کی نماز کے لئے وضو درکار ہے جس کا پانی کے بغیر انعقاد ممکن نہیں ہاں وقتی طور پر پانی میسر نہ آنے کی صورت میں تیمم کا طریقہ موجود ہے لیکن ایسا مستقل طور پر نہیں کیا جا سکتا۔ہمارے دین و معاشرت کا پانی کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس لئے پانی کی اہمیت ہم سے زیادہ اور کس قوم کو پیشِ نظر ہو سکتی ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم پانی کی اہمیت سے بے خبر قوم یا زیادہ درست طور پر کہا جائی تو بے خبر لوگ ہیں۔آبِ زم زم مکہ مکرمہ سے تما م دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا جاتا ہے۔ہندو مت، عیسائیت اور دوسرے مذاہب میں بھی پانی کی اہمیت مسلمہ ہے۔ ہندو اپنے مرنے والوں کو جلا کر ان کی راکھ اور ہڈیاں گنگا میں بہاتے ہیں، عیسائی بھی مقدس پانی کا تصور رکھتے ہیں ۔

پانی کو مذاہب کے دیئے تقدس کے بعد اس کی بے حرمتی اور ضیاع کا ماتم ہونا تو نہیں چاہیئے تھا لیکن انسان ہر مذہب کے ساتھ ایک جیسے رویوں سے پیش آتے ہیں۔ اس لئے ہر مذہب کے لوگ پانی کی قدرو منزلت رکھنے کے باوجود، کرتے نہیں ۔ مذہبی لوگوں پر ہی کیا موقوف، پانی تو ہر شخص کے لئے یکساں مقدس ہے کیوں کہ اس کے ساتھ اس کی زندگی کا وجود برقرار ہے ۔ انسانی جسم بذاتِ خود ستر سے زیادہ فیصد پانی پر مشتمل ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں انسان خود بھی پانی ہی ہے۔ اسی لئے انسان کے پانی پانی ہو جانے کا محاورہ وجود میں آیا ہے۔

ہر جاندار کو روزانہ پانی کی کچھ مقدار کی ضرورت ہوتی ہے،جس کے بغیر اس کا گزارہ نہیں ۔ورنہ اس کے اندر نامیاتی مواد کے بڑھ جانے کی صورت میں موت واقع ہونا ضر وری ہو جاتا ہے۔ اس طرح روزانہ پانی، ایک خطیر مقدار میں، انسانی ، حیوانی اور نباتاتی ضرورتیں پورا کرنے کے لئے درکار ہوتا ہے۔ پانی کی اس طرح بے انداز کھپت کے پیشِ نظر عالمی اور مستقبلی ذہن کو یہ خطرہ درپیش ہے کہ آنے والے دور میں پانی کی شدت سے کمی واقع ہو جائے گی، پانی کے زیرِ زمین ذخائر بھی تیزی سے کم پڑتے جا رہے ہیں۔پانی کے سطح بہت تیزی سے گہری ہوتی جا رہی ہے ، دنیا کے بڑے شہروں میں پانی ایک بڑے مسئلے کے طور پر سامنے آ چکا ہے بلکہ اور زیادہ گھمبیر ہو تاجا رہا ہے۔اس کی ایک واضح مثال گزشتہ سال کراچی میں پیش آ نے والا پانی کا مسئلہ تھا جس کا تا حال کوئی تسلی بخش سدِ باب نہیں کیا جا سکا ۔

