ھر دانشور. مذہبی رہنما, اوور مقرر و خطیب
جب عورت کے مسلہ پر بولتے ھیں تو سب سے پہلے اپنی گفتگو کا آغاز اس اعتراف
سے کرتے ھیں کہ اسلام نے عورت کو مکمل حقوق عطا کئے ھیں, شائد گفتگو اج تک
اس سے آگے نیہں بڑھ پائی ھے یا اس سے آگے اس موضوع پر تفکر کی ضرورت محسوس
نہیں کی گئی -
ایسے کتنی ھی دین کی اصطلاحات ھیں جن کو ھر ایک اپنی گفتگو اور بحث میں
استعمال کرتے ھیں لیکن شائد انکے اپنے ذہن میں بھی واضع نیہں ھوتا کہ دین
کی تعلیمات اور احکامات اس ضمن میں آخر ھیں کیا اود دین اگر اس دنیا میں
عمل کے لئے دیا گیا ہے تو ان تعلیمات کو عمل کے قابل بنانے کے لئے کیا
لائحہ عمل ہونا چاہئیے. ابھی اس پر ابھی ھمارے دانشورانِ دین کے درمیان بحث
کا آغاز بھی نیہں ہوا ھے, ایسے کتنے ہی مسائل تشنہ غور فکر ہیں, آپسی تفرقہ
بازی اور سیاست اکھڑہ بازی میں اس طرف توجہ نہ دہ جا سکی, جیسے دی جانی
چاہئے -
اسلام کی رو سے قران کے وہ احکامات جو یاایھالناس کہ کے نازل ھوئے ھیں اس
کی مخاطب انسان ھونے کی حیثیت سےعورت بھی ھے اور وہ تمام دینی معاشرتی ذمہ
داریاں عورت پر بھی لازم آتی ھیں کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اخلاص کے
ساتھ بجا لائے اور حیاتیاتی اعتبار سے عورت جن ذمہداریوں کو ادا کرنے کی
مکلف ھے وہ اسے اپنے حالات اور اوقات کے اعتبار سے ادا کرنا ھو گی. جیسے
اولاد کی پیدائش, رضاعت تربیتِ اولاد وغیرھم نسوانی فرائض جن میں شامل ھے,
یہ بات ذھن میں رہنا چاہئے کہ ھر عورت ان کی مکلف اس لئے نیہں ھو سکتی کہ
کچھ عمر رسیدگی کی بنا پہ, کچھ استعداد پیدائش نہ ھونے اور کچھ شادی نہ
ھونے کی بناء پر مستسنی قرار دی جا سکتی ھیں, یہ وہ مسائل ھں جن پر قران و
سنت کی روشنی میں گہرا غور و فکر ھونا چائیے. اور ملت کی خواتین کی تعلیم و
تربیت کی پلاننگ اس کے بعد ھے اگر اہل دانش و دینی طبقے نے اس طرف توجہ نہ
دی اور یہی کہا جاتا رہا کہ اسلام نے عورت کو تمام حقوق عطا کئے ھیں جس میں
کوئی دو رائے نہیں ھے لیکن مسلہ کا حل یہ نہیں ھے فی زمانہ کیا لائحہ عمل
ھو سکتا ھے اگر وقت کے ہوتے اس پہ غور نہ کیا گیا تو آزادی نسواں کے مغربی
ریلے میں بہنے سے مسلم عورتوں اور بچیوں کو روکنا مشکل ھو گا. واللہ اعلم |