میں عجیب عذاب میں تھا۔ اندرون شہر اپنے
پرانے علاقے میں ایک کام تھا۔ میں گاڑی پر یہاں پہنچ گیا۔ اس قدر رش کہ
گاڑی پر یہاں تک پہنچ جانا جوئے شیر کھودنے کے برابر تھا، بہرحال غلطی ہو
گئی۔ اب کام کے بعد واپس چلا تو بھی بہت محتاط تھا۔ پتہ ہی نہیں چلتا تھا
کہ کِدھر سے کیا چیز سامنے آجائے؟ بھاگتے ہوئے مزدور یا باربرداری والی
گاڑیاں، سائیکلیں اور پتہ نہیں کیا کچھ۔ راستہ بہت مشکل سے مل رہا تھا۔
سامنے چوک نظر آیا تو کچھ اطمینان ہوا کہ چلو راستے کا ایک مشکل حصہ تو
کٹنے لگا ہے۔ اچانک ایک انتہائی تیز رفتار رکشہ پیچھے سے آیا اور اُسی تیزی
سے چوک کی طرف بڑھا۔ چوک میں پہنچ کر وہ رکشا دائیں طرف مُڑا۔ تیز رفتاری
اُسی طرح قائم تھی۔ مُڑتے وقت رکشا ایک طرف سے دو فٹ سے زیادہ اُٹھا، مجھے
لگا کہ اُلٹ جائے گا۔ مگر کچھ نہ ہوا رکشا سیدھا ہونے کے بعدپھر سپرسونک کی
سپیڈ پر اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔ اس قدر ہجوم اور اس وحشی انداز
میں رکشا چلانا، کسی بہت ہی کمال ڈرائیور کا کام ہے۔ مجھے گاڑی چلاتے ہوئے
چالیس سال ہو گئے ہیں، مگر میں شاید ایسے کمال کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ مجھے
بھی دائیں مڑنا تھا، میں مڑا تو سامنے رکشا کھڑا تھا۔ کچھ سواریاں اُتر اور
کچھ بیٹھ رہی تھیں۔ میں قریب پہنچا تو رکشا چل پڑا۔ مجھے ڈرائیور کو دیکھنے
کا اشتیاق تھا۔ مگر اُس کی برق رفتاری کا ساتھ دینا میرے بس میں نہ تھا۔ وہ
سواریاں بٹھانے یا بٹھانے کے لئے رُکتا تو اُمید ہوتی کہ میں اب اُس کے پاس
پہنچ جاؤں گا، مگر میرے پہنچنے سے پہلے وہ چل پڑتا اور ایک دم یہ جا، وہ جا۔
تھوڑی دیر یہ کھیل جاری رہا مگر پھر اگلے ایک چوک میں آخری سٹاپ آگیا۔
چالیس، پچاس رکشے وہاں کھڑے تھے، وہ رکشوں کی قطار میں سب سے پیچھے کھڑا
سوا ریاں اُتار رہا تھا اور اُن سے پیسے وُصول کر رہا تھا کہ میں وہاں پہنچ
گیا۔
اسے دیکھ کرمیں حیرا ن رہ گیا ، رکشا ڈرائیور بمشکل دس سال کا ایک بچہ تھا۔
میں نے اِردگرد نظر دوڑائی، تمام رکشے جو وہاں کھڑے تھے، اُن کے اسّی فیصد
ڈرائیور دس سے پندرہ سال کے بچے تھے۔ میں نے گاڑی ایک طرف کھڑی کی اور بڑے
اشتیاق سے اُس ننھے ڈرائیور کے پاس پہنچ گیا۔
بیٹا تم اتنی چھوٹی سی عمر میں رکشا چلاتے ہو، پولیس پوچھتی نہیں؟
میں اکیلا نہیں، سب چلاتے ہیں۔ پولیس کون ہوتی ہے پوچھنے والی؟ کوئی ٹریفک
والا زیادہ باتیں کرے تو سب رکشے اس پر چڑھا دیتے ہیں، اس لئے کوئی جرأت ہی
نہیں کرتا۔
مگر بیٹا تم چھوٹے ہو، ابھی تمہاری عمر پڑھنے کی ہے، سرکاری سطح پر چھوٹے
بچوں کو کام کرنے کی اجازت نہیں،تمھاری عمر کے بچوں سے کام لینا یا ان کا
کام کرنا دونوں جرم ہیں۔
سب پتہ ہے جی، پڑھتا بھی ہوں، بارہ بجے چھٹی ہوتی ہے، کھانا کھا کر رکشالے