زمانہ قدیم میں بھی پانی زندگی کے روزمرہ مسائل میں سے ایک تھا۔ لیکن اب یہ کئی گنا زیادہ شدید شکل اختیار کر چکا ہے۔ماضی کا ان پڑھ اور وحشی انسان کئی حوالوں سے آج کے پڑھے لکھے مہذب انسان سے زیادہ اچھاتھا۔ وہ اتنا فضول خرچ نہیں تھا جتنا کہ آج کا با شعور انسان ہے۔ وہ آنے والے انسانوں کے لئے مسائل کے بیج نہیں بو رہا تھا جیسا کہ آج کا انسا ن کر رہا ہے۔ اس کا پسماندہ ہونا فطرت کے لئے خطرناک نہ تھا جیسا کہ آج کے انسان کا ترقی یافتہ ہونا فطرت کی ہلاکت بنتا جا رہا ہے۔وہ سادہ اور فطرت دوست تھا ہم پیچیدہ اور فطرت دشمن ہیں، بلکہ ہم انسان دشمن اور یہاں تک کہ اپنی ہی آنے والی نسلوں کے ’ ویری‘ ہیں۔ہم ایسے نوجوان عاقبت نا اندیش انسانوں کا انداز اپنائے ہوئے ہیں جنہیں نہ اپنے آبا کی عزت اور نہ اپنے آنے والی نسل کی محبت کسی جنون سے روک سکتی ہے۔ وہ بس ہر صورت من مانی کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ بس چاہے کچھ ہو جائے انہوں نے اپنی خواہشات کو لگام نہیں دینی۔آج کا انسان زرعی زمینوں ، پانی کے ذخیروں اور انسانی وسائل کو یوں بے دریغ ضائع کیے جا رہا ہے جیسے اس کے بعد کسی نسل نے دنیا میں قیام ہی نہیں کرنا ۔ جیسے بس کل قیامت آ جائے گی اس لئے جو کھا سکتے ہو کھا لو، جو پہن سکتے ہوپہن لو اور جو گنوا سکتے ہو گنوا لو! ایک عجیب سی انسان بھوتوں کی زندگی کا تصو ر پیدا کیا جا رہا ہے جس میں جس کے دل میں جو آئے کر لے۔

’تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو‘ کی مصداق پاکستانی قوم کے پاس دوسری قوموں یا عالمی مسائل پر غورو خوض کر نے کا اخلاقی جواز نہیں ہے ۔ یہ کام تو اسی کو زیب دیتا ہے جس کے اپنے گھر کے مسائل حل ہو گئے ہوں یا ہو رہے ہوں۔ ہمارے مسائل تو اربابِ حل و عقد کی مہربانیوں سے بڑھتے ہی جا رہے ہیں؛
نظر لگے نہ ترے دست و بازو کو
لوگ کیوں مرے زخم ِ جگر کو دیکھتے یں

پاکستان کو صحراؤں اور کھنڈروں میں تبدیل کرنے کی غیر ملکی سازش اپنی جگہ قابلِ مذمت تو ہے ہی لیکن اس سے زیادہ قابل ِسرزنش ہمارے اپنے قائدین اور منافقین کی مکروہ کاریاں ہیں جنہوں نے دشمن کا ساتھ دینے میں اپنی قوم سے دشمنی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ کالا باغ ڈیم یا چھوٹے چھوٹے دوسرے ڈیم بنانا ملک و وقوم کی بقا کے لئے لازم ہیں لیکن ان سب باتوں سے توجہ یوں ہٹا دی جاتی ہے جسے یہ کوئی مسائل ہی نہیں۔ بس آپ ٹی وی اینکروں کے فیشن دیکھ کر ہی سیاسی اور ملکی سطح کے ہوش ربا مسائل سے اپنی توجہ ہٹا لیا کریں۔ بے کار قسم کی بحثوں میں عوام کا سکون برباد کر دیا جاتا ہے ۔ کئی کئی مہینوں کے لئے عوام پر ڈیماکلیز کی تلوار لٹکا دی جاتی ہے اور پھر آئندہ کے پروگراموں کے بہانے پرانی باتوں پرسوچ کا صفھہ الٹ دیا جاتا ہے۔ کرنے والے کام ہمارے اربابِ اختیار کوتو جیسے آتے ہی نہیں۔ اس میں کسی ایک پارٹی یا حکومت کا قصور یا نا اہلی نہیں بلکہ یہ سب ہماری قوم کا بے شعوری پن اور عاقبت نا اندیشی ہے۔