کر آجاتا ہوں۔ صبح میرا ابا دو تین گھنٹے رکشہ چلاتا ہے، بیمار ہے سارا دن
چلائے تو ایک ہفتہ بیمار رہتا ہے۔ اس لئے اُسے دو، تین گھنٹے سے زیادہ
چلانے نہیں دیتے۔ بھوکے مرنے سے بہتر ہے کہ ہم اُس کی مدد کرتے رہیں۔ہمارے
کامکرنے سے ہمارا ابا بھی بیمار نہیں ہوتا اور گھر کی روٹی بھی چلتی رہتی
ہے۔ سرکار کا کیا ہے، جُرم کہتی ہے تو کہتی رہے، اُسے ہم سے زیادہ ہمدردی
ہے تو ہمارے گھر میں کھانا بھیج دے، میں رکشہ نہیں چلاؤں گا۔ یہ سارے میرے
دوست جو آپ کو رکشہ چلاتے نظر آرہے ہیں، سارے مجبور ہیں۔ کس کا دل کرتا ہے
کہ سارا دن ذلیل ہو، مگر کیا کریں پتہ ہی نہیں چلتا مہینہ گزر جاتا ہے۔
مکان کا کرایہ، بجلی کا بل، وہ بجلی جو آتی بھی نہیں۔ پتہ نہیں کتنے
اخراجات ہیں، میری ماں ہر وقت پریشان رہتی ہے۔ سرکار کو کہیں بڑی ہمدرد ہے
تو ہمارے کھانے اور رہنے کا انتظام کر دے، پڑھنا کون نہیں چاہتا۔
مجھے لگا حالات نے اُس معصوم کو وقت سے پہلے ہی بالغ کر دیا تھا، اُس کی
معصومیت چھین لی تھی۔ اُس نے سادہ سی زبان میں بہت سے سوال اُٹھائے تھے، جن
کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
پچھلے دنوں ہر سکول، ہر کالج اور ہر جامعہ کے درو دیوار پر ایک نعرہ بینروں
کی شکل میں نظر آرہا تھا ’مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے‘۔ پتہ نہیں کس
اندھے کو اندھیرے میں یہ بہت دور کی سُوجھی ہے۔ یہاں کوئی دشمن کے بچے
نہیں، سب اپنے بچے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی تعلیم سے مجرمانہ غفلت کے سبب
ہمارے بہت سے بچے جہالت کے اندھیروں میں کھو گئے ہیں۔وہ آج ہمارے بھی دشمن
ہیں اور اپنے بھی۔اب جو دشمن ہے وہ بہرحال دشمن ہے اور دشمن سے شفقت اور
رحم اپنی ذات سے ظلم ہے۔ اُس پر عنایت کی نظر تو خود کو ہلاکت میں ڈالنا
ہے۔ دشمن کبھی آپ کی بھلائی کا نہیں سوچے گا۔ آپ کیوں سوچتے ہیں؟ سوچنا ہے
تو یہ سوچیں کہ وہ کیا اسباب تھے جو نفرت کو جنم دیتے رہے، جو ہمارے بچوں
کو ہمیں سے نالاں کرتے رہے۔ہمارے بچوں کو ہمارا ہی دشمن بناتے رہے۔ اس سوچ
کا فقط ایک ہی جواب آئے گا ، تعلیم سے مجرمانہ غفلت۔ دنیا بھر میں جب بھی
کسی نے ایک فلاحی ریاست کا خاکہ تیار کیا تو اُس نے اُس کی بنیاد تعلیم پر
رکھی۔مگر ہم عجیب ہیں ہم نے کبھی تعلیم پر توجہ ہی نہیں دی۔ جبکہ تعلیم
ہوگی تو انصاف ہوگا، انصاف ہوگا تو لوگ مطمئن ہوں گے۔ لوگ مطمئن ہوں گے تو
امن ہوگا، امن ہوگا تو دہشت گردی نہیں ہوگی۔ دہشت گردی نہیں ہوگی تو معیشت
بہتر ہوگی، معیشت بہتر ہوگی تو ملک خوشحال ہوگا۔ حکمرانوں کے لئے صرف یہ
جاننا ضروری ہے کہ آج دنیا بھر میں ہر مرض کا علاج فقط اور فقط علم ہے اور
علم کا فروغ اُن کی پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔
تنویر صادق |