پاکستان دنیا کے خوش قسمت ترین خطوں میں سے ایک ہے لیکن حالات ا و واقعات نے اسے خشک قسمت بنا دیا ہے۔ہمارے ایک طرف پہاڑ اور گلیشیئرز ہیں اور دوسری طرف سمندر۔ اس میں پانی کی فراوانی سیلاب کی شکل اختیار کر جاتی ہے اور یوں تباہی و بربادی کے مناظر فلم بند ہوتے ہیں کہ قیامت سے پہلے قیامت قائم ہو جاتی ہے۔ بارشیں نہیں ہوتیں تو چند مہینوں میں بے شمار انسان جاں بلب ہو جاتے ہیں کہ دنیا میں ہماری کس مپرسی کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔ ہم مستقبل کی ذرا بھی پلاننگ نہیں کرتے۔ اتنی سی عقل تو گاؤں کی ایک ان پڑھ بوڑھی مائی کو بھی ہوتی ہے کہ گھر میں پانی کا گھڑا بھر کے رکھے ،کسی وقت بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ لیکن ہماری قوم کے حکم ور اس مسئلے کو بالائے طاق رکھ کر سوئے ہوئے ہیں۔ ہم پانی کے ذخائر سے سستی ترین بجلی پیدا کر کے اپنی صنعت اور زراعت کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔ اور ساتھ ہی ان ذخائر کی مدد سے منہ زور سیلابوں کو نکیل ڈال سکتے ہیں۔ اور بے شمار نقصانات سے بچ سکتے ہیں۔

پانی کی آلودگی سے بے شمار امراض اور مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ ان کی طرف بھی فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ آلودہ پانی کا حق ہے کہ اسے اس کی منزل پر پہنچا دیا جائے۔ اس کے کھڑا رہنے سے خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ وبائی امراض پھوٹ پڑتے ہیں اور انسانی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ فیکٹریوں اور کارخانوں کا آلودہ پانی بھی مناسب طریقے سے فلٹر ہونا چاہیئے اور اس کے ناکارہ اجزا کو نئے سرے سے کار آمد بنانے کی کوشش کرنی چاہیئے تا کہ اس آلودگی کا نقصان کم سے کم ہو سکے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان دنوں کو مانانے کے ساتھ ساتھ اپنے مستقبل کو صحیح معنوں میں مدِ نظر رکھیں اور اگر ہو سکے تو کسی کو کم از کم اچھی سوچ ہی سونپتے جائیں ، ہو سکتا ہے کہ آنے والااذہن موجودہ ذہن سے اچھا ہو اور وہ ملک وقوم کے لئے صر ف زبانی دعووں سے بڑھ کر بھی کچھ کر دکھائے۔ امیدِ واثق ہے کہ ہمارا مستقبل ، ہمارے حال اور ماضی سے زیادہ تابناک ہو گا ۔ آنے والا زمانہ زیادہ سے زیادہ شفافیت کا مظہر ہو گا اور اس شفافیت میں ذہنوں کی مثبت سوچ کا بھی امکان موجود ہے۔

پانی کا ضیاع کسی بھی صورت میں بند کرنا ہو گا۔ اس کے ذخیرہ کرنے والے ڈیم بنانے ہوں گے۔ اس کو اندرونی و بیرونی سازشوں سے بچانا ہو گا ۔پانی کی قدر کرنا ہو گی ۔ جو قوم اپنے وسائل کی قدر کرے گی وہی دنیا کے صفحے پر اپنا وجود برقرار رکھ سکے گی۔ ہمیں عالمی یومِ آب کے حوالے سے اپنے ضمیروں کو جھنجھوڑنا چاہیئے کہ ہم اس سلسلے میں کیا کر رہے ہیں اور کیا کر سکتے ہیں۔
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 313128 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More